’کواچی‘ کے اطراف سمندری حیات کا انکشاف

زیرِ آب آتش فشاں پر تحقیق میں مصروف سائنس داں حیران

زیرِ آب آتش فشاں پہاڑوں، بالخصوص کواچی جیسے فعال آتش فشاں کے اطراف پانی بے حد گرم اور تیزابی ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

بحرالکاہل کے جنوب مغربی حصے میں زیرِ آب آتش فشاں پائے جاتے ہیں۔ زیرِ سمندر آتش فشاں کے پہاڑی سلسلے میں سب سے زیادہ فعال 'کواچی' ہے۔

یہ 2004 اور 2007 میں پھٹ بھی چکا ہے۔ اس آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے بڑی مقدار میں لاوا نکلا تھا۔ اس کے نتیجے میں جنوب مغربی بحرالکاہل کی فضا میں کثیف دھواں اور راکھ پھیل گئی تھی۔ سات برس تک خاموش رہنے کے بعد 2014 میں کواچی ایک بار پھر 'طیش' میں آگیا تھا، لیکن اس بار یہ جلد 'خاموش' بھی ہو گیا۔

زیرِ آب آتش فشاں پہاڑوں، بالخصوص کواچی جیسے فعال آتش فشاں کے اطراف پانی بے حد گرم اور تیزابی ہوتا ہے۔ سائنس داں اب تک یہ سمجھتے رہے ہیں کہ آتش فشاں پہاڑوں کے اطراف آبی حیات نہیں پائی جاتی، کیوں کہ تیزابی پانی کی وجہ سے وہاں زندگی کا تصور مشکل ہے یا ایسا تیزابی مقام سمندری مخلوق کے لیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم گذشتہ دنوں ایک تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کواچی کے اطراف شارک مچھلیوں کے ساتھ کئی دوسرے جاندار بھی موجود تھے۔

یہ دیکھ کر سمندری حیات کے مطاہرین حیران رہ گئے، کیوں کہ اس سے قبل اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں ان آتش فشاں سلسلوں کے اطراف کسی بھی جاندار کی موجودگی کے امکان کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کواچی سے متعلق مزید تحقیق کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے کیمرا بردار روبوٹ پانی میں اتارے تو وہاں آبی حیات کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔


ماہرین کے مطابق وہ اس تیزابی اور بے انتہا گرم پانی میں غوطہ خوروں کو اسی لیے نہیں بھیجتے کہ وہاں انھیں نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن اب آبی مخلوق کی موجودگی کا انکشاف ہونے کے بعد شاید اس حوالے سے غور کیا جائے کہ غوطہ خوروں کی حفاظت کا خصوصی انتظام کر کے انھیں کسی طرح اس علاقے میں بھیجیں تاکہ وہ روبوٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے آتش فشاں اور اس کے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے سکیں گے۔

محققین کے مطابق کواچی کے اطراف کئی اقسام کی شارک مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ان میں سلکی شارک اور ہیمرہیڈ شارک کے علاوہ نایاب قسم کی سلیپر شارک بھی شامل تھی۔ یہ علاقہ جزائر سولومن کی حدود میں شامل جزیرہ وینگونو کے جنوب میں ہے۔ ماہرین کو آتش فشاں سے متعلق ریسرچ کے لیے فنڈز نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے فراہم کیے تھے۔

ٹیم کے رکن برینن فلپس کے مطابق ابتدا میں غوطہ خور ہی کواچی کے اطراف زندگی کی کھوج لگانے کے لیے پانی میں اتارے گئے تھے، مگر جیسے جیسے یہ آتش فشاں کے دہانے کی طرف بڑھے، پانی کا درجۂ حرارت بڑھتا چلا گیا۔ اس پر انھوں نے فوراً اس علاقے سے دور ہوجانے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنی ٹیم کے سربراہ کو وہاں کے ماحول کی بابت بتایا تھاکہ درجۂ حرارت میں اضافے اور تیزابی پانی کی وجہ سے ان کی جلد جلنے لگی ہے۔

اس تجربے کے بعد غوطہ خوروں کو پانی میں بھیجنا بندکر کے روبوٹس سے مدد لی جانے لگی۔ جدید کیمروں سے لیس ربورٹس کی مدد سے سائنس دانوں پر یہ انکشاف ہوا کہ کواچی کے آس پاس انتہائی گرم اور تیزابی ماحول میں شارک مچھلیوں کے علاوہ جیلی فش، کیکڑے، اور ستارہ مچھلی بھی موجود تھی۔ آتش فشاں کے دہانے پر انھیں ہیمرہیڈ اور سلکی شارک تیرتی نظر آئیں۔ ٹیم کے مطابق دہانے کے اندر انھیں سلیپر شارک دکھائی دی جس کی وہاں موجودگی پر انھیں یوں بھی حیرت ہوئی کہ یہ مچھلی بحراوقیانوس اور انٹارکٹیکا کے ساتھ بحرالکاہل میں پائی جاتی ہے۔

اس تحقیق کے وقت اگرچہ کواچی ' خاموش' تھا، مگر اس کے دہانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس کا مسلسل اخراج ہو رہا تھا۔ ماہرین کے مطابق آتش فشان کے دہانے اور اردگرد کے شدیدگرم اور تیزابی ماحول میں ان جانداروں کا زندہ رہنا حیران کن امر ہے اور تحقیقی ٹیم اگلے مرحلے میں اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرے گی۔ ماہرین یہ بھی دیکھیں گے کہ سمندری آتش فشاں کے لاوا اگلنے کے وقت یہ جاندار کہاں چلے جاتے ہیں۔
Load Next Story