Acoustic Neuroma کانوں اور دماغ کو نقصان پہنچانے والا ایک مرض
یہ ٹیومر دماغ سے ریڑھ کی ہڈی تک جانے والے مخصوص سیال کی روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، ماہرین
یہ ایک قسم کا ٹیومر ہے، جو اندرونی کان سے دماغ تک جانے والی رگوں کو متأثر کرتا ہے۔ یہ سست روی سے پھیلتا ہے، لیکن اس کے بڑھنے سے مریض کا جسمانی توازن بگڑنے کے ساتھ اس کی قوتِ سماعت بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ ایسے مریض کو کانوں میں سیٹی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ بعض اوقات مریض کانوں میں بھاری پن محسوس کرتے ہیں۔
یہ ٹیومر رگوں اور دماغ کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کے باعث جسمانی توازن برقرار رکھنے والے اعصاب کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ مریض چلنے پھرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ طبی محققین کے مطابق بعض اوقات یہ ٹیومر ایک حد تک پھیلنے کے بعد رک جاتا ہے، لیکن ٹیومر چھوٹا ہو یا بڑا کسی بھی صورت میں دماغ کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ہمارے اعصابی نظام کا جسم کی ہڈیوں اور پٹھوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اور اس کا مرکز ہمارا دماغ ہے۔ دماغ ہی اعصاب کے ذریعے پورے جسم کے عضلات کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ سے منسلک نظام کے ذریعے ہمارے اعضاء تک جو ہدایات پہنچتی ہیں، وہ ان کے مطابق حرکت کرتے ہیں، لیکن ٹیومر کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچے تو پورے جسمانی نظام کے لیے خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
دراصل ٹیومر کے دماغ تک پھیل جانے سے مخصوص اعصابی نظام میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور مریض میں مختلف علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، جس پر ماہر معالج مختلف طبی طریقوں سے مدد لے کر اس مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ طبی ماہرین ایسے مریض کے ٹیومر کی روزانہ مانٹیرنگ کے ساتھ علاج کے لیے تابکار شعاعوں یا سرجری کا سہارا لے سکتے ہیں۔
اس ٹیومر کے بڑھ جانے کے بعد ظاہر ہونے والی نمایاں علامات میں ایک یا دونوں کانوں کی قوتِ سماعت میں رفتہ رفتہ کمی واقع ہونا اور جسم کا توازن کھو بیٹھنا شامل ہے۔ بعض مریضوں کے سننے کی صلاحیت ایک دم بھی ختم ہو سکتی ہے۔ مریض کو اپنے کان میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس ٹیومر کے پھیل جانے کی صورت میں ظاہر ہونے والی دیگر علامات میں چہرے پر سنسناہٹ اور درد کا احساس، جسمانی کم زوری بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ ایسا کوئی بھی فرد معمولاتِ زندگی انجام دینے کے دوران خود کو اچانک خالی الذہن محسوس کرسکتا ہے۔ کسی سے بات چیت کرتے ہوئے یا اٹھنے بیٹھنے کے دوران اچانک ایسے مریض کے حواس معطل ہوسکتے ہیں اور یہ کیفیت چند لمحوں تک برقرار رہ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی فرد میں مذکورہ بالا علامات ظاہر ہونے پر فوراً مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے، کیوں کہ اس مسئلے کی جلد تشخیص سے بہتر علاج ممکن ہوتا ہے۔ اگر ٹیومر بہت زیادہ پھیل جائے تو انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں ہر سال تین ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
Acoustic Neuroma کے علاج کے لیے اپنایا جانے والا طریقہ ٹیومر کی اس قسم کے سائز پر منحصر ہے۔ ٹیومر بننے کے ابتدائی سال میں اس کی تشخیص ہوجائے تو مریض کی دیکھ بھال اور علاج زیادہ بہتر طریقے سے ممکن ہے۔ ابتدائی اسٹیج پر معالج سے رجوع کرلیا جائے تو وہ اپنے مریض کا روزانہ طبی معائنہ کرتا ہے، جس میں ٹیومر کے پھیلاؤ پر خاص طور پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اپنے مریض کو قوتِ سماعت سے متعلق مختلف ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کرتا ہے اور رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ جان سکتا ہے کہ ٹیومر کی وجہ سے مریض کے دماغ اور جسمانی نظام کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور اس کے لیے کون سا طریقۂ علاج بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر ٹیومر پھیل رہا ہو تو ماہر ڈاکٹر طریقۂ علاج تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ تشخیص کے بعد ابتدائی علاج شروع کرنے کے ساتھ ڈاکٹر مریض کو ریڈیو سرجری کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ سرجری ٹیومر کو بڑھنے سے روکنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طریقۂ علاج میں ہفتے سے لے کر مہینہ اور بعض صورتوں میں سال بھی لگ سکتا ہے۔ تاہم اس سرجری کے بعد مریض کو چند دوسرے جسمانی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو سرجری کے باوجود بعض مریضوں میں اسی مقام پر دوبارہ رسولی بننا شروع ہوجاتی ہے، لیکن ایسا بہت کم اور عرصے کے بعد ہوتا ہے۔
اگر ٹیومر کے خلاف مریض کی ریڈیو سرجری ناکام ثابت ہو تو معالجین 'سرجیکل ریموول' تجویز کرتے ہیں۔ اس میں سرجن ٹیومر نکالنے کے مختلف طریقوں میں سے کوئی بھی اختیار کرسکتا ہے۔ یہ دراصل ٹیومر کے سائز پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ مریض کی دیگر علامات پر غور کیا جاتا ہے جب کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اب تک مریض کے جسم کو کس قدر نقصان پہنچ چکا ہے اور جراحی کی صورت میں کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج کا سب سے پہلا مقصد مریض کے چہرے کو Acoustic Neuroma کے نتیجے میں مفلوج ہونے سے بچانا اور اس کے سننے کی صلاحیت کو محفوظ رکھنا ہے۔
طبی محققین کے مطابق یہ ٹیومر دماغ سے ریڑھ کی ہڈی تک جانے والے مخصوص سیال کی روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، جس سے دماغ اور جسم کی کارکردگی متأثر ہونے لگتی ہے۔ یہ ٹیومر زیادہ تر تیس سے ساٹھ سال کی عمر کے دوران سامنے آتا ہے۔ مرد اور عورت یکساں طور پر اس بیماری سے متأثر ہوتے ہیں۔
یہ ٹیومر رگوں اور دماغ کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کے باعث جسمانی توازن برقرار رکھنے والے اعصاب کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ مریض چلنے پھرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ طبی محققین کے مطابق بعض اوقات یہ ٹیومر ایک حد تک پھیلنے کے بعد رک جاتا ہے، لیکن ٹیومر چھوٹا ہو یا بڑا کسی بھی صورت میں دماغ کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ہمارے اعصابی نظام کا جسم کی ہڈیوں اور پٹھوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اور اس کا مرکز ہمارا دماغ ہے۔ دماغ ہی اعصاب کے ذریعے پورے جسم کے عضلات کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ سے منسلک نظام کے ذریعے ہمارے اعضاء تک جو ہدایات پہنچتی ہیں، وہ ان کے مطابق حرکت کرتے ہیں، لیکن ٹیومر کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچے تو پورے جسمانی نظام کے لیے خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
دراصل ٹیومر کے دماغ تک پھیل جانے سے مخصوص اعصابی نظام میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور مریض میں مختلف علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، جس پر ماہر معالج مختلف طبی طریقوں سے مدد لے کر اس مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ طبی ماہرین ایسے مریض کے ٹیومر کی روزانہ مانٹیرنگ کے ساتھ علاج کے لیے تابکار شعاعوں یا سرجری کا سہارا لے سکتے ہیں۔
اس ٹیومر کے بڑھ جانے کے بعد ظاہر ہونے والی نمایاں علامات میں ایک یا دونوں کانوں کی قوتِ سماعت میں رفتہ رفتہ کمی واقع ہونا اور جسم کا توازن کھو بیٹھنا شامل ہے۔ بعض مریضوں کے سننے کی صلاحیت ایک دم بھی ختم ہو سکتی ہے۔ مریض کو اپنے کان میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس ٹیومر کے پھیل جانے کی صورت میں ظاہر ہونے والی دیگر علامات میں چہرے پر سنسناہٹ اور درد کا احساس، جسمانی کم زوری بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ ایسا کوئی بھی فرد معمولاتِ زندگی انجام دینے کے دوران خود کو اچانک خالی الذہن محسوس کرسکتا ہے۔ کسی سے بات چیت کرتے ہوئے یا اٹھنے بیٹھنے کے دوران اچانک ایسے مریض کے حواس معطل ہوسکتے ہیں اور یہ کیفیت چند لمحوں تک برقرار رہ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی فرد میں مذکورہ بالا علامات ظاہر ہونے پر فوراً مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے، کیوں کہ اس مسئلے کی جلد تشخیص سے بہتر علاج ممکن ہوتا ہے۔ اگر ٹیومر بہت زیادہ پھیل جائے تو انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں ہر سال تین ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
Acoustic Neuroma کے علاج کے لیے اپنایا جانے والا طریقہ ٹیومر کی اس قسم کے سائز پر منحصر ہے۔ ٹیومر بننے کے ابتدائی سال میں اس کی تشخیص ہوجائے تو مریض کی دیکھ بھال اور علاج زیادہ بہتر طریقے سے ممکن ہے۔ ابتدائی اسٹیج پر معالج سے رجوع کرلیا جائے تو وہ اپنے مریض کا روزانہ طبی معائنہ کرتا ہے، جس میں ٹیومر کے پھیلاؤ پر خاص طور پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اپنے مریض کو قوتِ سماعت سے متعلق مختلف ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کرتا ہے اور رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ جان سکتا ہے کہ ٹیومر کی وجہ سے مریض کے دماغ اور جسمانی نظام کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور اس کے لیے کون سا طریقۂ علاج بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر ٹیومر پھیل رہا ہو تو ماہر ڈاکٹر طریقۂ علاج تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ تشخیص کے بعد ابتدائی علاج شروع کرنے کے ساتھ ڈاکٹر مریض کو ریڈیو سرجری کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ سرجری ٹیومر کو بڑھنے سے روکنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طریقۂ علاج میں ہفتے سے لے کر مہینہ اور بعض صورتوں میں سال بھی لگ سکتا ہے۔ تاہم اس سرجری کے بعد مریض کو چند دوسرے جسمانی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو سرجری کے باوجود بعض مریضوں میں اسی مقام پر دوبارہ رسولی بننا شروع ہوجاتی ہے، لیکن ایسا بہت کم اور عرصے کے بعد ہوتا ہے۔
اگر ٹیومر کے خلاف مریض کی ریڈیو سرجری ناکام ثابت ہو تو معالجین 'سرجیکل ریموول' تجویز کرتے ہیں۔ اس میں سرجن ٹیومر نکالنے کے مختلف طریقوں میں سے کوئی بھی اختیار کرسکتا ہے۔ یہ دراصل ٹیومر کے سائز پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ مریض کی دیگر علامات پر غور کیا جاتا ہے جب کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اب تک مریض کے جسم کو کس قدر نقصان پہنچ چکا ہے اور جراحی کی صورت میں کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج کا سب سے پہلا مقصد مریض کے چہرے کو Acoustic Neuroma کے نتیجے میں مفلوج ہونے سے بچانا اور اس کے سننے کی صلاحیت کو محفوظ رکھنا ہے۔
طبی محققین کے مطابق یہ ٹیومر دماغ سے ریڑھ کی ہڈی تک جانے والے مخصوص سیال کی روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، جس سے دماغ اور جسم کی کارکردگی متأثر ہونے لگتی ہے۔ یہ ٹیومر زیادہ تر تیس سے ساٹھ سال کی عمر کے دوران سامنے آتا ہے۔ مرد اور عورت یکساں طور پر اس بیماری سے متأثر ہوتے ہیں۔