سندھ کا مری گورکھ ہل اسٹیشن

جس کو صوبہ سندھ کا مری کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے خوشگوار موسم کے لیے مشہور ہے۔

کیا آپ کو سندھ کی کسی ایسی جگہ کا علم ہے جہاں پر برف پڑتی ہو۔ جی ہاں سندھ میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں موسم سرما میں برف باری ہوتی ہے اور وہ ہے ''گورکھ ہل اسٹیشن۔'' اس جگہ کو حقیقت میں ایک عجوبہ کہا جا سکتا ہے۔ سندھ میں مری جیسا ماحول، آب و ہوا اور موسم اگر آپ کو کہیں مل سکتا ہے تو وہ گورکھ ہل اسٹیشن ہے۔

جس کو صوبہ سندھ کا مری کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے خوشگوار موسم کے لیے مشہور ہے۔ کیا آپ کو ایڈونچر پسند ہے؟ اور آپ فطرت کو قریب سے بھی دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ تفریح کا بہترین مقام ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ہل اسٹیشن صرف 6 ماہ کھلے ہوتے ہیں لیکن گورکھ ہل اسٹیشن اپنی آب و ہوا کے باعث سارا سال کھلا رہتا ہے۔

برصغیر میں گورکھ ہل اسٹیشن صف اول کے پرفضا سیاحتی مقامات میں شامل ہے۔ یہاں موسم گرما انتہائی خوشگوار، درجہ حرارت 25 سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور موسم سرما میں درجہ حرارت منفی تک گر جاتا ہے۔ یہاں پر الپائن، فلورا اور فوٹا کے پودے بھی پائے جاتے ہیں۔ سولر انرجی اور ونڈ انرجی بھی کافی مقدار میں پیدا کی جا سکتی ہے۔

کیر تھر کے پہاڑی سلسلے کا سب سے اونچا مقام گورکھ ہل اسٹیشن، ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں سطح سمندر سے 5866 فٹ کی بلندی پر دادو شہر کے شمال مغرب میں 78 کلو میٹر اور کراچی سے 450 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ سندھ (دادو) اور بلوچستان (خضدار) کی صوبائی سرحدیں بناتا ہے۔

ہل اسٹیشن 2400 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ ہوا کی رفتار 8 سے 14 میل فی گھنٹہ اور عمومی طور پر ہوا کی رفتار 2.6 میل فی گھنٹہ ہے، تیز ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں انسان کو سرشار کر دیتی ہیں۔ گرمیوں میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد گورکھ کے آس پاس رہتی ہے اور موسم سرما میں کچھ لوگ نقل مکانی کر لیتے ہیں۔ یہاں کاشت کاری کے لیے صرف بارش کے پانی پر انحصار ہوتا ہے۔

گورکھ ہل کا نام کیسے پڑا ؟ اس بارے میں کئی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق قرون وسطیٰ میں ایک ہندو بزرگ سری گورکھ ناتھ جی، ان پہاڑی سلسلوں میں گھومتے تھے۔ روایت ان کو بدھ یوگی ظاہر کرتی ہے، پہاڑ کا نام ان کے نام پر پڑ گیا۔ سنسکرت کی ایک روایت بتاتی ہے کہ گورکھ سنسکرت لفظ ہے اور اس کے معنی گائے، بکریوں، بھیڑیوں کو چرانا ہے۔ گرمی میں قریبی علاقوں کے لوگ مویشیوں کو چرانے پہاڑیوں پر لے جاتے تھے، لہذا اس کا نام گورکھ لیا جانے لگا۔ فارسی کے لفظ گرگ یا بلوچی لفظ گرکھ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کے معنی بھیڑیے کے ہیں۔

اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑ اور نزدیکی علاقہ بھیڑیوں سے بھرا ہوا تھا تو پہلے یہ گرکھ اور پھر گورکھ ہو گیا۔ ماضی میں بھیڑیے نہ صرف گورکھ ہل بلکہ پورے کیر تھر سلسلے میں پائے جاتے تھے اور اس کے پڑوسی صحرائی علاقے کاچھو میں گائے بھیڑوں کے لیے خطرہ تھے۔ سندھی زبان میں لفظ گورکھ کے معنی مشکل اور دشوار گزر ہیں۔ یہ علاقہ دشوارگزار، بل کھاتے، خطرناک راستوں، ڈھلوانوں اور پیچیدہ گزرگاہوں پر مشتمل ہے جس سے عام طور پر گزرنا مشکل ہوتا ہے اور یہی بات درست بھی لگتی ہے کہ اس پہاڑ کا نام سندھی لفظ گورکھ پر ہے۔ لیکن گورکھ ہل کے نام کی وجہ کچھ بھی ہو، صوبہ سندھ کے مری کی سیر سندھ کے ایک نئے اچھوتے موسم سے روشناس کرواتی ہے۔


اگر آپ کراچی سے گورکھ جانا چاہتے ہیں تو کوچز کے ذریعے پہلے دادو جانا ہو گا پھر گورکھ پہنچنے کے لیے آپ کو دادو شہر سے مغرب کی طرف جانا ہو گا۔ دادو سے 39 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں واہی پانڈی ہے، جو ہل اسٹیشن کا بیس کیمپ بنتا ہے۔ یہاں کے لوگ نہایت کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں۔ مزے دار کھانے اور عزت دیتے ہوئے روایتی مہمان نوازی کے اصولوں کے عین مطابق آپ کو آرام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

وادی واہی پانڈی کا علاقہ لق و دق پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے جن میں کہیں کہیں سبز چراگاہیں نظر آتی ہیں۔ بارش میں پورے علاقے میں جابجا نہریں بہتی نظر آتی ہیں۔ واہی پانڈی کے بعد سڑک تیزی سے بلندی کی طرف جاتی ہے۔ گورکھ ہل سے 53 کلو میٹر فاصلے پر سڑک ایک گزر گاہ ''یارو پاس'' میں داخل ہوتی ہے۔ سندھی میں اس گزرگاہ کو ''یاروسائیں کی لک'' کہتے ہیں۔ یارو پاس ہل اسٹیشن سے 76 کلو میٹر فاصلے پر تقریباً 2500 فٹ کی بلندی پر ہے۔

اس کے بعد سڑک ایک اور گزر گاہ ''خانول پاس'' میں داخل ہوتی ہے جو 4 کلو میٹر طویل زگ زیگ راستہ ہے۔ خانول پاس کا زیریں کنارہ سطح سمندر سے تقریبا 3000 فٹ کی بلندی پر ہے جب کہ بالائی سرا تقریباً5000 فٹ کی بلندی ہے۔ خانول پاس کے ٹاپ سے گورکھ ہل کے ٹاپ تک تقریباً13 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کے علاوہ کراچی سے دادو جائے بغیر بھی براستہ سیہون شریف یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نسبتاً چھوٹا راستہ ہے جس سے راستہ تقریباً20 کلو میٹر کم ہو جاتا ہے۔ پہلے کراچی سے جامشورو جائیں، سیہون شریف، جامشورو سے تقریبا 137 کلو میٹر دور ہے۔

جامشورو سے سیہون شریف انڈس ہائی وے پر جاتے ہوئے راستے میں دائیں طرف دریائے سندھ کا بہتا پانی اور بائیں جانب بلند و بالا پہاڑوں کے نظارے کے ساتھ خوش گوار موسم قدرت کی صناعی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ انڈس ہائی وے کے ذریعے سیہون شریف سے ایک سڑک 40 کلو میٹر فاصلے پر تحصیل جوہی سے ملتی ہے جب کہ سیہون سے ہائی وے کی حالت تھوڑی خستہ ہے لہذا یہاں سے جیپ کے ذریعے ہی ٹاپ پر پہنچا جا سکتا ہے، اگر آپ جیپ کرائے پر لیں تو بہتر ہو گا کہ حیدرآباد سے لے لیں۔ واہی پانڈی سندھ کے دیہی علاقوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے سیر کی بہترین جگہ ہے۔ یہ پاکستان کے ان چند دیہاتوں میں سے ہے جہاں کی آب و ہوا صاف، شفاف اور فضاء صحت بخش ہے۔

اس گاؤں میں ''بیج'' نامی درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ٹاپ سے آنیوالے پانی کے جھرنے گاؤں کے کنارے کنارے ایک چوڑی نہر بناتے ہیں۔ واہی پانڈی سے گورکھ ہل جانے والی سڑک 54 کلو میٹر لمبی ہے لیکن بارشوں اور سیلاب کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ واہی پانڈی کی وادی سے شروع ہونے والا سفر بتدریج پہاڑی سلسلے پر ختم ہوتا ہے اور وادی کے پہاڑی سلسلے میں تبدیل ہونے کی ایک نہایت خوب صورت مثال پیش کرتا ہے۔

گورکھ ہل کا زیادہ تر علاقہ بنجر ہے جہاں کوئی درخت نہیں ہے، صرف جنگلی جھاڑیاں نظر آتی ہیں۔ پہاڑوں کی بلندی اور اشکال ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ گورکھ ہل ٹاپ سے براہ راست سندھ اور بلوچستان کے انتہائی خوب صورت مناظر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے سورج نکلنے کا نظارہ انتہائی دلکش ہوتا ہے۔ جب سورج کی اولین کرنیں پڑتی ہیں تو مشرق کی طرف واہی پانڈی کی خوبصورت وادی کے آہستہ آہستہ روشن ہونے کا منظر جب کہ مغرب کی جانب سندھ و بلوچستان سرحد کا نظارہ مبہوت کر دیتا ہے۔ 2008ء کے موسم سرما میں یہاں اتنی برف باری ہوئی کہ پورا ہل اسٹیشن برف کی سفید چادر سے ڈھک گیا۔ سندھ کے لوگوں کو اب برف باری کا مزہ لینے کے لیے مری جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے پاس اپنا مری موجود ہے جہاں کم خرچ بالا نشین کے مصداق اسی طرح لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ 1998ء میں گورکھ ہل کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود دیگر ہل اسٹیشنوں کی طرح سیاحوں کے لیے تفریح گاہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گورکھ ہل ریسورٹ پراجیکٹ میں ایک چشمے، کیبل، چیئر لفٹ، گورکھ ہل سے چوکو ہل تک، اسپتال، واٹر فلٹر پلانٹ، سیکیورٹی چیک پوسٹ اور ریس کورس کی تعمیر شامل تھی لیکن یہ پراجیکٹ اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

مختلف ادوار میں حکومت کی جانب سے اس خوبصورت تفریح گاہ کو حقیقی مقام دلانے کے لیے اقدامات کیے گئے جو سرکاری اعلانات کی حد تک محدود رہے۔ گورکھ کو گورکھ ہل اسٹیشن بننے سے اب تک جو مالی وسائل اور افرادی قوت استعمال ہوئے ہیں آج تک اس کا حساب کسی نے نہ دیا ہے اور نہ ہی کوئی دینے کی پوزیشن میں ہے۔ حکومت اگر اس جگہ پر توجہ دے تو اس کو ایک ایسا مقام بنایا جا سکتا ہے جہاں غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی انتہائی کشش کا سامان موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر سیاح اس طرف کا رخ کریں تو پھر وہ مری کو بھول جائیں گے کیونکہ گورکھ سندھ کا مری ہے۔
Load Next Story