اعتماد کا فقدان

پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم‘ نواز شریف اور نریندر مودی‘ کی ملاقات کے بعد دونوں طرف سے جو تبصرے ہوئے ہیں

پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم' نواز شریف اور نریندر مودی' کی ملاقات کے بعد دونوں طرف سے جو تبصرے ہوئے ہیں ان کا لب لباب یہی ہے کہ کیا ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ حالانکہ دونوں لیڈر جمود کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تقسیم کے 70 سال بعد بھی دونوں ملکوں میں دشمنی اتنی ہی شدید ہے جتنی کہ پہلے تھی۔

جب بھی فاصلے کم کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو دونوں طرف سے اس پر شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے اور دونوں ملکوں میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں جو تعلقات کی بہتری کی بات کہنے جرأت کر سکیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کی دشمنی کے ڈر میں رہ رہے ہیں اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تاآنکہ دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد نہ کر سکیں تا کہ دفاعی اخراجات میں کمی لائی جا سکے جس کی وجہ سے تعلیم' صحت اور عمر رسیدہ افراد کی نگہداشت کے لیے بہت کم وسائل بچتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کا مطالبہ خطے کی تقسیم کا تھا۔ اس حوالے سے وہ کتنے بھی حق پر کیوں نہ ہوں لیکن اس کے نتیجے میں بہت سے خطرات پیدا ہوئے۔ دو قومی نظریے کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بڑی خلیج پیدا ہو گئی جو کہ اس کا منطقی نتیجہ تھا اور یہ خلیج دونوں طرف آج تک موجود ہے جس کی دونوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

بھارت خواہ کتنا بھی سیکولر ہونے کا دعوی کرے لیکن وہاں کی سیاست پر وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا غلبہ ہے جو فرقہ پرستی پر یقین رکھتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کہا تھا کہ اب برصغیر کے عوام یا بھارت کے شہری ہیں یا پاکستان کے۔ اب ان کو ان کے مذہب کے حوالے سے پہچاننا نہیں چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنا اپنا مذہب ترک کر دیں گے بلکہ مطلب یہ تھا کہ اب ان کی شناخت پاکستانی اور بھارتی کے طور پر ہو گی۔ لیکن قائد اعظم کی اس نصیحت پر اس طرح عمل درآمد نظر نہیں آیا جو ان کا مقصد تھا۔

دونوں ملکوں میں دشمنی بدستور موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے پر تلواریں سونت رکھی ہیں۔ کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی ہو جائے تو صورت حال جنگ کی سی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر بڑا شدید اثر ہوتا ہے اور ان کے خلاف تعصب بھڑک اٹھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی صورت حال میں بھارتی مسلمانوں کو قومی دھارے کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر ذکی الرحمان لکھوی کی آواز کے نمونے کا معاملہ لیں جس پر بھارت کی طرف سے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا جاتا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی کے مشترکہ بیان جو انھوں نے اوفا (روس) میں ہونے والے شنگھائی تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے بعد جاری کیا جس میں دونوں جانب سے عوام کو کشیدہ تعلقات میں امن کے لیے تیار کرنا تھا۔ لیکن نواز شریف کے بیان کا بھارت میں غلط مطلب لیا گیا۔ پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔لکھوی کا معاملہ دونوں ملکوں میں عزت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں جب جذبات بھڑک اٹھیں تو یہ ثابت کرنے کی کوشش ہونے لگتی ہے کہ کون زیادہ طاقت ور ہے چنانچہ ایسی صورت حال میں امن کی موت سب سے پہلے واقع ہوتی ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے قومی سلامتی اور امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز کی طرف سے تلخ نوائی کا نتیجہ مثبت برآمد نہیں ہوا۔ مودی حکومت کو احساس ہے کہ اس نے اسلام آباد میں گزشتہ اگست میں ہونے والی خارجہ سیکریٹریوں کی سطح کے مذاکرات کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے سفارتی طور پر غیردانشمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لہٰذا اب اوفا میں مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب میں جو ملاقات ہوئی ہے وہ بھارت کے ایما پر ہوئی ہے۔

دوسری طرف امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی برادری نے بھی پاک بھارت سربراہ ملاقات کا خیرمقدم کیا ہے لیکن اس سے دونوں ملکوں کے لیے کسی متفقہ روڈ میپ کو اختیار کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے گزشتہ ہفتے واشگٹن میں ہونے والی ایک تقریب میں کہا ہے کہ اوفا مذاکرات مستقبل میں مزید بات چیت کی راہ ہموار کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا دونوں ملکوں میں امن مذاکرات کی پرزور حمایت کرتا ہے۔

باور کیا جا سکتا ہے کہ اوفا کا مشترکہ اعلامیہ دونوں ملکوں میں قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر مذاکرات کی بنیاد فراہم کرے گا جو کہ اس ماہ کے آخر میں نئی دہلی میں ہونیوالے ہیں۔ بلکہ ان کے علاوہ بھی دونوں ملکوں میں مختلف سطح کے مذاکرات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو بھارت کے بی ایس ایف اور پاکستان کے رینجرز کے سربراہوں کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشن کی سطح پر ہوں گے۔ لہٰذا اب ساری توجہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈ وول اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز کے مذاکرات پر مرکوز ہے جن کے لیے فریقین وقت اور مقام کا تعین کر رہے ہیں۔

سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ کشمیر ایجنڈے پر سب سے اوپر ہو گا جب کہ مودی حکومت کے مشیروں کا کہنا ہے کہ سرتاج عزیز نے یہ بات پاکستانی عوام کو مطمئن کرنے کی خاطر کی ہے۔ انھوں نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان اوفاکے مشترکہ اعلامیے سے انحراف کی کوشش کر رہا ہے۔

اوفا میں پاک بھارت سربراہ ملاقات کا مقصد دونوں ملکوں میں طویل مدتی تعلقات کی بحالی ہے جب کہ وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے آیندہ سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے جو آیندہ سال پاکستان میں منعقد ہو گی۔ اس حوالے سے دونوں فریقین میں سیاسی آزمائش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکام کی طرف سے دیے جانے والے تلخ اور ترش بیانات کو بھارتی حکومت خاصا نرم کر کے پیش کر رہی ہے۔

میری خواہش ہے کہ سلیٹ کو بالکل صاف کر دیا جائے۔ تقسیم کے وقت غیر مسلموں اور مسلمانوں دونوں کے 10 لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، سب سے زیادہ نشانہ بننے والے پنجابی تھے حالانکہ دو تقسیم میں ان کا کوئی خاص عمل دخل بھی نہیں تھا۔ پھر بھی سب سے زیادہ نقصان انھی کا ہوا۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ قومیت کا انحصار مذہب پر نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام مذہب کی بنیاد پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور یہی چیز دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story