توقعات میں مایوسی
سندھ میں رینجرز نے دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے قوم کی امیدیں جگا دی ہیں
SWAT:
سندھ میں رینجرز نے دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے قوم کی امیدیں جگا دی ہیں لیکن جب بیوروکریسی کی کرپشن اور منظم جرائم کا معاملہ منظر عام پر آیا تو گویا سندھ رینجرز خود اپنی ہی کامیابی کی زد میں آ گئے۔ اکثر کامیابیوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف جو مہم چلائی اس میں وہ جزوی طور پر کامیاب نظر آتی ہے۔ آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ پر سختی سے نکتہ چینی کی لیکن وہ خود دبئی کے محفوظ مقام پر مقیم ہیں جب کہ سندھ کے معاملات پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ ان کی ہدایات کے مطابق چلا رہے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے رینجرز کو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے ان کی مہلت میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے تاہم اس توسیع کو سندھ اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا۔ ایسے میں تو رینجرز کو یہ توسیع قبول کرنے کے بجائے اپنی بیرکوں میں واپس چلا جانا چاہیے تھا۔
کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے گزشتہ اتوار سندھ کی ایپکس کمیٹی سے ملاقات کی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہر دو حکام سے ملاقات کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جو ان کے والد کی آشفتہ بیانی سے قدرے انتشار کا شکار ہو گئے تھے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے آرمی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن بھی اپنے انداز سے ان دونوں کا ساتھ دیتی محسوس ہو رہی ہے۔ آخر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کس کے اشارے پر آئی ایس آئی کے دو سابق ڈی جیز پر سیاسی مداخلت کا الزام عائد کیا جو کہ ایک اعتبار سے بالواسطہ طور پر آرمی پر بھی صادق آتا ہے تاہم آرمی پنجاب میں اس قسم کا کوئی اقدام نہیں کر رہی تو کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ اس صوبے سے دہشت گردوں کے لیے کوئی فنڈ نہیں دیے جا رہے اور کیا یہاں پر ان کے ہمدرد موجود نہیں ہیں۔
بحران صرف داخلی محاذ پر نہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کروانے کی کوشش کی کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے لکھوی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا جن پر بھارت ممبئی حملے میں ملوث ہونے کا دعوے دار ہے۔ بھارت کا دعویٰ تھا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے لہٰذا اسے عالمی برادری سے علیحدہ کر دیا جانا چاہیے لیکن بھارت کی اس تحریک کو چین نے ویٹو کر کے ناکام بنا دیا۔
مودی نے اوفا میں چینی صدر سے بڑے جذباتی انداز میں اپیل کی کہ وہ پاکستان کے خلاف پابندیوں کے مطالبے کو ویٹو نہ کریں لیکن ہمارے اچھے دوست چینی صدر نے بڑی نرمی سے مودی کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں واضح طور پر ملوث ہے تاہم اس حوالے سے کسی پیش رفت کی اطلاع موصول نہیں ہو رہی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوفا کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی روس نے کی۔
بھارت کی کوشش تھی کہ اوفا مذاکرات کے اعلامیہ میں پاکستان کی مخالفت کی جائے۔ وہاں پر پاکستانی میڈیا موجود نہیں تھا جب کہ بھارتی میڈیا نے مودی کی اس کامیابی کا ڈنکا بجایا کہ کانفرنس کے ایجنڈے میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا جب کہ 26/11 کے ممبئی حملے کو ایجنڈے میں شامل کرا دیا ہے۔ مسٹر سرتاج عزیز نے کوشش کی کہ کشمیر کے بارے میں ریکارڈ کو درست رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اہم مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا گیا حالانکہ بھارت کا اس کے حوالے سے یہی دعویٰ ہے جب کہ ہماری طرف سے سمجھوتہ ایکسپریس کو ایجنڈے پر رکھا گیا ہے جو کہ اپنے طور پر اہم معاملہ ہے۔ ہم یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ ہم پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا جا سکے۔
آرمی نے حالیہ عرصے میں حکمرانی کے شعبے میں جو فعال کردار ادا کیا ہے اس کی وجہ سے وہ امید و بیم کی حالت میں ہے' ہر سیاسی پارٹی یونیفارم پر تنقید کر رہی ہے کچھ کھلم کھلا اور کچھ دھیمے سروں میں۔ سیاسی پارٹیوں کے پروردہ افراد جھوٹا پراپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اور ان کا لب و لہجہ بھی بعض اوقات ناقابل برداشت ہوتا ہے جب کہ ان کی قیادت بھی ان لوگوں کی مذمت سے گریز کرتی ہے۔ کیا خواجہ آصف اتنی جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ وہ شجاع پاشا اور ظہیر السلام کے بارے میں کھل کر کچھ کہہ سکیں۔ خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں لہٰذا انھیں اپنی جان قربان کرنے والے فوجیوں کے جذبے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
جنرل راحیل شریف پر اے پی ایس پشاور کے سانحے کا واضح طور پر نہایت شدید اثر ہوا جس کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب ہر صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے۔ فوج کی فعالیت کا موجودہ سلسلہ نہایت نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے آرمی کا ''گیم پلان'' قومی ایکشن پلان کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ یہ منتخب اہداف پر مکمل توجہ منعطف کرتا ہے جب کہ صورت حال کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگرچہ آرمی کی آئینی حدود کے بارے میں ممکن ہے یہ اندازہ نہ لگایا جا سکے کہ کرپشن کو اس طریقے سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر رکھا جا سکے بصورت دیگر ساری کارروائی ناکامی کا شکار ہو جائیں گی کیونکہ جو لوگ کرپٹ 'اسٹیٹس کو' برقرار رکھنا چاہتے ہیں وہ نہ صرف میڈیا کو استعمال کریں گے بلکہ وردی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کریں گے۔ راحیل شریف کی خلوص نیت اور عزم صمیم پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔