عید گاہ گم منہارن غائب

’تم نے اخبار میں یہ خبر نہیں پڑھی کہ داعش نے عراق میں نماز عید کو ممنوع قرار دیدیا ہے۔

rmvsyndlcate@gmail.com

ہمارے ایک عزیز نے بہت تشویش سے کہا کہ ''عید سر پہ آئی کھڑی ہے۔ ادھر ہماری نماز عید خطرے میں ہے۔''

ہم نے کہا کہ ''میرے عزیز۔ یہ کوئی نئی صورت حال ہے۔ کتنے برسوں سے ہماری نمازیں خطرے میں چلی آ رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر عیدین کی نمازیں۔ اب تو ہم پہرے میں نماز پڑھتے ہیں۔ عیدین کے موقع پر ڈبل پہرہ ہوتا ہے۔ ایک سرکاری پہرہ۔ اس سے گزرو تو مسجد کے محافظ ہمیں سخت شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سر سے پیر تک ہمارا جائزہ لیتے ہیں۔ پھر اندر جانے دیتے ہیں۔

وہ عزیز بولا ''ٹھیک ہے۔ مگر اس برس ہماری نماز عید زیادہ خطرے میں ہے۔''

''ہم نے پوچھا ''وہ کیسے''

بولا ''تم نے اخبار میں یہ خبر نہیں پڑھی کہ داعش نے عراق میں نماز عید کو ممنوع قرار دیدیا ہے۔ ان کا فرمان عراق کی حد تک ہے۔ مگر پاکستان میں جو داعش کے متوالے ڈھکے چھپے بیٹھے ہیں وہ بھی تو متحرک ہو سکتے ہیں۔''

تب ہم نے کہا کہ ''عزیز، تم نے اس کے بعد دوسری خبر نہیں پڑھی۔ وہ یہ کہ پاکستان کے پچاس سے زیادہ علما نے داعش کے فرمان کے جواب میں فتویٰ جاری کیا ہے اور داعش کے فرمان کو باطل ٹھہرایا ہے'' پھر ہم نے اس عزیز کی تسلی کے لیے یہ کہا کہ ''میرے عزیز شکر کر کہ ہم نے اپنی عیدگاہوں کو فراموش کر کے شہر کی مسجدوں میں عیدین کی نمازیں ادا کرنی شروع کر دی ہیں۔ آج بھی اگر نماز عید ہم عیدگاہ میں جا کر پڑھنے پر اصرار کرتے تو پہرے میں نماز پڑھنی کتنی مشکل ہو جاتی کہ عیدگاہ میں تو ہم کھلے میدان میں کھلے آسمان تلے یہ فریضہ بجا لاتے تھے۔ کھلے میدان میں پہریداروں کا پہرہ کتنا موثر ہو سکتا تھا''

وہ چکرا کر بولا اور بولتے ہوئے مجسم سوال بن گیا ''عید گاہ، عیدگاہ کی یہ تم نے کیا رٹ لگائی ہے۔ میں سمجھا نہیں کہ یہ عیدگاہ کس چڑیا کا نام ہے۔''

تب ہم نے ماتھا پیٹا ''ارے تم عید کی روایات سے کتنے ناآشنا ہو۔ تم عید کا وظیفہ پڑھ رہے ہو۔ اور نہیں جانتے کہ عیدگاہ کس شے کا نام ہے۔''


صاحب اگلے وقتوں سے روایات یہ چلی آ رہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عیدگاہ تعمیر کی جاتی تھی۔ یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بنچ میں ایک گنبد۔

مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہد مغلیہ میں دلی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہجہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جد کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

ہاں عیدگاہ کے نمازیوں میں سب سے پرجوش نمازی کمسن صاحبزادگان ہوتے تھے۔ جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر سلمہ ستارے کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے لگلیاں گونجتی نظر آتیں۔

ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کر دیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔

رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی مہندی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ مہندی اپنی بہار دکھائے گی۔

یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سوئیوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سوکھا کر انھیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آ گئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

اور ہاں عید کا چاند۔ ا رے یارو نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہوکر تم ہلال عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔
Load Next Story