ڈیوٹی ابھی ختم نہیں ہوئی

رمضان ختم ہونے سے ہماری ذمہ داری، ڈیوٹی اور اچھا کام کرنے اور بُرے کام سے بچنے کی عادت ختم نہیں ہوجاتی.

اگر ہم ایک ماہ اپنے نفس پر قابو پا سکتے ہیں تو سال کے باقی گیارہ ماہ بھی پاسکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

اُس نے یوں حیرت سے مجھے دیکھا جیسے میں نے بہت انہونی بات کردی ہو۔ میں نے اس سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ اس بار عید پر کوئی فلم دیکھنے کا پلان ہے، میرا ایک دوست سینما میں ہوتا ہے، ٹکٹ بہ آسانی مل جائے گا، کونسا شو دیکھنا ہے اکٹھے پلان بناتے ہیں اس بار۔

اس نے مجھے حیرت سے گھور کر دیکھا۔ مجھے اس کی نظروں پر حیرانی ہوئی کیونکہ وہ میرا ایک بہترین دوست تھا اور میں نے قطعاً کوئی عجیب بات نہیں کی تھی۔ وہ مجھے مسلسل گھورے جا رہا تھا، ابھی تک اس کی زبان سے ایک بھی لفظ ادا نہیں ہوا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور بالآخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔

آخر میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے؟

ابھی تو رمضان کے اثرات بھی ختم نہیں ہوئے اور تم اپنی پرانی ڈگر پر آگئے ہو؟ ''میں نے تو اس رمضان میں خود سے عہد کیا ہے کہ جن برائیوں کو میں نے رمضان میں ترک کیا تھا انہیں اب دوبارہ نہیں اپناؤں گا، میں اپنا محاسبہ کروں گا، دیکھوں گا کہ مجھے واقعی شیطان بہکاتا ہے یا یہ میرے اندر کا شیطان، میرا اپنا نفس ہے جو مجھے برائی پر اکساتا ہے۔''

میں حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا، مجھے اس کی دوستی پر شک ہونے لگا، وہ ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ واقعی''کچھ رفیق سب سے اچھے رقیب ہوتے ہیں''۔ اس نے رمضان کا کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا تھا۔ میں نے اسے سمجھانے کی غرض سے کہا کہ دیکھو عید خوشی کا موقع ہوتا ہے اور اسی نسبت سے میں تم سے پوچھا تھا۔ رمضان تو اب ختم ہوگیا ہے۔

رمضان ختم ہوا ہے، ہماری ذمہ داری تو ختم نہیں ہوئی ناں!

رمضان ختم ہونے کا یہ مقصد تھوڑی ہے کہ ہم اپنی اچھی باتوں کو ترک کردیں۔ ویسے تم نے آج کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟
اس نے اچانک مجھ پر سوال داغ دیا، میں بغلیں جھانکنے لگا، اس سوال کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا۔ میری خاموشی دیکھ کر وہ پھر گویا ہوا کہ ''رمضان میں تو تم بھاگ بھاگ کر مسجد جایا کرتے تھے، اب کیا ہوا ہے''۔

میں پھر خاموش رہا تو اس نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کردیا۔

اچھا چلو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ رمضان میں تم نے کتنی فلمیں دیکھیں؟

ایک بھی نہیں، میں نے فخریہ انداز سے کہا

اچھا تو گانے سنتے تھے؟

کم از کم روزے میں نہیں

اچھی بات ہے۔ اور نماز؟

کوشش پوری کرتا تھا اور اگر کوئی رہ جاتی تھی تو وہ قضا کر لیتا تھا۔


لوگوں سے معاملات کیسے تھے؟ لوگوں سے معاملات؟

رمضان کے پورے مہینے میں کتنے لوگوں سے لڑائی جھگڑے ہوئے؟

مجھے کوئی یاد تو نہیں، ایک شخص پر غصہ آیا تھا لیکن میں نے روزے کا خیال کرلیا، اگر میرا اس وقت روزہ نہ ہوتا تو میں اس کا منہ توڑ کے رکھ دیتا ۔

شکر ہے کہ تمھارا روزہ تھا، وگرنہ وہ ٹوٹے ہوئے منہ کے ساتھ کیسا لگتا؟ اس نے شوخی کے انداز میں کہا تو ہم دونوں مسکرا پڑے۔
اور بھی کئی چیزیں تم نے رمضان میں ترک کی ہوں گی؟

ہاں، اگر کبھی کوئی جھوٹا بہانہ بنانے لگتا یا کوئی جھوٹ بولنے لگتا تو ایک بار یہ خیال ضرور آتا تھا کہ میرا روزہ ہے، اس وجہ سے کئی بار رک جاتا اور کئی بار بعد میں توبہ کرلیتا۔ تم نے کبھی سوچا کہ ایسا صرف رمضان میں ہی کیوں ہوا یا ایسا محض رمضان میں ہی کیوں ہوتا ہے؟

رمضان کی تو بات ہی کچھ اور تھی، ہر سو رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا نزول ہو رہا تھا۔ اس میں تو ایسی کشش ہوتی ہے کہ دل خودبخود عبادت پر کھینچا چلا جاتا ہے۔ میں بلا سوچے سمجھے عذر تراش رہا تھا۔

تمھاری بات اپنی جگہ بجا مگر یہ بھی درست ہے کہ رمضان میں شیطان سے زیادہ ہم اپنے نفس کو جکڑ کر رکھتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں گناہ و ثواب ماپنے کا کوئی آلہ نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے اگر ایسی کوئی پیمائش کی جائے تو سب سے زیادہ ثواب رمضان اور سب سے زیادہ گناہ شوال کے مہینے میں ہوتے ہوں گے کیونکہ عید کا چاند نظر آنے پر شیطان کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آپ کو بھی آزاد، آزاد محسوس کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر خدا نے شیطان کو قید کیا ہوا تھا تو ہم نے بھی اس ایک ماہ میں اپنے نفس کو قید کیا ہوا تھا اور جیسے ہی شیطان آزاد ہوتا ہے ہم اپنے نفس کو بھی آزاد کردیتے ہیں اور پھر وہی حال ہوتا ہے جو بھوکے بھیڑیوں کے بھیڑوں کے ریوڑ پر حملے سے ہوتا ہے۔

ایک ماہ کے شکست خوردہ نفس و شیطان مل کر ہمیں شر و برائی پر آمادہ کرتے ہیں اور ہم ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ایک ماہ کی کسر اچھی طرح پوری کرتے ہیں اور ہم لوگ ہیں کہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ابھی ہماری ڈیوٹی ختم نہیں ہوئی۔

رمضان کے بعد نہ تو نماز موقوف ہوتی ہے اور نہ ہی قرآن کو واپس اٹھایا جاتا ہے، ہم خود ہی ان دونوں فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ وہ گھر جن کے چولہے رمضان میں جلنا شروع ہوتے ہیں وہ ایک بار پھر بجھ جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنی ذمہ داریاں بھلا دیتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی بھی ہماری رعیت بھی شمار ہوتا ہے کہ وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور پہلو میں پڑوسی بھوکا سوئے۔

شائستگی، شگفتگی اور دھیما پن جو رمضان میں ہمارے مزاج کا حصہ ہوتا ہے وہ ایسے غائب ہوتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جیسے خوش خلقی بھی روزے سے منسوب و ملزوم ہو۔ فضول گوئی، فحش کلامی، دشنام طرازی ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زبان پر قابو صرف رمضان میں روزے کے اوقات میں ہی پانا ہے۔

فضولیات اور بے کار چیزیں دوبارہ ہماری روٹین کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہم کھوئی ہوئی بھیڑوں کی مانند بے منزل و بے مقصد ادھر ادھر گھومنے لگتے ہیں۔ ایک ایک کرکے ہم ساری پرانی خرافات کو بحال کر لیتے ہیں اور ساری اچھائیاں آہستہ آہستہ ترک کرتے جاتے ہیں اور پھر جب اگلا رمضان آتا ہے تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اب ہم کتنے پیچھے کھڑے ہیں۔ ہم میں اور خیر میں کس قدر فاصلہ ہے۔ رمضان کے ختم ہونے سے ہماری ذمہ داری، ہماری ڈیوٹی، ہماری اچھا کام کرنے اور بُرے کام سے بچنے کی عادت ختم نہیں ہوجاتی، ہم خود برائی کی طرف راغب ہونا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ایک ماہ اپنے نفس پر قابو پاسکتے ہیں تو سال کے باقی گیارہ ماہ بھی پاسکتے ہیں۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں میں؟

اس کا لیکچر دینے کا شوق اس وقت اپنے عروج پر تھا اور میں اس کی باتوں پر سر ہلاتے ہوئے ابھی بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کون سی فلم اور کون سا شو دیکھا جائے ۔

[poll id="549"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story