پیپلزپارٹی کی شکست و ریخت کی اصل وجہ
پیپلزپارٹی کی شکست کی اصل وجہ پچھلے 5 سالہ دور اقتدار کی کارکردگی ہے جسے وہ اب سندھ میں بڑی تندہی سے جاری رکھے ہوئے ہے
محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل تباہی اور شکست و ریخت سے دوچار ہوتی آ رہی ہے۔ اُس کی اِس حالتِ زار کی وجوہات تو ویسے بہت سی ہیں لیکن اُس کی گرتی ہوئی مقبولیت اور ساکھ کی اصل وجہ اُس کی وہ کارکردگی ہے جس کا مظاہرہ اُس نے اپنے پچھلے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں کیا تھا اور جسے وہ اب صوبہ سندھ میں بھی بڑی تندہی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
پارٹی کو چھوڑ کے جانے اور تحریکِ انصاف جوائن کرنے والے چند ایک لیڈروں نے اُس کی زبوں حالی کی وجہ بظاہر یہ بتائی ہے کہ پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کے وفاقی حکومت کے ساتھ فرینڈلی رویے نے عوام کو اُس سے دور کر دیا ہے۔ چونکہ پارٹی اِس وقت بیک وقت اپوزیشن میں بھی ہے اور حکومت میں بھی اِس لیے لوگ اُس سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور یہی حکمتِ عملی اُسے تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو فرینڈلی اپوزیشن کا کردار کوئی اتنا ضرر رساں نہیں ہوتا کہ پارٹی کا ملک کے باقی تینوں صوبوں سے تقریباً صفایا ہو جائے۔
یہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار تو سابقہ پی پی دور میں مسلم لیگ (ن) نے بھی ادا کیا تھا لیکن وہ تو شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوئی بلکہ عوام نے تو اُسے 2013ء کے انتخابات میں واضح اکثریت سے حکمرانی کا مینڈیٹ عطا کیا۔ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کے جانے والے دراصل پارٹی کی غیر مقبولیت کی اصل وجہ بتانے سے کترا رہے ہیں۔ وہ جب تک حقائق تسلیم نہیں کرینگے پارٹی کو موجودہ بحران سے نہیں نکال پائینگے۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پارٹی کے بڑے بڑے رہنماؤں اور کرتا دھرتاؤں کی نہ ختم ہونے والی کرپشن اور بد عنوانی ہی اُس کی اصل وجہ ہے۔
پی پی پی کے سابقہ دور میں مالی بد عنوانی کے لا تعداد کیس منظر عام پر لائے گئے۔ ملک کا کوئی ایسا ادارہ باقی نہیں بچا تھا جسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا نہ گیا ہو۔ خود سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی پر لوٹ مار کے بہت سے الزامات لگائے گئے اور وہ اُن کا جرأتمندانہ سامنا نہ کر سکے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک کی اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ 2010ء کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ترک وزیرِ اعظم کی اہلیہ کی جانب سے دیا جانے والا لاکٹ بھی اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے۔
اُنکے بعد آنے والے راجہ پرویز اشرف جو اُس دور میں دوسرے وزیر ِاعظم بنائے گئے تھے اُن کے ہاتھ بھی کرپشن کی ایسی ہی وارداتوں رنگے ہوئے تھے۔ رینٹل پاور جیسے ناقص اور فضول منصوبے بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف مال بنانے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔
آصف علی زرداری ویسے تو بہت ہشیار اور ذہین سمجھے جاتے ہیں، لیکن اُن کی ساری ذہانت اور سمجھداری صرف ذاتی مفادات تک ہی محدود رہی ہے۔ وہ اگر اُس وقت دوستانہ اور مفاہمتی سیاست کی گرو سمجھے جاتے تھے تو اُس کے پیچھے بھی یہی عنصر اور نظریہ کارفرما تھا۔ سب کو یاد ہے اُن کے صدارتی انتخاب کے وقت صوبہ خیبر پختوں خوا کی اسمبلی میں اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کے ارکان نے اُن کے حق میں اپنا ووٹ کس طرح دکھا دکھا کر ڈالا تھا۔
یہی نظریہ مفاہمت اُنہوں نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بھی روا رکھا تھا۔ اُن کے دور میں ریلوے مسلسل تباہی سے دوچار ہوتی رہی اور وہ اے این پی کے غلام محمد بلور کو ریلوے کی وزارت سے ہٹا نہ سکے۔ عدالت کے کہنے پر ایک بدعنوان وزیرِ اعظم کو تو ہٹا دیا لیکن اُن کی جگہ کسی دوسرے شریف النفس شخص کو لانے کی بجائے راجہ پرویز اشرف کو لے آئے جن کے خلاف پہلے سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ ایک زرداری سب پر بھاری کی اصطلاح کوئی یونہی نہیں تخلیق کی گئی تھی۔ اِس کے بنانے والوں نے بھی زرداری کی ایسی ہی صفات اور خوبیوں کو سامنے رکھا ہو گا۔
پارٹی کے اکابرین کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ 2013ء کے انتخابات میں اگر عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کر دیا تھا تو اُس کی وجوہات کیا تھیں۔ اُس وقت تو مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں نہ کوئی حکومت تھی نہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فرینڈلی اپوزیشن۔ گرچہ ملک کے بیشتر نقاد اور تبصرہ نگار اُن دنوں پی پی کی قیادت کو یہ باور کراتے رہے کہ اگر اُنہوں نے اپنا طریقہ کار اور اندازِ حکومت نہیں بدلا تو پھر پارٹی کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا لیکن اُس وقت کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، چوہدری افضل چن، صمصام بخاری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سمیت ہر کوئی پارٹی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے قاصر اور انکاری تھا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پارٹی تباہ ہوتی جا رہی ہے اور وہ ابھی بھی حقیقت تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ پارٹی اگر کنٹونمنٹ بورڈ کی الیکشن اور پھر گلگت بلتستان اور خیبر پختون خوا کی انتخابات میں مسلسل شکست سے دوچار رہی ہے تو اصل وجوہات پر غور کرنے کی بجائے وہ غلط مفروضوں پر توجیہات پیش کر نے پر مصر ہیں۔ ادھر ایک صوبے سندھ جس میں اُنہیں حکومت کرنے کا موقعہ ہر بار ملتا رہا ہے وہاں کی گورننس اور طرز حکمرانی پر ہی اگر غور کر لیا جائے تو پارٹی کو اپنی شکست و ریخت کے اصل اسباب معلوم ہو جائیں گے۔
اِس وقت پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں جن سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے وہ کارکردگی کے مقابلے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ جب کہ صوبہ سندھ میں حکمرانی کا عجب ہی حال ہے۔ یہاں نہ ترقی کی خواہش دکھائی دیتی ہے اور نہ کسی مقابلے کا رجحان۔ بس مال بنانے کی کوششوں میں سب ہی مگن ہیں۔ اب اگر کوئی اُنہیں کرپشن سے روکنے کی کوشش کرے تو وہ اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کی جانے لگتی ہے۔
یہی انداز حکومت اور طرز حکمرانی پارٹی کے زوال کی اصل وجہ ہے۔ آج اگر اُس کے ووٹر اور کارکنان پارٹی کی حمایت سے دستبردار ہو کر کسی دوسری پارٹی کی جانب مائل ہونے لگے ہیں، تو قیادت کو خود اپنا احتساب کرنا چاہیے نہ کہ فرینڈلی اپوزیشن کو اُس کی وجہ قرار دے کر جان چھڑانی چاہیے۔ فرینڈلی اپوزیشن اگر میاں صاحب کی ضرورت ہے تو خود پیپلز پارٹی کی بھی مجبوری ہے۔ میاں صاحب نے اقتدار میں آ کر مفاہمتی رویہ اختیار کر کے زرداری اور اُنکے لوگوں کے خلاف کسی مقدمہ بازی سے اجتناب کیا ہے تو جواب میں پیپلز پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانا ہی لازمی اور ضروری بنتا تھا، لیکن اب ہماری اسٹیبلشمنٹ نے تہیہ کر لیا کہ بہت ہو چکا، ملک اور قوم کو مزید لوٹنے نہیں دیا جائے گا۔
جو کرپشن کرے گا وہ اپنا حساب خود دے گا۔ میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ وہ اگر ایسا کریں گے تو خود اُن کا اقتدار بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ لہذا اُن کی مجبوری ہے کہ صفائی ستھرائی کا جو عمل شروع ہو چکا ہے اُسے مکمل ہونے دیا جائے۔ اب اگر پیپلز پارٹی اِس احتسابی ریلے میں خود کو نہیں بچا سکتی تو یہ کسی اور کا قصور نہیں ہے۔ اُس کے اپنے لوگ اِس بربادی اور تباہی کے ذمے دار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کو تحریک ِانصاف کی شکل میں ایک متبادل پارٹی مل گئی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر مجبوراً اُس کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اور اُس کے اکابرین کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی حمایت اور اُنکے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھٹو کے نام کو استعمال کرنا، اب مزید ممکن نہیں رہا۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ صرف نعروں پر زندہ رہنے کی بجائے ترقی و خوشحالی کے خواہاں ہیں۔
اب اِس ملک میں وہی سیاسی پارٹی عوام کے دلوں میں گھر کرے گی جو اُنہیں مصائب و مشکلات سے نجات دلائے گی۔ ستر اور اسّی کی دہائیاں اب بیت چکی ہیں۔ عوام طلسماتی نعروں اور وعدوں پر کسی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جو اُن کے مسائل حل کرے گا وہی کامیاب و کامران ہو گا اور جو لوٹ مار کرے گا وہ نیست و نابود ہو گا۔