پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی
بھارت پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے خلاف مسلسل سازشیں کرتا رہا ہے
ماسکو کے مضافاتی قصبے اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پاکستان اور بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے پریس کانفرنس کے دوران مشترکہ اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے دہشتگردی کے سنگین مسئلے پر متعلقہ حکام کے درمیان بات چیت کے لیے نئی دہلی میں ملاقات پر اتفاق کیا۔
اس کے علاوہ بھارتی بارڈر فورسز اور پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقات، گرفتار ماہی گیروں کی 15 دن میں رہائی، مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے آنے والوں کو سرحد پر سہولتوں کی فراہمی اور ممبئی حملہ کیس کی تحقیقات دوطرفہ بنیادوں پر تعاون پر بھی اتفاق پایا گیا۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ لہٰذا اب مودی آیندہ سال سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں گے۔ اوفا میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ممکنہ ملاقات پر بے یقینی کے بادل منڈلارہے تھے لیکن بھارت کی جانب سے از خود اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کی طرف سے اس کا مثبت جواب دیا گیا۔ میرا خیال ہے یہ خوش آیند فیصلہ ہے۔
دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کی یہ کامیابی تصور کی جا رہی ہے کہ بھارت کی جانب سے تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا کیونکہ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے اس کا رویہ مخالفانہ، جارحانہ اور حریفانہ رہا ہے۔
اس دوران بھارت کی جانب سے مسلسل پاکستان پر بے سروپا الزامات، اشتعال انگیز بیانات دیے جاتے رہے اور خطے میں کشیدگی کی فضا پیدا کی جاتی رہی۔ جب کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر صورتحال کئی بار کشیدہ کی گئی اس کے ساتھ ساتھ بھارتی وزراء نے پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کی دھمکی بھی دی۔ یہ حقیقت بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنے دورۂ بنگلہ دیش کے موقعے پر 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھارت کے کردار کا برملا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ اعتراف کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ایک ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مجرمانہ مداخلت کا اعتراف عالمی سطح پر سفارتی اصولوں و اخلاقیات کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔
اس طرح بھارتی وزیر اعظم نے اپنے منصب اور وقار سے گری ہوئی بات کی۔ اور ان کے اس بیان پر زبردست نکتہ چینی بھی کی گئی۔ بھارت کے جارحانہ ردعمل کے جواب میں پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے جو موقف اختیار کیا یہ اس کا ہی نتیجہ تھا کہ بھارت کو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے باقاعدہ درخواست کرنی پڑی۔ اس کے علاوہ بھارت معین لکھوی کیس میں پاکستان کی عدالت کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر سلامتی کونسل میں اس معاملے کو لے گیا جہاں بھارت پاکستان کے خلاف پابندیوں کی قرارداد لایا لیکن ہمارے پڑوسی ملک اور عظیم دوست چین نے اصولوں پر مبنی اپنے موقف کی بنیاد پر اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔
بھارت پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے خلاف مسلسل سازشیں کرتا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس منصوبے کے خلاف واویلا مچاتا رہا ہے مگر چین سمیت کسی ملک نے اس کے موقف پر کان بھی نہیں دھرا ، جب کہ دوسری جانب پاکستان نے وطن عزیز میں دہشتگردوں اور شدت پسندوں کے خلاف زبردست اور شاندار آپریشن کر کے حیران کن نتائج حاصل کیے اور بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ دہشتگردی کی لہر پاکستان میں جاری تھی اس کے خلاف آپریشن کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' ملوث ہے۔ پاکستان نے ''را'' کی مداخلت کے ٹھوس ثبوت بھی حاصل کر لیے ۔
یہ اور دیگر کئی حقائق ہیں جن کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جو پر امن رہ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان مضبوط ادارے کے ساتھ خطے اور بھارت سمیت پوری دنیا کو پر امن بنانے کے لیے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں پاک فوج نے بے مثال قربانیاں بھی دی ہیں، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت امن کی ان کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے انھیں نقصان پہنچا رہا ہے۔
اگر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات شروع ہو بھی جائیں تو ان مذاکرات سے خوش کن توقعات کیوں کر وابستہ کی جا سکتی ہیں کیونکہ بھارتی وزیر اعظم پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جب وہ پاکستان کا دورہ کریں تو اس موقعے پر مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کا کوئی فارمولا اپنے ساتھ لائیں۔ مگر بھارت کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ مودی پاکستان کا دورہ کریں گے بھی یا نہیں۔ اگر وہ پاکستان آ بھی گئے تو وہ صرف پاکستان پر الزامات عائد کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی پاکستان میں ''را'' کی دہشتگردی کو جائز تصور کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف سازشوں کو فروغ دینے کے لیے اپنے ایجنٹوں کی فنڈنگ اور عسکری تربیت کو بھی اپنا حق گردانتے ہیں۔ بلاشبہ خطے میں امن کے قیام سے اربوں انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنا جارحانہ رویہ ترک کردے ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ اگرچہ اوفا ملاقات کو ایک خوشگوار پیشرفت ضرور قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنے کے بجائے حقیقت پسندانہ بنیادوں پر علاقائی و عالمی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔
اس مقصد کے لیے بھارت پر واضح کر دینا چاہیے کہ وہ مذاکرات کی آڑ میں کسی قسم کی شرپسندی کا ارتکاب نہ کرے۔ بھارتی قیادت کو احساس دلایا جائے کہ پاکستان پورے خطے کی ترقی اور عوام کی خوشی ہی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے تاہم اس کے لیے بھارت کو پاکستان کی جغرافیائی ، سیاسی، علاقائی اور دفاعی حیثیت کو دل سے تسلیم کرنا ہو گا۔ اس کانفرنس کے موقع پر ایک اہم پیشرفت یہ بھی ہوئی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کو رکن بنا لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم 2001ء میں قائم کی گئی تھی۔
اس کے بنیادی اراکین میں چین اور روس کے علاوہ وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں جب کہ پاکستان افغانستان اور امریکا نے مبصر کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ پاکستان کو 2006ء میں مبصر کا درجہ دیا گیا تھا۔ جب کہ ایران، منگولیا اور افغانستان کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بننے سے خطے میں پاکستان کا امیج بہتر ہو گا اور باہمی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔