کسانوں اور کاشتکاروں کی دکھ بھری کہانی دوسری قسط
وزارتِ تجارت بیرونی منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام رہی جسکے باعث چاول برآمد نہیں ہوا، دو سال سے گوداموں میں خراب ہورہا ہے
یہ ایک بڑا قومی المیّہ ہے کہ ملک کا سب سے اہم شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے جسکی وجہ سے آج کاشتکار بدحال اورپریشان ہے۔ وزارتِ تجارت بیرونی منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے جسکے باعث چاول برآمدنہیں ہوسکا اور پچھلے دو سال سے گوداموں میں پڑا خراب ہورہا ہے۔ چاول کے کاشتکار اور ڈیلر کو اس معاشی بحران سے نکالنا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔
اس کے تین طریقے ہیں اوّل یہ کہ مونجی کی اگلی فصل کی سرکاری قیمت (سپر باسمتی مونجی کی قیمت2200 روپے فی من اور باسمتی 86کی1400روپے فی من)مقرر کردی جائے اور حکومت پاسکو کے ذریعے خود مونجی خریدے۔ دوسرا یہ کہ ڈیلرز کے پاس پڑا ہوا چاول حکومت TCP کے ذریعے خرید کر خود برآمد کرے ورنہ پھر سبسڈی یا Rebate کے ذریعے ڈیلرز کی مدد کی جائے۔ چند ارب روپے کی حکومتی امداد سے چاول کا سنگین بحران حل ہوسکتا ہے۔
حکومت اور قوم کو یہ بات ہروقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ وطنِ عزیز کو خوراک کی خود کفالت (Food Autarky)سے محروم کرنا عالمی ساہوکاروں کا پراناایجنڈاہے۔ اور اپنے اس ھَدف کے حصول کے لیے وہ براہ راست یا بلواسطہ ہماری قومی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
اسوقت بھی ایسے لگتا ہے کہ زرعی شعبے کے پالیسی سازاداروں میں کچھ ملک دشمن گُھُسے ہوئے ہیں جنکی بے جامداخلت سے اس اہم سیکٹر کو کئی طرح سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہماری زرعی آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ 24%سے کم ہوکر 21%رہ گیا ہے۔
شعبۂ زراعت کی افرادی قوّت جو کوئی دوسرا کام نہیں جانتی بے روزگاری کا شکار ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک کو خوراک کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ ملک کے 38%باشندوں نے مہنگی ہونے کے باعث خوراک کھانی کم کردی ہے جسکے صحت پر منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیں، اُوپر سے بلاروک ٹوک انتہائی زرخیززرعی زمینوں پر ہاؤسنگ کا لونیاں بنائی جارہی ہیں۔
جس سے زیرِکاشت رقبہ سمٹ رہاہے اور خوراک کی فراہمی مزید کم ہورہی ہے۔ زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتوں کا زراعت کے شعبے کے ساتھ اسی طرح بے نیازانہ رویّہ رہا اور ہماری پالیسیاں زمینی حقائق کے برعکس بنتی رہیں تو آئیندہ چند سالوں میں ہماری فوڈ سیکیوریٹی کے حالات انتہائی خطرناک ہوجائیں گے۔
تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ کاشتکاروں کو وہ تمام سہولیات فراہم کریں جن سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس ضمن میں معیاری بیج (Quality Seed)کی فراہمی ، مناسب نرخوں پر کھاد کی دستیابی، کم نرخوں (Subsidised Rates) پر ٹریکٹر، تیل اور بجلی کی فراہمی اور کسانوں کو ان کی محنت کے معقول معاوضے کی فوری ادائیگی۔کسانوں اور کاشتکاروں کا حق ہے جو انھیں ہر صورت ملنا چاہیے۔
حکومت زراعت کی اہمیّت سمجھتے ہوئے اسے ownکرے، کاشتکار وں سے لاتعلّقی کا روّیہ ترک کرکے اس کے سر پر ہاتھ رکھّے اسے پٹوار، تحصیل، بینک اور زراعت کے اہلکاروں کے توہین آمیز سلوک سے بچائے انھیں عزّت دے ،اوران کے دکھ درد کا مداوا کرے۔
بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق نئے بیج تیّار کرنے اور بیماریوں سے مدافعت کے لیے موثّر دوا اور اسپرے کی ضرورت اور اہمیّت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔کتنا بڑا المیّہ ہے کہ آزادی کے 68 سال بعد بھی کاشتکاروں کو کسی بھی فصل کے لیے سو فیصد سرٹیفائیڈ سیڈ (مصدقہ بیج) میسّر نہیں ابھی تک صرف 20%کاشتکار مصدّقہ بیج استعمال کررہے ہیں۔ اس بیج کے استعمال سے فصل کی نمو اور فی ایکڑ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاشتکار کو مارکیٹ سے جو بیج اور دوائیاں ملتی ہیں وہ زیادہ تر دو نمبر ہیں۔اس کے علاوہ بیج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ اسے خریدنے کے لیے کاشتکار کو قرضہ درکار ہوتا ہے۔
کاشتکاروں کو آسان اقساط پر قرضے دینا بے حد ضروری ہے اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ تمام زرعی بینکوں کو پابند کرے کہ وہ بیج کے لیے دیے جانے والے قرضے کو نقد رقم کے بجائے سیڈ کارپوریشن کے نام ووچر دے دے تاکہ کاشتکاربیجائی کے لیے لازماً مستند بیج استعمال کریں۔ نیز کاشتکار کو میڈیا کے ذریعہ مستند بیج اور قابلِ اعتماد دوائیوں کی اہمیّت اور فوائد سے آگاہ اور Sensitiseکیا جائے۔کپاس، گندم اور گنے کے ماہرین جدید بیج کے نام پر ہر سال سِیڈ مافیا سے کروڑوں روپے بٹوررہے ہیں۔
وہ تنخواہ اور مراعات حکومت سے لے رہے ہیں مگر اچھا پیج بناکر پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں ایسے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور اعلٰی معیاری بیج تیار کرنے والے سائینسدانوں کو ترقی اور انعامات سے نوازنا چاہے۔ کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے کرپٹ افسروں اور سیاستدانوں سے ملی بھگت کرکے اپنی نا قص اور دونمبر دوائیاں (جن پر یورپ میں پابندی لگ چکی ہے) یہاں کھلے عام بیچ رہی ہیں۔ اس کا فوری تدارک بہت ضروری ہے۔
فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلیئے کھاد بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ مگراس کے نرخ کسان کی پہنچ سے باہرہورہے ہیں۔گزشتہ پانچ سالوں میں یوریا کے ریٹس میں 293%اور فاسفیٹ کھادمیں 289% اضافہ ہوا ہے جسکا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کھاد کے استعمال میں 20%کمی ہوگئی ہے۔ جس سے فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ہمسایہ ملک میں بیج ، کھاد اور بجلی کی فراہمی میں کاشتکاروں کو دل کھول کر سبسڈی دی جارہی ہے جس سے ان کی فی ایکڑپیداوارہم سے دوگنی ہوگئی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں کھاد اور بجلی کے نرخوں کا موازنہ ملاخطہ فرمالیں۔
بھارت کے صوبہ پنجاب میں زراعت کے لیے بجلی بالکل مفت ہے جب کہ گجرات میں ایک روپیہ فی یونٹ اور راجسھتان میں ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے ۔ جب کہ ہمارے ہاں زرعی مقاصد کے لیے کاشتکاروں کودس روپے پینتیس پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے۔
غریب کاشتکاروں کے لیے بجلی کے نرخ ناقابلِ برداشت ہیں جسکی وجہ سے زیادہ تر کاشتکاروں نے بجلی کے کنکشن کٹوا دیے ہیں اور وہ بیچارے دوبارہ ڈیزل انجن کیطرف لوٹ آئے ہیں۔یاد رہے کوئی رعایت اور کوئی سہولت نہ ملنے کے باوجود ہمارا غریب اورجفاکش کاشتکار دن رات محنت کرکے ملک کے بیس کروڑ باشندوں کو خوراک فراہم کر رہا ہے۔ اگر اسے ہمسایہ ملک جیسی امداد اور سہولتیں میّسر آجائیں تو یہاںیقینی طور پر سبزانقلاب آجائے گااور ہماری معاشی ترقّی کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا۔
پانی کے بغیر زراعت کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی صورتِ حال یہ ہے کہ1947میں صوبہ پنجاب کو 54%نہری پانی مل رہا تھا جو 1991 میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد 48.9%رہ گیاہے۔ اب ناکافی پانی کی وجہ سے کاشتکار کوٹیوب ویلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کے کل کاشتہ رقبے کا 70% سب سے بڑے صوبے میں ہے ۔
نہری اور ٹیوب ویل کے پانی کی کوالٹی کا کوئی مقابلہ نہیں 70%ٹیوب ویلوں کا پانی آبپاشی کے لیے غیرموزوں ہے نیز یہ نہری پانی سے 18%سے 25%زیادہ مہنگا ہے جسکی وجہ سے کاشتکار کا خالص منافع کم ہوجاتا ہے۔ اسوقت ہمیںپانی کی کمی کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمارا ملک 9ملین مکعب فٹ سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے۔ دونوں بڑے ڈیموں میں مٹی اورsiltجمع ہوچکی ہے جسکی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ 38سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا۔ بھاشا ڈیم کا تین وزرائے اعظم افتتاح کرچکے ہیں مگر ابھی تک ابتدائی کام بھی شروع نہیں ہوا ۔ پانی کے چیلنج پربعدمیںتفصیل سے لکھونگا۔
دنیا بھر میں کسانوں کوسبسڈی اور اجناس کی سپورٹ پرائس ملتی ہے۔کاشتکار کی سبسڈی کی مخالفت کرنے والے نام نہاد معیشت دانوں کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ ترقّی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ سبسڈی زرعی شعبے میں دی جاتی ہے۔ امریکا اورجاپان اپنے کاشتکاوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ سبسڈی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جاپان میں زرعی اجناس کی پیداوار بھارت سے بھی دوگنی ہے وہاں تمام ایگرو بیسڈ انڈسٹری دیہاتوں میں لگائی جاتی ہے۔
پالیسی سازوں کی عدم توجہی کے باعث ہم زراعت کے مختلف شعبوں سے پوری طرح استفادہ نہیں کرپارہے اس کے مختلف شعبوںیعنی فارسٹری، فش فارمنگ، پولٹری اور لائیواسٹاک میں سب سے زیادہ ترقّی لائیواسٹاک میں ممکن ہے۔ مڈل ایسٹ، فارایسٹ اور سینٹرل ایشیاپاکستان کے دودھ اور گوشت کی بہترین منڈیاں ہیں۔
پاکستان میں دودھ کی پیداوار 39بلین لٹر سے اوپر ہے اور دنیا میں اس کا چوتھا نمبر ہے۔ چھوٹے جانوروں یعنی بھیڑبکریوں میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ ہماری گائے اور بھینس کا دنیا میں کو ئی ثانی نہیں، ہماری دودھیل بکری (بیتل یا لائیلپوری بکری) کے دودھ کی مقدار دنیا بھر میں زیادہ ہے۔ بکری کے دودھ سے بنے پنیر کی دنیا میںبہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ اگر اعلٰی معیار کے ڈیری اور گوٹ فارم بنانے میں حکومت سرپرستی کرے تو دیہاتوں سے غربت ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتی ہے۔
ہمارے جانوروں کا گوشت عمدہ ذائقے کے باعث دنیا بھر میں مقبول ہے اور اس کی طلب دن بدن بڑھ رہی ہے اس سلسلے میں ہمارے چھوٹے جانور (small cattle) ایک ایسی دولت ہے جسکے صحیح استعمال سے پاکستان آئی ایم ایف سے مستقل نجات حاصل کرسکتا ہے ۔
اس ضمن میں مَیں سب سے بڑے اورزرعی صوبے کے پرجوش اور dynamic وزیراعلیٰ سے براہ راست بات کرونگا کہ محترم شہباز شریف صاحب! پنجاب کے کروڑوں کاشتکار آپکی طرف دیکھ رہے ہیں، زرعی شعبے کو بحران سے نکالنے کے لیے آپ کوآگے بڑھکر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے ۔ میٹرو یقینا ایک مفید منصوبہ ہے لیکن اس کا فائدہ چند لاکھ افراد کو ہوگا مگر زراعت سے صوبہ پنجاب کے نو کروڑ افراد وابستہ ہیں ان کا بھی آپ پر حق ہے۔
آپ اس اہم ترین سیکٹر کو ownکریں اور قوم کے محسن یعنی کاشتکارکے مٹی آلود ہاتھ پکڑلیں،اسے سینے سے لگالیں۔ اگر آپ نے زراعت کو ترقّی دینے کا تہیّہ کرلیا تو ہمیںیقین ہے کہ صرف پنجاب کی زراعت انقلاب برپا کردیگی اور یہ صوبہ پورے ملک کے قرضے اتار دیگا۔لہٰذا آپ سب کچھ چھوڑ کر چاول، کپاس، آلو اور گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ خود ملاقاتیں کریں ان کے مسائل کے حل کے لیے ٹائم فریم مقرر کریں اور اس کی خود نگرانی کریں۔
شہباز شریف صاحب! آپ کا خلوص اور عزم کروڑوں بدحال اور شکستہ دل کسانوں کو خوشی اور خوشحالی سے ہمکنار کرسکتاہے۔( اگلے کالم میںاٹھارہویں ترمیم کے مضر اثرات اور زراعت میں بہتری کے لیے کچھ عملی تجاویزپربات ہوگی)