ایک مسلمان بادشاہ یہ بھی تھا
عید کی آمد آمد ہے، ایک مذہبی تہوار جو ہر خطے میں مخصوص علاقائی روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ماضی میں کسی عیدالفطر میں صرف دو چار دن باقی تھے اور ملک کا سب سے بڑا اور مقتدر گھرانہ عید کی خوشیوں کی تلاش میں افسردہ اور قدرے مایوس تھا۔ گھر کی بچیوں کے پاس عید کے لیے نئے کپڑے نہیں تھے اور خاتون خانہ یعنی خاتون اول کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
وہ خود ایک بادشاہ کی بیٹی تھی اور اس کا شوہر بھی بادشاہ تھا مگر ان کے گھر کی شہزادیاں عید کے لیے غمزدہ تھیں۔ رات کو جب شوہر یعنی وقت کے بادشاہ گھر آئے تو ملکہ نے کہا کہ عید سر پر ہے اور بچیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کچھ بندوبست کیجیے۔ تاریخ نے یہ واقعہ انسانی تاریخ کا ایک عجوبہ سمجھ کر بیان کیا ہے۔
بادشاہ سلامت نے ملکہ عالیہ کی بات سن کر بیت المال کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر بیت المال کے منتظم سے کہا کہ آپ میری رواں ماہ کی تنخواہ پیشگی دے دیں۔ منتظم نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں آپ کا حکم ہمارے لیے ایک لازم امر ہے۔ اپنی تنخواہ آپ لے لیں لیکن آپ نے اگر مجھے اس بیت المال کا منتظم اور محافظ مقرر کیا ہے تو پھر میری عرض بھی سن لیں۔ پیشگی تنخواہ کی واپسی کا کیا طریقہ ہو گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا ایک ماہ تک یعنی نئی تنخواہ تک آپ زندہ رہیں گے۔
یہ عہد حاضر کی سب سے بڑی مملکت کا بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تھا اور ملکہ عالیہ فاطمہ تھی مرحوم بادشاہ عبدالمالک کی بیٹی۔ دونوں کی محبت کی شادی تھی لیکن ان کی محبت اس مملکت کے اصولوں اور قوانین کی پابند تھی ان کی قید میں تھی۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیت المال کے منتظم اور محافظ کی بات سن کر سر جھکا لیا اور چپکے سے بیت المال سے نکل گئے۔
گھر پہنچے تو شکل دیکھ کر ہی بیوی نے سب کچھ جان لیا۔ خلیفہ نے کہا کہ یوں کرو کہ بچیوں کے کپڑے دھو لو، انھیں دلاسا دو اور جیسے تیسے راضی کرنے کی کوشش کرو۔ یہ کہہ کر وہ جس طرح سر جھکا کر افسردہ اور مایوس حالت میں گھر میں داخل ہوئے تھے اس حالت میں گھر سے باہر نکل گئے۔
تاریخ کا یہ سچا مگر بمشکل برداشت کیے جانے والا واقعہ مجھے اپنے ہاں کی ان خبروں سے یاد آیا جن میں کسی والد نے عید پر ضد کرنے والے بچوں کو چلتی ریل کے سامنے پھینک دیا۔ کسی گہرے پانی میں ڈبو دیا، غرض عید پر بچوں کی معصوم خواہش پوری نہ کر سکنے والے والدین نے نہ جانے کس دل سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔ پاکستان اتنا غریب ملک نہیں کہ اس کے بچے عید کے کپڑوں سے محروم رہیں لیکن پاکستان کے حکام یعنی خلیفہ وقت اتنے زیادہ امیر ہیں کہ ہمارے ملک کے بچے عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے صرف اپنے والدین کے ہاتھوں سے موت لے سکتے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کے نئے کپڑے کسی کو امیر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
معلوم نہیں یوم حساب کب ہو گا میں نے اس عید پر وہ کپڑے الگ کر دیے ہیں جو گھر والوں نے لوگوں پر رعب ڈالنے کے لیے مجھے پہنانے تھے۔ ہمیں مسلمان بنانے والوں نے یہ کہا تھا کہ تمہارے اوپر کچھ ذمے داریاں ہیں جو تمہیں پوری کرنی ہیں اور ان کو پورا کر کے ہی تم مسلمان کہلا سکتے ہو۔
خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جنھیں ان کے انداز حکمرانی کو دیکھ کر مورخین نے انھیں خلفائے راشدین میں شامل کر دیا ہے بلاشبہ ایک خلیفہ راشد تھے۔ اوپر کی مثال کسی ایسے انسان سے ہی منسوب کی جا سکتی ہے جس کے دل میں خوف خدا کے سوا اور کچھ نہ ہو اور جو عید پر بھی اپنی بچیوں کی معصوم خواہشوں کو قربان کر سکتا ہو تاکہ کسی دوسرے کی حق تلفی نہ ہو۔ ہم اپنی زندگی سے وابستہ لوگوں کو دیکھیں تو ہمیں کچھ لوگ ایسے دکھائی دیں گے جن کے بچے شاید عید کی خوشیاں نہ منا سکیں لیکن کیا ہمارا فرض نہیں کہ انھیں مایوس نہ ہونے دیں۔ ملکی قانون کچھ بھی کہے لیکن خدائی قانون بروقت ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں قبائلی علاقوں میں حالات اس قدر بگڑ گئے کہ لاکھوں خاندان گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ان کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی گھروں سے محروم ہے اس سلسلے میں ایک خط موصول ہوا ہے جو ایک عام خاتون کا ہے جس کے دل میں ان بے گھر بچوں کا درد زندہ ہے۔ عید کے حوالے سے اس نے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ عید کی آمد آمد ہے، ایک مذہبی تہوار جو ہر خطے میں مخصوص علاقائی روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جہاں خواتین اس تہوار کے لیے انواع و اقسام کی تیاریوں میں مصروف ہوتی ہیں، وہاں لڑکوں والے گھروں میں ایک الگ ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ عالمگیریت کے عہد کی یہ نسل نو زیادہ تر مغربی طرز کے ملبوسات میں ملبوس رہنا پسند کرتی ہے لیکن عید پر تو شلوار قمیض لازم ہے۔ اپنے قومی لباس کی خریداری' سلائی' کلف لگنا لگانا' استری وغیرہ پشاوری چپلوں کی خریداری سب لڑکوں کی عید کے خوبصورت رنگ ہیں اور ان کی ماؤں کی پر لطف مصروفیت۔
عید کی ان روایات میں سے ایک ان گھروں میں پرسہ دینا ہے جہاں کسی پیارے کی رحلت کے بعد پہلی عید آ رہی ہو۔ اب کی بار ایک بہت کرب آمیز پرسہ اس قوم پر قرض ہے۔ ہمارے بہت سے خوبصورت نوجوانوں کے گھروں میں یہ عید اپنے روایتی رنگ سے محروم ہو گی۔ پشاور کی بہت سی ماؤں کے لیے ایک بے کیف' بے مصروفیت عید۔ اپنے چاند سے محروم' چاند رات جب انھیں عید کی صبح کے لیے شلوار کرتا اور پشاوری چپل تیار نہیں کرنا۔ سویوں میں زیادہ بادام ڈالنے کی فرمائش نہیں ہے۔
نماز سے واپسی پر ایک نوخیز آواز میں زور دار''امی عید مبارک'' نہیں سننا۔ اس کی کھانے کی میز/ دستر خوان پر مخصوص جگہ پر برتن نہیں سجانا اور وہ باپ جو بیٹوں کی ہمراہی میں عید گاہ جاتے تھے ان کا عید گاہ کا راستہ اس بار بہت دشوار ہو گا۔
پشاور کے ان مغموم گھرانوں میں کیا پرسہ بھیجا جائے، کیا کہا جائے۔ پورا پاکستان عید کی خوشیوں میں آپ کا غم بھولا نہیں ہے۔ بہت سے گھروں میں بچوں کے عید کے ملبوس تیار کرتی ماؤں کی آنکھیں آپ کے غم سے دھندلا رہی ہیں۔ اپنے بزرگوں' پیاروں کی فاتحہ دلاتے ہوئے آپ کے شہزادے یاد رہیں گے۔ عید گاہوں میں نماز کے بعد دعا میں آپ شامل دعا ہوں گے۔
جلال الدین رومی نے کہا تھا زخم ہمارے جسم کے وہ شگاف ہوتے ہیں جہاں سے روشنی در آتی ہے۔ آپ کا زخم بہت گہرا ہے اور اس کا درد پوری قوم نے محسوس کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کا درد آپ کی اور ہم سب کی طاقت بن جائے۔ امن کی روشنی در آنے کا ذریعہ۔ آپ کا صبر ہمیں مضبوط تر کر دے۔ ہمارے تہوار فتنہ نہ بنیں۔
ماؤں کی عیدیں بے کیف بنانے والوں کو سیدھا راستہ نصیب ہو۔ مذہب کو کاروبار اور دہشت بنانے والوں کو ہدایت ملے۔ وہ حصول علم کی راہ میں شہید ہوا ہے۔ وہ اپنی آخری عید کی طرح کلف لگے شلوار کرتے اور چمکتی ہوئی پشاوری چپل میں' روشنی کی طرح آپ کے ارد گرد موجود رہے گا' ہر عید پر۔ ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
وہ خود ایک بادشاہ کی بیٹی تھی اور اس کا شوہر بھی بادشاہ تھا مگر ان کے گھر کی شہزادیاں عید کے لیے غمزدہ تھیں۔ رات کو جب شوہر یعنی وقت کے بادشاہ گھر آئے تو ملکہ نے کہا کہ عید سر پر ہے اور بچیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کچھ بندوبست کیجیے۔ تاریخ نے یہ واقعہ انسانی تاریخ کا ایک عجوبہ سمجھ کر بیان کیا ہے۔
بادشاہ سلامت نے ملکہ عالیہ کی بات سن کر بیت المال کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر بیت المال کے منتظم سے کہا کہ آپ میری رواں ماہ کی تنخواہ پیشگی دے دیں۔ منتظم نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں آپ کا حکم ہمارے لیے ایک لازم امر ہے۔ اپنی تنخواہ آپ لے لیں لیکن آپ نے اگر مجھے اس بیت المال کا منتظم اور محافظ مقرر کیا ہے تو پھر میری عرض بھی سن لیں۔ پیشگی تنخواہ کی واپسی کا کیا طریقہ ہو گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا ایک ماہ تک یعنی نئی تنخواہ تک آپ زندہ رہیں گے۔
یہ عہد حاضر کی سب سے بڑی مملکت کا بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تھا اور ملکہ عالیہ فاطمہ تھی مرحوم بادشاہ عبدالمالک کی بیٹی۔ دونوں کی محبت کی شادی تھی لیکن ان کی محبت اس مملکت کے اصولوں اور قوانین کی پابند تھی ان کی قید میں تھی۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیت المال کے منتظم اور محافظ کی بات سن کر سر جھکا لیا اور چپکے سے بیت المال سے نکل گئے۔
گھر پہنچے تو شکل دیکھ کر ہی بیوی نے سب کچھ جان لیا۔ خلیفہ نے کہا کہ یوں کرو کہ بچیوں کے کپڑے دھو لو، انھیں دلاسا دو اور جیسے تیسے راضی کرنے کی کوشش کرو۔ یہ کہہ کر وہ جس طرح سر جھکا کر افسردہ اور مایوس حالت میں گھر میں داخل ہوئے تھے اس حالت میں گھر سے باہر نکل گئے۔
تاریخ کا یہ سچا مگر بمشکل برداشت کیے جانے والا واقعہ مجھے اپنے ہاں کی ان خبروں سے یاد آیا جن میں کسی والد نے عید پر ضد کرنے والے بچوں کو چلتی ریل کے سامنے پھینک دیا۔ کسی گہرے پانی میں ڈبو دیا، غرض عید پر بچوں کی معصوم خواہش پوری نہ کر سکنے والے والدین نے نہ جانے کس دل سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔ پاکستان اتنا غریب ملک نہیں کہ اس کے بچے عید کے کپڑوں سے محروم رہیں لیکن پاکستان کے حکام یعنی خلیفہ وقت اتنے زیادہ امیر ہیں کہ ہمارے ملک کے بچے عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے صرف اپنے والدین کے ہاتھوں سے موت لے سکتے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کے نئے کپڑے کسی کو امیر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
معلوم نہیں یوم حساب کب ہو گا میں نے اس عید پر وہ کپڑے الگ کر دیے ہیں جو گھر والوں نے لوگوں پر رعب ڈالنے کے لیے مجھے پہنانے تھے۔ ہمیں مسلمان بنانے والوں نے یہ کہا تھا کہ تمہارے اوپر کچھ ذمے داریاں ہیں جو تمہیں پوری کرنی ہیں اور ان کو پورا کر کے ہی تم مسلمان کہلا سکتے ہو۔
خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جنھیں ان کے انداز حکمرانی کو دیکھ کر مورخین نے انھیں خلفائے راشدین میں شامل کر دیا ہے بلاشبہ ایک خلیفہ راشد تھے۔ اوپر کی مثال کسی ایسے انسان سے ہی منسوب کی جا سکتی ہے جس کے دل میں خوف خدا کے سوا اور کچھ نہ ہو اور جو عید پر بھی اپنی بچیوں کی معصوم خواہشوں کو قربان کر سکتا ہو تاکہ کسی دوسرے کی حق تلفی نہ ہو۔ ہم اپنی زندگی سے وابستہ لوگوں کو دیکھیں تو ہمیں کچھ لوگ ایسے دکھائی دیں گے جن کے بچے شاید عید کی خوشیاں نہ منا سکیں لیکن کیا ہمارا فرض نہیں کہ انھیں مایوس نہ ہونے دیں۔ ملکی قانون کچھ بھی کہے لیکن خدائی قانون بروقت ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں قبائلی علاقوں میں حالات اس قدر بگڑ گئے کہ لاکھوں خاندان گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ان کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی گھروں سے محروم ہے اس سلسلے میں ایک خط موصول ہوا ہے جو ایک عام خاتون کا ہے جس کے دل میں ان بے گھر بچوں کا درد زندہ ہے۔ عید کے حوالے سے اس نے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ عید کی آمد آمد ہے، ایک مذہبی تہوار جو ہر خطے میں مخصوص علاقائی روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جہاں خواتین اس تہوار کے لیے انواع و اقسام کی تیاریوں میں مصروف ہوتی ہیں، وہاں لڑکوں والے گھروں میں ایک الگ ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ عالمگیریت کے عہد کی یہ نسل نو زیادہ تر مغربی طرز کے ملبوسات میں ملبوس رہنا پسند کرتی ہے لیکن عید پر تو شلوار قمیض لازم ہے۔ اپنے قومی لباس کی خریداری' سلائی' کلف لگنا لگانا' استری وغیرہ پشاوری چپلوں کی خریداری سب لڑکوں کی عید کے خوبصورت رنگ ہیں اور ان کی ماؤں کی پر لطف مصروفیت۔
عید کی ان روایات میں سے ایک ان گھروں میں پرسہ دینا ہے جہاں کسی پیارے کی رحلت کے بعد پہلی عید آ رہی ہو۔ اب کی بار ایک بہت کرب آمیز پرسہ اس قوم پر قرض ہے۔ ہمارے بہت سے خوبصورت نوجوانوں کے گھروں میں یہ عید اپنے روایتی رنگ سے محروم ہو گی۔ پشاور کی بہت سی ماؤں کے لیے ایک بے کیف' بے مصروفیت عید۔ اپنے چاند سے محروم' چاند رات جب انھیں عید کی صبح کے لیے شلوار کرتا اور پشاوری چپل تیار نہیں کرنا۔ سویوں میں زیادہ بادام ڈالنے کی فرمائش نہیں ہے۔
نماز سے واپسی پر ایک نوخیز آواز میں زور دار''امی عید مبارک'' نہیں سننا۔ اس کی کھانے کی میز/ دستر خوان پر مخصوص جگہ پر برتن نہیں سجانا اور وہ باپ جو بیٹوں کی ہمراہی میں عید گاہ جاتے تھے ان کا عید گاہ کا راستہ اس بار بہت دشوار ہو گا۔
پشاور کے ان مغموم گھرانوں میں کیا پرسہ بھیجا جائے، کیا کہا جائے۔ پورا پاکستان عید کی خوشیوں میں آپ کا غم بھولا نہیں ہے۔ بہت سے گھروں میں بچوں کے عید کے ملبوس تیار کرتی ماؤں کی آنکھیں آپ کے غم سے دھندلا رہی ہیں۔ اپنے بزرگوں' پیاروں کی فاتحہ دلاتے ہوئے آپ کے شہزادے یاد رہیں گے۔ عید گاہوں میں نماز کے بعد دعا میں آپ شامل دعا ہوں گے۔
جلال الدین رومی نے کہا تھا زخم ہمارے جسم کے وہ شگاف ہوتے ہیں جہاں سے روشنی در آتی ہے۔ آپ کا زخم بہت گہرا ہے اور اس کا درد پوری قوم نے محسوس کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کا درد آپ کی اور ہم سب کی طاقت بن جائے۔ امن کی روشنی در آنے کا ذریعہ۔ آپ کا صبر ہمیں مضبوط تر کر دے۔ ہمارے تہوار فتنہ نہ بنیں۔
ماؤں کی عیدیں بے کیف بنانے والوں کو سیدھا راستہ نصیب ہو۔ مذہب کو کاروبار اور دہشت بنانے والوں کو ہدایت ملے۔ وہ حصول علم کی راہ میں شہید ہوا ہے۔ وہ اپنی آخری عید کی طرح کلف لگے شلوار کرتے اور چمکتی ہوئی پشاوری چپل میں' روشنی کی طرح آپ کے ارد گرد موجود رہے گا' ہر عید پر۔ ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔