IN SEARCH OF SENSE

یہ 1946ء کے موسم بہار کا زمانہ تھا احمد علی خاں ممبئی گئے مگر پانچ مہینوں میں اکتا کر واپس گئے

عبداﷲ ملک جب اپنی یاد داشتیں لکھ رہے تھے، تو انھوں نے احمد علی خان کو خط لکھ کر ان سے کچھ سوال کیے، ان میں اس سوال کے علاوہ کہ ان کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ کب اور کیسے شروع ہوا؟ یہ سوال بھی تھا کہ ہاجرہ (مسرور) سے ان کی شادی کیسے ہوئی۔

یہ واقعہ دلچسپ ہے، احمد علی خاں اپنی خود نوشت داستان حیات ''صحافی کی حیثیت سے میرے ماہ و سال'' میں لکھتے ہیں ''ہوا یہ کہ ایک دن میرے خالہ زاد بھائی، قدوس صہبائی میرے گھر آئے، میری والدہ نے ان سے کہا احمد خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتے ان کے لیے کوئی لڑکی بتاؤ انھوں نے بے ساختہ ہاجرہ مسرور کا نام لے دیا، میں نے ہاجرہ کی کچھ چیزیں پڑھی تھیں انھیں کبھی دیکھا نہیں تھا۔ قدوس بھائی نے جب ہاجرہ کا نام لیا تو ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا کہ پہلے احمد ندیم قاسمی سے مل لو، چنانچہ میں ایک دن ان کے ساتھ قاسمی صاحب سے ملنے نسبت روڈ گیا۔

انھوں نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور ساتھ ہی قاسمی صاحب کو آواز بھی دی۔ چند لمحوں میں ننگے پاؤں، ملگجے سفید کپڑوں میں ایک لڑکی نے دروازہ کھولا، اس طرح قاسمی صاحب سے ملنے سے پہلے میں نے ہاجرہ کو دیکھ لیا'' اس ایک نظر نے سارے معاملات طے کر دیے اور احمد علی خاں کی ہاجرہ مسرور سے شادی ہو گئی۔احمد علی خاں کی خود نوشت داستان حیات اس کتاب میں شایع ہوئی ہے جو ان کی صاحبزادی نوید احمد طاہر نے in search of sense کے عنوان سے مرتب کی ہے اس میں احمد علی خاں کی شخصیت کے بارے میں کچھ تحریریں اور کچھ نجی خطوط شامل ہیں۔ یہ وہ خط ہیں جو احمد علی خاں نے ہاجرہ کو اور ہاجرہ نے ان کو لکھے ہیں، ان سے ان دونوں کے مزاج اور سوچ کی ہم آہنگی اور باہمی محبت کی غمازی ہوتی ہے، ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے۔

احمد علی خاں ایک بلند پایہ صحافی، کامیاب ایڈیٹر اور دل نواز شخصیت کے مالک تھے، وہ بھوپال میں ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور ابھی اسکول سے نکلے نہ تھے کہ سیاست میں آ گئے، بھوپال میں ان دنوں کوئی کالج نہیں تھا، کالج کی تعلیم کے لیے ریاست سے باہر جانا پڑتا تھا، احمد علی خاں نے میٹرک پاس کر کے اپنے چند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ بھوپال میں کالج کے قیام کی تحریک چلائی یہ ان کی پہلی سیاسی نوعیت کی تحریک تھی یہ ناکام رہی اور وہ آگے پڑھنے کے لیے علی گڑھ چلے گئے یوں بھی میٹرک کے بعد علی گڑھ پڑھنے جانا لازمی تھا کہ یہ ان کے والد کا حکم تھا اگرچہ والد کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب یہ سات سال کے تھے۔

طالبعلمی کے زمانے میں سیاسی سرگرمیاں طلبا یونین کے ذریعے ہی رہیں علی گڑھ میں اور لکھنو میں تعلیم ختم کر کے بھوپال واپس آ گئے باپ نے جو جائیداد چھوڑی تھی وہ ضروریات زندگی کے کافی تھی، احمد علی خاں کی والدہ بڑی منتظم خاتون تھیں ان کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی تھیں بڑے بھائی ریاست کی حکومت میں لازم تھے بھوپال میں جب احمد علی خاں نے اپنی سیاسی اپچ کے مطابق مزدور تحریک میں حصہ لینا شروع کیا تو مسائل پیدا ہوئے اور انھیں بہت جلد اس بات کا احساس ہو گیا کہ سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے لیے انسان کا مالی اعتبار سے انڈی پنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔


لکھنو میں انھیں درس و تدریس کے میدان میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی تھی مگر انھیں اس سے دلچسپی نہ تھی انھوں نے کسی کیریئر کا اپنے لیے انتخاب نہیں کیا تھا البتہ انھیں یہ اطمینان تھا کہ وہ ایل ایل بی ہیں اور قانون کی یہ ڈگری انھیں بے کار نہیں رہنے دے گی ۔ بھوپال میں ایک مزدور تحریک میں عملی حصہ لینے کے نتیجے میں ان کو یہ پیغام مل گیا تھا کہ اب انھیں بھوپال سے چلا جانا ہو گا۔ بھوپال کے وزیر خزانہ کے ایف حیدر نے انھیں یہ پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو وہ دہلی سے شایع ہونے والے مسلم لیگ کے اخبار ''ڈان'' میں ان کی ملازمت کا انتظام کر سکتے تھے۔

احمد علی خاں لکھتے ہیں ''سیاسی بیداری نے میری زندگی کا انداز بدل دیا تھا پہلے میرا مشغلہ پیرا کی، بھوپال کی جھیل میں کشتی رانی اور ہاکی کھیلنا تھا اس کے بعد اگر کوئی شوق تھا تو جاسوسی، ناولیں پڑھنے کا پھر یہ سارے مشغلے ختم ہو گئے، میں تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں حصہ لینے لگا اور اخبار پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا، قومی آزادی کا جذبہ میری سیاسی بیداری کا محرک تھا۔''حیدر صاحب نے جب احمد علی خاں کو ''ڈان'' دہلی کے ایڈیٹر الطاف حسین سے ملانے کی پیشکش کی تھی، اس کے چند دن بعد ہی انھیں بمبئی کے اخبار ''اقبال'' میں ملازمت کی پیشکش ہوئی اور یہ اس کے ایڈیٹر ہو کر ممبئی چلے گئے، لکھتے ہیں ''بھوپال سے جاتے وقت مجھے شعوری طور پر یہ احساس نہیں تھا کہ میں صحافت کو اپنا کیریئر بنا رہا ہوں یہ قسمت کا فیصلہ تھا جو ہو کر رہا''

یہ 1946ء کے موسم بہار کا زمانہ تھا احمد علی خاں ممبئی گئے مگر پانچ مہینوں میں اکتا کر واپس گئے وہاں انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ آزادی فکر اور خود اپنی ایک رائے رکھنے کی آزادی کے بغیر کوئی اچھا جرنلسٹ نہیں بن سکتا۔ اب انھوں نے ''ڈان'' میں ملازمت کا فیصلہ کیا چنانچہ بھوپال کے وزیر خزانہ کی وساطت سے دہلی میں الطاف حسین سے ان کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے انھیں ''ڈان'' میں اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر کر دیا، پھر جب کراچی سے ڈان کا اجرا ہوا تو وہ الطاف حسین کے ساتھ دہلی سے کراچی آ گئے یہ اگست 1947ء کی بات ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، مسلم لیگ کے ترجمان کی حیثیت سے ڈان کو پاکستان میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی۔

اس کا اسسٹنٹ ایڈیٹر ہونا ایک اعزاز تھا لیکن ابھی احمد علی خاں کو ''ڈان'' میں دو سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ انھیں ''پاکستان ٹائمز'' سے جس کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے اور جو بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا آفر ہوئی، اور وہ لاہور چلے گئے، وہ لکھتے ہیں۔ ''پاکستان ٹائمز'' کا خیال اس لیے پیدا ہوا کہ (اس کے مالک) میاں افتخار الدین ترقی پسند رجحان کے علمبردار تھے اور میں ان کے انداز فکر سے کافی متاثر تھا۔احمد علی خاں کے پاکستان ٹائمز میں جانے کے بعد اس اخبار نے کئی دور دیکھے ''اندرونی خلفشار، معیار کا گرنا اور سرکولیشن میں کمی، نیشنل پریس ٹرسٹ میں شمولیت اور پھر آخر میں ایک عظیم اخبار کا خاتمہ'' 1951ء میں جب فیض صاحب گرفتار ہوئے تو کچھ جرنلسٹ بھی گرفتار کر لیے گئے احمد علی خاں بھی گرفتار ہوئے اور دو ماہ قید تنہائی میں رہے پھر رہا کر دیے گئے۔ 1963ء محمد احمد علی خاں ''ڈان'' میں واپس آ گئے۔

دوبارہ واپس آنے کے بعد وہ 35 سال اس اخبار سے وابستہ رہے جس میں سے 24 سال انھوں نے اس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے گزارے، اس دوران بھی کئی اتار چڑھاؤ آئے سب سے مشکل دور بھٹو کا زمانہ تھا، احمد علی خاں جرنلزم کو ایک کیریر سے زیادہ ایک مشن سمجھتے تھے وہ لکھتے ہیں ''میں نے اپنے ذہن میں دو الگ الگ خانے بنا لیے تھے ایک اخبار کی مطلوبہ ایڈیٹوریل پالیسی کے مطابق سوچتا تھا اور دوسرا میری اپنی آزادانہ رائے کی تشکیل میں لگا رہتا تھا'' احمد علی خاں کا معیار صحافت بلند تھا وہ ایک کامیاب ایڈیٹر تھے اور اس حیثیت سے ان کا احترام کیا جاتا تھا۔

زبیدہ مصطفی کہتی ہیں کہ ''خان صاحب کو ''ڈان'' سے غیر متزلزل ذہنی اور روحانی وابستگی تھی اور اسے انھوں نے اپنی پہچان بنا لیا تھا۔'' احمد علی خاں کے نواسے احمد طاہر سعید نے ان کی یاد سے وابستہ کچھ باتیں لکھی ہیں وہ لکھتے ہیں ۔ زندگی سے ان کی کمٹمنٹ ان کی بہترین خوبیوں میں سے ایک تھی ان کی زندگی سادہ تھی ضرورتیں محدود، کام کے معاملے میں اعلیٰ معیار کے طالب تھے اس میں کبھی کمی نہ کرتے، ان میں ایک شرافت اور وقار تھا یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ نوشین لکھتی ہیں وہ بہت پیارے انسان تھے یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی مسکراہٹ سے فضا کو روشن کر دینگے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے ارادوں میں فولاد کی سی پختگی تھی انھیں اپنے آپ پر اعتبار تھا وہ ناکامی سے کبھی گھبرائے نہیں وہ کوشش پیہم کے قائل تھے۔
Load Next Story