ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا بنے گا
پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ بھی فٹبال کی مانند ہے، ہر سال حکام اسے کک لگا کر کہیں اور پہنچا دیتے ہیں۔
ISLAMABAD:
پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ بھی فٹبال کی مانند ہے، ہر سال حکام اسے کک لگا کر کہیں اور پہنچا دیتے ہیں مگر اگلے برس خیال آتا ہے ارے یہ سسٹم ٹھیک نہیں کچھ اور کرتے ہیں،ان دنوں بھی ہر جانب ڈومیسٹک نظام میں مجوزہ تبدیلیوں کا ذکر چل رہا ہے، اصل مسئلہ بعض اچھی ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے ساتھ ہے جنھیں اب فرسٹ کلاس ایونٹ میں جگہ بنانے کیلیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا،ایسے میں کچھ بھی غلط ہوا تو ان کے کروڑوں روپے ضائع اور ٹیم گریڈ ٹو تک محدود رہ جائے گی۔
بعض ڈپارٹمنٹس نے تو معروف کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے پر اسی لیے ملازمت دی تاکہ وہ ان کیلیے عمدہ کھیل پیش کر کے اچھی شہرت کا باعث بنیں،کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ سے دور یا ریٹائر بھی ہو جائے تو ملازمت ختم نہیں ہوتی، 20،25سال قبل کھیل سے علیحدگی اختیار کرنے والے اب بھی اپنے اداروں سے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، معین خان کی مثال سامنے ہے، وہ پہلے بورڈ سے وابستہ رہے اور اب بھی اپنی اکیڈمی چلا رہے ہیں مگر پی آئی اے سے تنخواہ کا چیک اور دیگر مراعات ہر ماہ انھیں ملتی ہیں، بدقسمتی سے ہماری ریجنل کرکٹ میں اتنا پیسہ نہیں ہے۔
کھلاڑی بیچارے سال میں 2، ڈھائی لاکھ روپے بھی کما لیں تو بہت ہے، اتنی رقم سے کوئی گھر نہیں چلایا جا سکتا، گوکہ بورڈ دعویٰ کر رہا ہے کہ ریجنل ٹیمیں فروخت کر دے گا اور سب کے پاس دولت کی فراوانی ہوگی مگر اس پر یقین کرنا آسان نہیں، شاید ایک،2ریجنز کو کوئی اسپانسر مل جائے مگر باقی کیا کریں گے؟ ساتھ ہی وہ اسپانسر کتنے سال ریجن کے ساتھ رہے گا؟ یہ سوال جواب طلب ہیں، اسی طرح پہلے ہی ریجنل کرکٹ میں سفارش اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے، اگر اسپانسر کا نمائندہ مینجنگ ڈائریکٹر بنا تو معاملات مزید خراب ہوں گے،اعلیٰ حکام کے بھانجے بھتیجے بھی فرسٹ کلاس کرکٹر کا ''اعزاز'' حاصل کر لیں گے،ظاہر ہے جو پیسہ دے گا اس کے سامنے کوئی کیا کہے گا، اسی کے ساتھ ملک کے کئی بڑے اداروں کی اپنی ٹیمیں ہیں، وہ کسی ریجن کو کیوں سپورٹ کریں یقیناً یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
مجھے ایسے میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو ایک سابق کپتان نے سنایا تھا، اس نے بتایاکہ ''ٹیم میٹنگ میں طے ہوتا تھا کہ اوپنرز کو میں آؤٹ کرلوں گا، مڈل آرڈر کو تو اڑا دینا، فلاں وکٹ اسے مل جائے گی، اسی طرح بیٹنگ میں فلاں فلاں اتنے رنز بنا دے گا، یوں ہم جیت جائیں گے، مگر پھر جب میدان میں جاتے تو سب الٹ پلٹ ہوتا'' کہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی یہ نہ ہو، ابھی باتیں ہو رہی ہیں کہ کراچی کو فلاں اسپانسر کرے گا، لاہور کو یہ کمپنی مل جائے گی، یہ سب کاغذی باتیں لگتی ہیں،چلیں مان لیا بڑے شہروں کو اسپانسر شپ مل جائے گی مگر چھوٹے ریجنز کا کیا ہو گا، ان کے کھلاڑی تو احساس محرومی کا شکار ہی رہیں گے، دولت زیادہ آنے سے کرپشن بھی بڑھے گی، ٹیموں کو تنزلی سے بچانے کیلیے رقوم بھی خرچ ہوں گی۔
اسی طرح ڈپارٹمنٹس اگر ٹیمیں بند کرنے لگے تو یہ ہوائی منصوبہ خاصا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ فی الحال موجودہ نظام برقرار رکھ کر تمام ٹیموں کے نمائندوں کو بلایا جائے، سابق کرکٹرز بھی میٹنگ میں مدعو ہوں، اگر سب متفق ہو جائیں تو ضرور تبدیلی کریں مگر فوراً نہیں اگلے سیزن سے ایسا کرنا مناسب ہو گا تاکہ سب کو پہلے سے علم ہو اور تیاری کیلیے وقت مل جائے۔ ابھی تو حکام خود ہی کنفیوژ نظر آتے ہیں، پہلے سپر لیگ کیلیے ان تاریخوں کا اعلان کیا جب پلیئرز اور یو اے ای کے گراؤنڈز فارغ نہیں، پھر ڈومیسٹک کوالیفائنگ ایونٹ یکم اگست سے کرانے کا فیصلہ ہوا۔
حیران کن طور پر کسی نے نہ سوچا کہ ان دنوں کئی کھلاڑی انگلش لیگ کرکٹ کھیل رہے ہوں گے، جب شور مچا تو یہ بات بھی میڈیا کے ذریعے بورڈ کو پتا چلی تو اب 17ستمبر سے انعقاد کا اعلان ہوا، اس سے پلاننگ کے فقدان اور کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے،ارباب اختیار اس وقت صرف پیسے کا سوچ رہے ہیں،سپر لیگ سے رقم کما لیں، ڈومیسٹک سیزن سے پیسہ کمائیں، یہ اچھی بات ہے مگر کرکٹ کی بہتری کا بھی تو سوچیں، بھارت نے اپنی ٹیم کو مضبوط کیا اور پھر آئی پی ایل شروع کی جس پر اسپانسرز کی لائن لگ گئی اور اسے اربوں روپے کا فائدہ ہوا، بدقسمتی سے ہماری ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو بہت نیچے جا چکی،پہلے اپنی کرکٹ بہتر بنائیں پھر فائدہ ہوگا، گراس روٹ کی سطح پر کھیل کو فروغ دیں، ارے ہاں اس سے یاد آیا کہ بورڈ نے ہارون رشید کی جگہ نئے ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ کا تقرر بھی کر دیا ہے۔
یہ عہدہ ماضی میں بڑے بڑے کرکٹرز کے پاس تھا مگر اب کسی ایل سی سی سی کے سابق آفیشل و بزنسمین کو سونپا گیا ہے جو شاید اپنے ادارے کی ایک ٹیم بھی چلاتے رہے جو کبھی ترقی نہ کر سکی، امید ہے کہ ایزاد سید اس کا ازالہ ملکی کرکٹ کو عروج پر لے جانے میں مدد دے کر کریں گے، سابق کرکٹرز ان دنوں بورڈ سے خوش نہیں، انھیں گلہ ہے کہ ہم درخواستیں دیں مگر تقرر بورڈ کے اپنے ہی کسی بندے کا ہوتا ہے، ایسے میں کیا فائدہ،یہ پی سی بی کیلیے لمحہ فکریہ ہے سابق کرکٹرز اگر ایسا سوچیں گے تو اس کی ساکھ کا کیا بنے گا۔ کرکٹ بورڈ میں اگر کرکٹرز ہی نہ ہوئے تو اس کا اﷲ ہی حافظ ہے، اس فہرست میں طویل عرصے سے عہدوں پر براجمان آفیشلز کو شامل کرنے کا فائدہ نہیں، جب تک موقع سے محروم سابق اسٹارز کو نہ آزمایا جائے بہتری کی زیادہ امید رکھنا فضول ہوگا۔ ویسے کبھی کبھی دل میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ ہمارا ڈومیسٹک کرکٹ نظام واقعی اتنا خراب ہے تو یاسر شاہ، سرفراز احمد اور اس جیسے کھلاڑی نجانے کیسے منظر عام پر آ گئے۔
پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ بھی فٹبال کی مانند ہے، ہر سال حکام اسے کک لگا کر کہیں اور پہنچا دیتے ہیں مگر اگلے برس خیال آتا ہے ارے یہ سسٹم ٹھیک نہیں کچھ اور کرتے ہیں،ان دنوں بھی ہر جانب ڈومیسٹک نظام میں مجوزہ تبدیلیوں کا ذکر چل رہا ہے، اصل مسئلہ بعض اچھی ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے ساتھ ہے جنھیں اب فرسٹ کلاس ایونٹ میں جگہ بنانے کیلیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا،ایسے میں کچھ بھی غلط ہوا تو ان کے کروڑوں روپے ضائع اور ٹیم گریڈ ٹو تک محدود رہ جائے گی۔
بعض ڈپارٹمنٹس نے تو معروف کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے پر اسی لیے ملازمت دی تاکہ وہ ان کیلیے عمدہ کھیل پیش کر کے اچھی شہرت کا باعث بنیں،کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ سے دور یا ریٹائر بھی ہو جائے تو ملازمت ختم نہیں ہوتی، 20،25سال قبل کھیل سے علیحدگی اختیار کرنے والے اب بھی اپنے اداروں سے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، معین خان کی مثال سامنے ہے، وہ پہلے بورڈ سے وابستہ رہے اور اب بھی اپنی اکیڈمی چلا رہے ہیں مگر پی آئی اے سے تنخواہ کا چیک اور دیگر مراعات ہر ماہ انھیں ملتی ہیں، بدقسمتی سے ہماری ریجنل کرکٹ میں اتنا پیسہ نہیں ہے۔
کھلاڑی بیچارے سال میں 2، ڈھائی لاکھ روپے بھی کما لیں تو بہت ہے، اتنی رقم سے کوئی گھر نہیں چلایا جا سکتا، گوکہ بورڈ دعویٰ کر رہا ہے کہ ریجنل ٹیمیں فروخت کر دے گا اور سب کے پاس دولت کی فراوانی ہوگی مگر اس پر یقین کرنا آسان نہیں، شاید ایک،2ریجنز کو کوئی اسپانسر مل جائے مگر باقی کیا کریں گے؟ ساتھ ہی وہ اسپانسر کتنے سال ریجن کے ساتھ رہے گا؟ یہ سوال جواب طلب ہیں، اسی طرح پہلے ہی ریجنل کرکٹ میں سفارش اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے، اگر اسپانسر کا نمائندہ مینجنگ ڈائریکٹر بنا تو معاملات مزید خراب ہوں گے،اعلیٰ حکام کے بھانجے بھتیجے بھی فرسٹ کلاس کرکٹر کا ''اعزاز'' حاصل کر لیں گے،ظاہر ہے جو پیسہ دے گا اس کے سامنے کوئی کیا کہے گا، اسی کے ساتھ ملک کے کئی بڑے اداروں کی اپنی ٹیمیں ہیں، وہ کسی ریجن کو کیوں سپورٹ کریں یقیناً یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
مجھے ایسے میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو ایک سابق کپتان نے سنایا تھا، اس نے بتایاکہ ''ٹیم میٹنگ میں طے ہوتا تھا کہ اوپنرز کو میں آؤٹ کرلوں گا، مڈل آرڈر کو تو اڑا دینا، فلاں وکٹ اسے مل جائے گی، اسی طرح بیٹنگ میں فلاں فلاں اتنے رنز بنا دے گا، یوں ہم جیت جائیں گے، مگر پھر جب میدان میں جاتے تو سب الٹ پلٹ ہوتا'' کہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی یہ نہ ہو، ابھی باتیں ہو رہی ہیں کہ کراچی کو فلاں اسپانسر کرے گا، لاہور کو یہ کمپنی مل جائے گی، یہ سب کاغذی باتیں لگتی ہیں،چلیں مان لیا بڑے شہروں کو اسپانسر شپ مل جائے گی مگر چھوٹے ریجنز کا کیا ہو گا، ان کے کھلاڑی تو احساس محرومی کا شکار ہی رہیں گے، دولت زیادہ آنے سے کرپشن بھی بڑھے گی، ٹیموں کو تنزلی سے بچانے کیلیے رقوم بھی خرچ ہوں گی۔
اسی طرح ڈپارٹمنٹس اگر ٹیمیں بند کرنے لگے تو یہ ہوائی منصوبہ خاصا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ فی الحال موجودہ نظام برقرار رکھ کر تمام ٹیموں کے نمائندوں کو بلایا جائے، سابق کرکٹرز بھی میٹنگ میں مدعو ہوں، اگر سب متفق ہو جائیں تو ضرور تبدیلی کریں مگر فوراً نہیں اگلے سیزن سے ایسا کرنا مناسب ہو گا تاکہ سب کو پہلے سے علم ہو اور تیاری کیلیے وقت مل جائے۔ ابھی تو حکام خود ہی کنفیوژ نظر آتے ہیں، پہلے سپر لیگ کیلیے ان تاریخوں کا اعلان کیا جب پلیئرز اور یو اے ای کے گراؤنڈز فارغ نہیں، پھر ڈومیسٹک کوالیفائنگ ایونٹ یکم اگست سے کرانے کا فیصلہ ہوا۔
حیران کن طور پر کسی نے نہ سوچا کہ ان دنوں کئی کھلاڑی انگلش لیگ کرکٹ کھیل رہے ہوں گے، جب شور مچا تو یہ بات بھی میڈیا کے ذریعے بورڈ کو پتا چلی تو اب 17ستمبر سے انعقاد کا اعلان ہوا، اس سے پلاننگ کے فقدان اور کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے،ارباب اختیار اس وقت صرف پیسے کا سوچ رہے ہیں،سپر لیگ سے رقم کما لیں، ڈومیسٹک سیزن سے پیسہ کمائیں، یہ اچھی بات ہے مگر کرکٹ کی بہتری کا بھی تو سوچیں، بھارت نے اپنی ٹیم کو مضبوط کیا اور پھر آئی پی ایل شروع کی جس پر اسپانسرز کی لائن لگ گئی اور اسے اربوں روپے کا فائدہ ہوا، بدقسمتی سے ہماری ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو بہت نیچے جا چکی،پہلے اپنی کرکٹ بہتر بنائیں پھر فائدہ ہوگا، گراس روٹ کی سطح پر کھیل کو فروغ دیں، ارے ہاں اس سے یاد آیا کہ بورڈ نے ہارون رشید کی جگہ نئے ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ کا تقرر بھی کر دیا ہے۔
یہ عہدہ ماضی میں بڑے بڑے کرکٹرز کے پاس تھا مگر اب کسی ایل سی سی سی کے سابق آفیشل و بزنسمین کو سونپا گیا ہے جو شاید اپنے ادارے کی ایک ٹیم بھی چلاتے رہے جو کبھی ترقی نہ کر سکی، امید ہے کہ ایزاد سید اس کا ازالہ ملکی کرکٹ کو عروج پر لے جانے میں مدد دے کر کریں گے، سابق کرکٹرز ان دنوں بورڈ سے خوش نہیں، انھیں گلہ ہے کہ ہم درخواستیں دیں مگر تقرر بورڈ کے اپنے ہی کسی بندے کا ہوتا ہے، ایسے میں کیا فائدہ،یہ پی سی بی کیلیے لمحہ فکریہ ہے سابق کرکٹرز اگر ایسا سوچیں گے تو اس کی ساکھ کا کیا بنے گا۔ کرکٹ بورڈ میں اگر کرکٹرز ہی نہ ہوئے تو اس کا اﷲ ہی حافظ ہے، اس فہرست میں طویل عرصے سے عہدوں پر براجمان آفیشلز کو شامل کرنے کا فائدہ نہیں، جب تک موقع سے محروم سابق اسٹارز کو نہ آزمایا جائے بہتری کی زیادہ امید رکھنا فضول ہوگا۔ ویسے کبھی کبھی دل میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ ہمارا ڈومیسٹک کرکٹ نظام واقعی اتنا خراب ہے تو یاسر شاہ، سرفراز احمد اور اس جیسے کھلاڑی نجانے کیسے منظر عام پر آ گئے۔