عورتیں اور ترقی

اقتصادی خوشحالی کے زمانے میں بھی عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ گھر سے باہر نکل کے کام کریں


Mahnaz Rehman July 16, 2015

استحصالی معاشروں میں مراعات یافتہ اور طاقت ور طبقات محنت کش طبقے کا زیادہ کامیابی سے استحصال کرنے کے لیے نسل یا جنس کی بنیاد پر ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔

صنعتی عمل نے گھر اور کام کے درمیان واضح تقسیم پیدا کر دی ہے چرخے اور کھڈی سے سوت کاٹنے کے زمانے میں گھر اور کام ایک ہی جگہ ہوتا تھا۔ انیسویں صدی میں ہندوستان سے لے کر برطانیہ تک صنعتی انقلاب سے پہلے ایسا ہی ہوتا تھا لیکن گھر اور کام کے درمیان تقسیم نے عورتوں اور مردوں کے درمیان تقسیم کار میں اضافہ کر دیا۔

مرد خاندان کا کفیل اور سرپرست ٹھہرا اور عورتوں کا کام گھر چلانا اور بچوں کی دیکھ بھال رہ گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاندان کی آمدنی کو برقرار رکھنے کے لیے گھر سے باہر بھی کام کرنا پڑا۔ آجروں کے نزدیک وہ سستی محنت کا ذریعہ تھیں جنگ یا ایسے ہی دیگر حالات میں مرد مزدوروں کی کمی پڑ جانے کی صورت میں وہ اس کمی کو پورا کر سکتی تھیں۔

اقتصادی خوشحالی کے زمانے میں بھی عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ گھر سے باہر نکل کے کام کریں مگر اقتصادی بدحالی کے زمانے میں عورتوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ گھروں کو لوٹ جائیں اور مردوں کے لیے جگہ خالی کر دیں، حالیہ برسوں میں بھی اس طرح کی صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔تاریخی طور پر محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کے لیے اس طرح کی تقسیم کار کے بہت سے مضمرات رہے ہیں، اول یہ کہ عورتوں کی وفاداری گھر اور کام کی جگہ پر بہتر معاوضے کے حصول کی جد وجہد میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

صنعتی عہدے سے پہلے ہونے والی طبقاتی جدوجہد میں عورتیں مقامی زمینداروں کے ساتھ ٹکراؤ میں براہ راست شامل رہی ہیں اور اناج کی قیمتوں میں اضافے کے اخلاف احتجاج کرتی رہی ہیں، اس طرح کے مظاہروں کے نتیجے میں آپ کو فوری طور پر روئی کا ٹکڑا تو مل سکتا ہے لیکن ہڑتال پر جانے کی صورت میں آپ کو مختصر مدت کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، اس صورت حال سے عورتیں زیادہ متاثر ہوتیں کیوں کہ گھر والوں کا پیٹ پھرنا ان کی ذمے داری ہوتی ہے، دوسرے جب عورتیں کم معاوضہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں تو مرد انھیں اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگتے ہیں۔

کچھ مردوں نے اپنے طور پر اس کا حل یہ سمجھا کہ خاندانی معاوضے کی بات کی جائے اور عورتوں کو افرادی قوت سے باہر رکھا جائے بجائے اس کے کہ معاوضے میں اضافے کی لڑائی کی جائے، عورتوں کو ٹریڈ یونین تحریک میں شامل کرنا وہاں مسئلہ تھا جہاں عورتیں مردوں سے مختلف طرح کا کام کر رہی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عورتوں کے کام کی نوعیت میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ اس وقت تک عورتیں گھریلو کام کام یا زرعی کام کرتی تھیں لیکن آج عورتیں دفاتر اور دیگر شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں پالیسی ساز عام طور پر یہی رائے رکھتے ہیں کہ عورتوں کو ترقی کے عمل میں شامل کرنے کا بہترین طریقہ انھیں بامعاوضہ اقتصادی سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے۔

لیکن کیا صرف پیسہ کمانا ہی زندگی کا مقصد ہے کیا صرف پیسا ہی سب کچھ ہے، پیسا کمانے کے علاوہ عورت معاشرے میں جو کردار ادا کرتی ہے کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ترقی کے عمل میں عورتوں کی شمولیت کے نظریے کو 1970ء کے عشرے میں فروغ حاصل ہوا۔ 1975ء میں میکسیکو میں ہونے والی عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس میں اس بارے میں آواز اٹھائی گئی۔ واضح رہے کہ 1975ء کو اقوام متحدہ نے عورتوں کا عالمی سال اور 1975ء تا 1985ء کو عورتوں کا عشرہ قرار دیا تھا۔ امرتیا سین کے استعدادی نظریے کی بنیاد پر اس بات کو عام طور پر قبول کر لیا گیا تھا کہ عورتوں کو (بامعاوضہ) اقتصادی سرگرمیوں میں شامل کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جب اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کی بدولت ترقی پذیر ممالک میں کثیر القومی کارپوریشنوں کا داخلہ شروع ہوا تو افرادی قوت خاص طور پرخواتین کارکنوں کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ یوں عورتیں ترقی کے عمل میں سرگرم شریک کار بنیںگی۔ گو برآمدات کے لیے لگائی جانے والی صنعتوں میں خواتین کارکن خاصی تعداد میں کام کر رہی ہیں لیکن کیا صرف اسے ہی ترقی کہا جائے گا۔ ترقی تو ایک وسیع عمل ہے، ترقی کا مقصد فیصلہ سازی کے عمل میں شمولیت اور عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے وسائل کے انتخاب اور ان تک رسائی میں اضافہ ہے، (فرنانڈز کیلی)

ورلڈ بینک کی پالیسیاں اسی مفروضہ 'معاوضہ' کی بنیاد پر بنائی گئی تھیں کہ روزگار کی فراہمی عورتوں کی خود مختاری اور با اختیاری کو ممکن بنائے گی ان پالیسیوں پر تنقید کے لیے مارکسی لٹریچر سامنے آیا، بامعاوضہ کام اور عورتوں کی آزادیٔ کے مفروضہ تعلق کو امرتیا سین کی تحریروں کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ امرتیاسین، آزادی اور ترقی کے بارے میں اپنے کام کا آغاز میں کہتا ہے آزادی، ترقی کا مقصد بھی اور ذریعہ بھی۔ ترقی کو ناپنے کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ اس کی بدولت آزادی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ اس کا کہاکہ ایک شعبے (مثلاً سماجی) میں آزادی کی سطح دوسرے شعبوں میں آزادی کی سطح پر اثر انداز ہوتی ہے۔ (مثلاً اقتصادی شعبہ) اور یوں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے، مختلف انسانی فرائض ادا کرنے اور ایک بھرپور زندگی گزار نے کی ہماری استعداد کس طرح سماجی طور پر طریقوں اور سیاسی و اقتصادی سیاق و سباق سے متاثر ہوتی ہے۔ امرتیا سین افراد کو ترقی کا وصول کنندہ نہیں بلکہ تبدیلی کا ایجنٹ گردانتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر خاطر خواہ سماجی مواقعے فراہم کیے جائیں تو افراد اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ انھیں ترقی کے 'عیار' پروگراموں کا مجہول وصول کنندہ نہیں سمجھنا چاہیے اس حوالے سے عورتوں کا مسئلہ خاص طور پر اہم ہے روٹی کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا تقسیم کے دوران سماجی و اقتصادی طور طریقوں کو بدلنا ہو گا، جو صنعتی تعصب کو پروان چڑھاتے ہیں، عورتوں کے حالات میں تبدیلی، سماجی و اقتصادی تبدیلی کا اہم اشاریہ ہے۔

امرتیا سین کا کہناہے کہ بامعاوضہ کام کی بدولت عورت کا کنٹریبیوشن نظر بھی آتا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور یوں گھریلو معاملات میں اس کی رائے اور اس کے فیصلوں کو بھی اہمیت ملتی ہے لیکن فیمنٹ محققین اس رائے سے متفق نہیں ہیں ان کی رائے میں امرتیا سین کچھ زیادہ ہی سادہ لوح ہیں اور منڈی کی قوتوں کو اور دیگر عوامل کو نظر انداز کر رہے ہیں دور کیوں جائیں پاکستانی معاشرے کی مثال لے لیں یہاں جو خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اونچے عہدوں پر فائز ہو جاتی ہیں کیا ان پر دہری تہری ذمے داریوں کا بوجھ نہیں پڑ جاتا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں