واعظ و نصیحت کا اثر کیوں نہیں ہوتا
آج ہم معاشرتی واخلاقی پستیوں میں پڑے ہوئے ہیں ہم میں سے اکثر لوگوں کا کردار قرآن کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے
ہم میں سے نہ جانے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم پر من حیث القوم کسی واعظ و نصیحت کا اثر ہوتا دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ رمضان کے مہینے میں مساجد بھرنے کے باوجود اور بے شمار تبلیغی اجتماعوں کے باوجود ہماری اخلاقی حالت دن بدن بہتر ہونے کے بجائے خراب کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ ایک محفل میں کسی نے ہم سے یہ سوال کر لیا کہ ابلاغ کا اثر لوگوں پرکیوں نہیں ہوتا؟ مفکرین اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
ہم نے اپنے ننھے سے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے مغربی مفکرین کے پیش کردہ کچھ نظریات بیان کر کے اپنی عزت بچانے کی کوشش کی اور کہا کہ ابلاغ کے لوگوں پر اثرات سے متعلق مختلف ماہرین ِابلاغیات کے مختلف نظریات ہیں۔ جن میں، بندوق کی گولی کا نظریہ، انجکشن کی سوئی کا نظریہ، پیش ترتیبی کا مفروضہ، عمرانی درجات اور عمرانی تعلقات کا نظریہ' ثقافتی اقدار کا نظریہ، افادہ اور تسکین کا تصور، اثرات اور بے اثری کے نظریات، تشدد کے نظریات، مشاہداتی، اکتسابی نظریہ، استحکام کا نظریہ، رویے میں تبدیلی کے مختلف نظریات، نظریہ نفوذ اور نظریہ مظہریت پسند وغیرہ شامل ہیں۔
ہم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بندوق کی گولی اور انجکشن کی سوئی کے نظریہ کے مطابق پریس بندوق سے نکلنے والی کسی گولی کی طرح ٹھیک اپنے نشانے پر پہنچتا ہے اور جس طرح ایک سوئی جسم میں داخل ہو کر دوا کو فوری طور پر پورے جسم میں شامل کر دیتی ہے بالکل ویسے ہی ذرایع ابلاغ لوگوں میں اپنے اثرات ڈال دیتے ہیں۔
ثقافتی اقدار کے نظریے کے تحت ذرایع ابلاغ رائے عامہ کی تبدیلی، میں نئی اقدار کی تخلیق اور موجودہ طرز عمل میں انقلاب کے ذریعے نئے ثقافتی رحجانات پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کی سوچ و پسند اور مزاج میں بھی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ اس نظر یے کی بنیاد یہ ہے کہ اگر پیشگی ترتیب کے نظریے کے تحت ذرایع ابلاغ سے پروگرام ترتیب دیے جائیں تو یقینا یہ لوگوں کی ثقافتی اقدار کی تبدیلی کا باعث ہو گی البتہ یہ طے نہیں کیا جا سکتا ہے کس تیزی اور کسی شرح سے یہ تبدیلی واقع ہو گی۔
رویے میں تبدیلی سے متعلق ''وقوفی موافقت'' کا نظریہ کئی ماہرین نے پیش کیا، ان ماہرین نے اپنی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوگ ذرایع ابلاغ کے پیغامات کو اپنے ارد گرد کے عقائد اور اقدار سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ایسے پیغامات کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے عقائد واقدار سے ہم آہنگ نہ ہوں، گویا وہ اپنے موجودہ نظریات کو بچانے کی کوشش کر تے ہیں۔
ترجیحی انتخاب نظریہ کے مطابق لوگ ایسے ابلاغی پیغامات پر جلد توجہ دیتے ہیں جو ان کے پہلے ہی اختیار کردہ رویوں اور مفادات کے مطابق ہوں، لیکن وہ ایسے پیغامات کو قبول کر نے سے پرہیز کرتے ہیں جن سے عدم موافقت پیدا ہوتی ہو۔
ترجیحی یاد داشت نظریے کے تحت ایسی معلومات کو جلد ذہین نشین کر لیتے ہیں یا زیادہ عرصے تک یاد رکھتے ہیں جو ان کے رویوں اور مفادات سے مطابقت رکھتی ہوں۔ ایک شخص کسی پیغام کا ترجیحی انتخاب کرتا ہے اس کا ادراک کرتا ہے، اس مرحلے کے بعد وہ پیغامات جو اُس کے خیالات سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ جلد ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں جب کہ دیگر دوسرے پیغامات مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پیغامات شعور سے لاشعور اور تحت الشعور تک چلے جاتے ہیں اور وقتِ ضرورت دوبارہ ذہن میں یاد داشت کے طور پر آ جاتے ہیں۔
ترجیحی ادراک کے نظریے کے تحت بعض افراد پیغامات وصول کرنے کے بعد اس سے اپنے خیالات کے مطابق نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔ فرض کریں ایک گلاس میں پانی موجود ہے ۔ ایک شخص کہتا ہے کہ آدھا گلاس بھرا ہے جب کہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ آدھا گلاس خالی ہے، یوں ایک ہی موضوع اور ایک ہی پیغام کے بارے میں لوگوں کے ادراک کے مختلف ہوتے ہیں۔
ترجیحی عمل کے نظریے کے تحت رویے میں تبدیلی شعوری عمل کے تحت بھی ہوتی ہے، ذرایع ابلاغ سے بے شمار پیغامات جاری رہتے ہیں جب کہ پیغامات زیادہ پُر کشش ہوں یا پیغام وصول کنند ہ کے خیالات، نظریات، عقائد اور پسند و ناپسند سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان پر عمل کرتے ہیں اور دیر تک یاد بھی رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ایسے پیغامات جو وصول کنندہ کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتے یا جو کہ ان کے نظریات کے برعکس ہوں اُنہیں یاد رکھنا یا اُن پر عمل کرنا لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔
محفل میں بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے کہا برخوردار اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں، میں نے کہا ، جی ضرور، پھر بزرگ کہنے لگے کہ مغربی مفکرین کے ابلاغ کے اثرات سے متعلق خیالات میں مختلف زاویے اپنی جگہ تاہم دین اسلام میں قرآن و حدیث کے حوالے سے جو رہنمائی ملتی ہے ان میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جب اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے تو کن لوگوں پر اس کا مثبت اثر ہوتا ہے اور کن لوگوں پر اس کا بالکل ہی اثر نہیں ہوتا۔
جن لوگوں پر اثر ہوتا ہے یعنی اللہ کے پیغام کا موثر اثر ہوتا ہے وہ وہی ہوتے ہیں جو قطعی آزادانہ طور پر درست راستہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس اللہ کے نبی و رسول سے منہ زبانی پیغام پہنچے یا کسی اور مبلغ کی طرف سے یا کسی اور ذریعے سے تحریری شکل میں پہنچے، ان پر اس پیغام یعنی ابلاغ کا صد فیصد اثر ہوتا ہے اور ایسا موثر ابلاغ کا نمونہ سامنے آتا ہے کہ پیغام وصول کرنے والا اپنے پرانے مذہبی و ثقافتی نظریات یکسر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے البتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر بالکل اثر نہیں ہوتا۔ قرآن و حدیث میں بے شمار جگہوں پر اس سلسلے میں واضح رہنمائی ملتی ہے۔
مثلاً سورہ یوسف کی آیت نمبر42 کا ترجمہ ہے کہ ''اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ آئے۔'' یعنی ظاہری طور پر وہ قرآن تو سنتے ہیں لیکن سننے کا مقصد چونکہ طلب ہدایت نہیں، اس لیے انھیں اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح ایک بہرے کو فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورہ الانبیاء کی 45 ویں آیت کا ترجمہ ہے کہ ''کہہ دیجیے؛ میں تو تمھیں اللہ کی وحی کے ذریعے آگاہ کرتا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جب کہ انھیں آگاہ کیا جائے۔'' ان بزرگ نے پھر کہا کہ کسی بھی پیغام کا مثبت اثر صرف اسوقت ہو گا کہ جب پیغام وصول کرنیوالا دل سے اس کے لیے تیار بھی ہو۔
میرے بزرگ کی بات یقینا اپنی جگہ درست ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے قرآن کا وہ پیغام دیا کہ جس کو قبول کر کے عرب کی ایک پست قوم دنیا کی مہذب ترین قوم بن گئی، جب کہ وہ ہی پیغام صبح و شام وصول کرنے کے باوجود آج ہم معاشرتی و اخلاقی پستیوں میں پڑے ہوئے ہیں ہم میں سے اکثر لوگوں کا کردار قرآن کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم قرآن و سنت کی یا کسی بھی واعظ کی محفل میں اس ارادے اور نیت سے نہیں شریک ہوتے کہ ہم نے کچھ نصیحت حاصل کرنی ہے اور اس پر کچھ عمل بھی کرنا ہے، بلکہ محض فیشن کے طور پر یا دل کے بہلاوے کے لیے، آیے اپنے آپ سے عہد کریں آیندہ کسی ایسی محفل میں جانے سے قبل یا کچھ پڑھنے سے قبل ہم یہ ارادہ کریں گے کہ ہم نے کچھ نصیحت حاصل کرنی ہے اور عمل بھی کرنا ہے۔