بلوچستان پھر معافی پھر آپریشن

بعض رویے، روایت بن جاتے ہیں۔ سو، ان رویوں کا حتمی انجام، مذکورہ روایت کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔


عابد میر July 16, 2015
[email protected]

بعض رویے، روایت بن جاتے ہیں۔ سو، ان رویوں کا حتمی انجام، مذکورہ روایت کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے شیخ چلی کا رویہ ایک روایت بنا۔ یہ رویہ جہاں کہیں آج بھی نظر آ جائے، اس کا نتیجہ ہم اس کی روایت کے تناظر میں نکالتے ہیں۔ اسی طرح ملا نصیرالدین کا رویہ، اپنے طرز کی ایک روایت ہے۔ بیربل کی روایت بھی، آج کے درباریوں میں کہیں نہ کہیں دِکھ جاتی ہے۔ بعینہ بلوچستان کے معاملے میں معافی اور مارکا رویہ ایک روایت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آئیے اس روایت کا تاریخی تناظر دیکھتے ہیں؛

اُنیس سو اڑتالیس میں اس تاریخی خطے کے نوزائیدہ مملکت کے ساتھ ہونے والے الحاق کو یہاں کے بعض حلقوں نے قبول نہ کیا اور بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کے سرخیل، الحاق نامہ پر دستخط کرنے والے خان قلات کے سگے بھائی، پرنس آغا عبدالکریم ٹھہرے۔ یہ اپنے کچھ ہم فکر ساتھیوں کے ساتھ بندوق لے کر پہاڑوں کی اَور چل پڑے۔

نوزائیدہ ہی سہی، مگر ایک ریاست کے مقابلے میں چند افراد کی بغاوت کہاں تک ٹھہرتی، پھر بالخصوص ایسے میں جب گھر کے افراد تک آپ کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں۔ سو، بہتری ترکِ بغاوت میں تھی، مگر بلوچ کے ہاں پھر ہتھیار ڈالنے کی کوئی روایت نہیں رہی۔ سو، ریاست نے ہی عام معافی کا اعلان کیا۔ پرنس اپنے ساتھیوں سمیت کمیں گاہوں سے نکل کر زمین پہ آئے۔ آتے ہی دھر لیے گئے اور پسِ زنداں ڈال دیے گئے۔

بلوچ کے لیے یہ کوئی قابلِ قبول رویہ نہ تھا۔ جہاں لوگوں کے معمولاتِ زندگی محض 'زبان' کے سہارے چلتے ہوں، وہاں زبان سے کیا ہوا عہد ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ جس تمدن میں محض اپنا عہد نبھانے کے لیے اپنے بچے کی گردن اڑا دی جائے اور ایک عاشق اپنی محبوبہ کسی کو بخش دے، وہاں نہ تو کسی اور قسم نامے کی ضرورت رہتی ہے، اور نہ عہد شکنی کی کوئی گنجائش۔

مگر دوسری جانب 'عہد نامے' کی کوئی روایت ہی نہیں۔ یہاں تو محض مفادات ہیں اور وہ بھی وقت ِ حاضر کے حکمرانوں، شہنشاہوں کے مفادات۔ عہد شکنی کو بلوچ، ایمان شکنی سے بھی بڑا گناہ سمجھتا ہے۔ سو، عہد ٹوٹا تو گویا اس کا اعتبار ٹوٹا۔ اور ٹوٹے ہوئے اعتبار کو لاکھ جوڑ لیں، دراڑیں نہیں بھرتیں۔ بلوچوں اور ریاست کے مابین تعلق پچھلے ساٹھ برسوں سے انھی دراڑوں کا شکار ہے، جسے ہر آنے والے حکمران نے مزید کمزور کیا ہے، مستحکم نہیں۔

چند ہی برس بعد جب اپنے خان اور پرنس کی توہین سے برگشتہ ہو کر ہمارے ایک اور پیرسن بزرگ اپنے چند ساتھیوں سمیت کوہ نشیں ہوئے تو ملک ایک آمر کے بوٹوں تلے تھا۔ آمر، جس کی شناخت ہی عہد شکنی ہے۔ جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کا عہد کر کے آتا ہے اور عہد شکنی کرتے ہوئے ملکی کی سیاسی و انتظامی زمام اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے۔ اس پہ تو کوئی اندھا بھی اعتبار نہ کرے۔ مگر ہمارے معصوم بزرگ ایک بار پھر عہد نامے کی مار مارے گئے۔

تمام تر انتظامی و عسکری حربوں کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر عام معافی کے وعدے جال بچھایا گیا، اور بلوچ نامی پرندہ 'وعدہ' کا دانہ چگنے کو ہر دم تیار۔ یہ شاہیں اپنے پہاڑی نشیمن سے اتر آئے۔ اترتے ہی پابہ جولاں ہوئے اور پھر سبھی گبھرو ایک ایک کر کے تختہ دار پہ لٹکا دیے گئے۔ ان کی قیادت کرنے والے بزرگ ، اپنی پیرسنی کے باعث پسِ زنداں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر، عہد شکنی کے زخم چاٹتے، راہی ملک ِ عدم ہوئے۔ پھر سیاست بھی آزمائی گئی۔

ہمارے نامی گرامی سردار 'سیاسی' بھی ہوئے۔ وہ جن کی گردنیں قبائلی انا سے اکڑی رہتی تھیں، ہمارے ایک سیاسی قائد نے انھیں 'ووٹ' کے دیو کے سامنے سرخم کرنے پہ مجبور کر ڈالا۔ انھیں کیڑے مکوڑے سمجھنے والے عوام کے در پہ لا کھڑا کیا۔ بلوچستان میں پہلی سیاسی و عوامی حکومت قائم ہوئی ،مگر یہ تجربہ بھی ناکام ہوا، اور ستم یہ کہ 'قائدِ عوام' کے ہاتھوں' عوامی حکومت چلتی بنی اور بلوچستان کے عوامی قائدین پسِ زنداں دھکیل دیے گئے۔

اب کے ، ان کے لیے عام معافی پھر ایک آمر کے ہاتھوں ہوئی۔ عام معافی ... یعنی مارا ماری۔ اب کے یہ مارا ماری، کسی بغاوت کی بجائے قبائلیت کے نام پہ ہوئی۔ بلوچستان کو قبائلی کشت و خون اور باہمی جنگ و جدال کی ایسی دلدل میں دھنسا دیا گیا، کہ آیندہ دو دہائیوں تک بغاوت اور انقلاب بلوچستان اور بلوچوں کے لیے اجنبی ہو گئے۔

پھر یہ ہوا کہ باغی، انقلابی اور عوامی رہنما رہے نہ کارکن۔ محض چند 'سر پھرے سردار' باقی رہ گئے۔ ان کی 'گمراہ' سیاست بھی اپنے طبعی انجام کی طرف بڑھ رہی تھی، کہ ملک پھر ایک عہد شکن آمر کی نذر ہوا۔ اس نے آتے ہی ماضی کے ایک باغی سردار کو حوالات کی سیر کرانا ضروری سمجھا۔ یہ گویا سوئے ہوئے شیر کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ پھر اگلے آٹھ برس اس شخص کی آمرانہ انا کا اژدھا بلوچستان کو مسلسل ڈستا رہا۔

اس شخص نے 'معافی اور مار' کے رویے والی روایت کو تابندہ کر دیا۔ اس کے بعد تو گویا یہ طے ہو گیا کہ جب بھی حکمرانوں نے 'عام معافی' کا اعلان کیا، بغاوت سے متاثرہ علاقوں سے عوام نے اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کر دیا۔ مرکزی شہروں میں سمجھ لیا گیا کہ اب کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوا چاہتا ہے۔ اسی عہد ِ ریا کاری میں 'ہتھیار ڈالنے کے ڈرامے' کی بھی شہکار نمائش ہوئی۔ یہ سلسلہ اس قدر تیزی سے چل پڑا کہ ایک بار سبی کے سرکٹ ہاؤس میں 'لاپتہ افراد' سے ہتھیار ڈلوا دیے گئے۔ اسی پہ ایک بار نواب بگٹی مرحوم نے یہ پھبتی کسی تھی کہ جس تعداد میں فراریوں سے ہتھیار ڈلوائے گئے ہیں، اتنی تو بلوچستان کی آبادی نہیں۔

پھر عوامی جماعت (پیپلز پارٹی) کے مشہورِ زمانہ 'کو چیئرمین' نے جب کوئٹہ میں آ کر معافی دینے کی بجائے بلوچوں سے معافی مانگی، تو سیاسی کارکنوں کی مسخ شدگی کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس کا انجام سانحہ توتک کی صورت میں سامنے آیا۔ اس ساری روایت کے تناظر میں اب یہ عالم ہے کہ اہلِ مسند بلوچوں سے اظہارِ ہمدردی کرنے لگ جائیں تو بے اختیار ہندوستانی فلم کا زبان زدِ عام مکالمہ یاد آجاتاہے؛''تھپڑ سے نہیں ، پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب''

سو، اس روایت کے تسلسل میں اب کی بار بلوچستان میں عام معافی اور آپریشن کا سلسلہ ایک ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ عام معافی والی پرانی شراب، پانچ سے پندرہ لاکھ کے نئے پیکیجز کی بوتل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جس کے لیے سن ستر کی دَہائی میں بلوچ تحریک کے ایک رکن اور موجودہ تجزیہ کار میر محمد علی تالپور نے معروف مگر کیا خوب فقرہ کسا کہ، 'محبت خریدی نہیں جا سکتی' ۔ حب الوطنی، معاشی پیکیجز کی محتاج نہیں ہوتی صاحب۔ محبت کا دام' صرف محبت ہے۔ مار، کبھی محبت کا نعم البدل نہیں ہوتی۔ وہ جن کے آبا و اجداد بغاوت کے نام پر آج مارے جا رہے ہیں، کل ان کے دلوں میں ریاست کے لیے محبت کیسے جنم لے گی؟ وہ جن کے بچے اس جنگ میں کام آ گئے، وہ اس جنگ کے گرداب سے کیوں کر نکلیں گے؟...

ریاست کے پاس طاقت ہے، وہ چاہے تو اس کا کسی بھی حد تک استعمال کر سکتی ہے، لیکن شہریوں کو باعزت زندگی کا احساس دلانے کو ریاست کے پاس اور بھی کئی آپشن ہوتے ہیں۔ طاقت کا آپشن، بلوچ کے معاملے میں آزمایا ہوا ناکام نسخہ ہے۔ ممکن ہے اس سے موجودہ بغاوت پہ قابو بھی پا لیا جائے، مگر یہ اس 'مرض' کا عارضی حل ہو گا، مستقل نہیں۔

کوئی بھی باغی نہ معافی سے قابو میں آ سکتا ہے نہ مار سے... یہ تو محض پیار کو ترسی ہوئی مخلوق ہے۔ سو، پہلے اس سے احترام سے پیش آئیں، پھر سن اڑتالیس سے جاری 'معافی اور مار' کی اس روایت کو ختم کریں، اور آخری بات یہ طے کر لیجیے کہ یہ معاملہ بنیادی طور پر سیاسی ہے، سو اس کا کوئی بھی عسکری حل ممکن ہی نہیں، ماسوائے سیاسی حل کے۔ اور سیاسی حل کیا ہو سکتا ہے؟ اس پہ ہم آیندہ بات کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں