سپریم کورٹ نے نیب سے کرپشن کیسز میں وصول کی گئی رقوم کی تفصیلات طلب کرلیں
بتایا جائے کہ کتنے ملزمان نے رضاکارانہ اور کتنے نے پلی بارگیننگ کے ذریعے رقم واپس کی، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے نیب سے کرپشن کیسز میں وصول کیے گئے 265 ارب روپے کی تفصیلات طلب کرلیں.
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 150 میگا کرپشن کیسز کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اکبر تارڑ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 150 میگا کرپشن اسکینڈل کی رپورٹ میں مزید معلومات شامل کرکے دوبارہ جمع کردی گئیں ہیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب اپنا کام عدالت کے کہنے پر کرے گا، 15سال پہلے نیب کے پاس شکایت درج ہوئیں لیکن سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو انکوائری شروع ہوئی، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ مقدمات کیوں بند پڑے رہے، عدالت کے استفسار پرایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اس کے لئے پرانی انتظامیہ ذمہ دار ہے جب کہ موجودہ انتظامیہ کی کارکردگی بہترین ہے۔
جسٹس جواد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر نیب ادارہ ہے تو جن لوگوں نے تفتیش میں تاخیر کی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، ادارے افراد سے نہیں بلکہ اصولوں اور قواعد سے چلتے ہیں۔ اکبر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ جن 150 مقدمات کی رپورٹ دی گئی ہے یہ مجموعی طور پر 600 ارب روپے کا معاملہ ہے جب کہ نیب نے اس کے علاوہ بھی رقم ریکور کی ہے۔
جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں نیب کی ریکوری کے طریقہ کار کا پتا ہے، ادارے نے خود ملزمان کو کچھ رقم کی ادائیگی کے عوض مقدمے ختم کرنے کی پیشکشیں کیں اور جو رقم وصول کی گئی اس میں سے ایک خاص حصہ نیب افسران کوگیا اس لیے بتایا جائے کہ کتنے ملزمان نے رضاکارانہ اور کتنے نے پلی بارگیننگ کے ذریعے رقم واپس کی جس پر ڈی جی آپریشن نیب خالد اقبال نے عدالت سے استدعا کی کہ تفصیلات پیش کرنے کے لیے انھیں وقت دیا جائے جس پر کیس کی مزید سماعت جمعرات تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 150 میگا کرپشن کیسز کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اکبر تارڑ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 150 میگا کرپشن اسکینڈل کی رپورٹ میں مزید معلومات شامل کرکے دوبارہ جمع کردی گئیں ہیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب اپنا کام عدالت کے کہنے پر کرے گا، 15سال پہلے نیب کے پاس شکایت درج ہوئیں لیکن سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو انکوائری شروع ہوئی، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ مقدمات کیوں بند پڑے رہے، عدالت کے استفسار پرایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اس کے لئے پرانی انتظامیہ ذمہ دار ہے جب کہ موجودہ انتظامیہ کی کارکردگی بہترین ہے۔
جسٹس جواد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر نیب ادارہ ہے تو جن لوگوں نے تفتیش میں تاخیر کی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، ادارے افراد سے نہیں بلکہ اصولوں اور قواعد سے چلتے ہیں۔ اکبر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ جن 150 مقدمات کی رپورٹ دی گئی ہے یہ مجموعی طور پر 600 ارب روپے کا معاملہ ہے جب کہ نیب نے اس کے علاوہ بھی رقم ریکور کی ہے۔
جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں نیب کی ریکوری کے طریقہ کار کا پتا ہے، ادارے نے خود ملزمان کو کچھ رقم کی ادائیگی کے عوض مقدمے ختم کرنے کی پیشکشیں کیں اور جو رقم وصول کی گئی اس میں سے ایک خاص حصہ نیب افسران کوگیا اس لیے بتایا جائے کہ کتنے ملزمان نے رضاکارانہ اور کتنے نے پلی بارگیننگ کے ذریعے رقم واپس کی جس پر ڈی جی آپریشن نیب خالد اقبال نے عدالت سے استدعا کی کہ تفصیلات پیش کرنے کے لیے انھیں وقت دیا جائے جس پر کیس کی مزید سماعت جمعرات تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔