قرآن انفرادی و اجتماعی دستور العمل
قرآن آئینِ نو کا پیرہن ہے۔ طرز ِکہن کا کفن ہے۔ حیات نو کا دستور ہے، منشور ہے،
قرآن آئینِ نو کا پیرہن ہے۔ طرز ِکہن کا کفن ہے۔ حیات نو کا دستور ہے، منشور ہے، ہر شعبۂ زندگی کے لیے صراطِ مستقیم کا مینارۂ نور ہے۔ اذانِ سحر ہے، قرآن کا مرکزی عنوان، انسان اور اس کا صحیح قول و عمل فکر و نظر ہے۔ وہ بیک وقت انسان کے شعورِکل، عقل و دل، ہوشِ وجدان، شعوری اور لاشعوری فیضان سے خطاب کرتا ہے۔ ان باتوں پرعمل کرنے کی دعوت دیتا ہے، جن میں انسانیت کا بحیثیت کل نفع ہے اور ان کاموں سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے۔ جن میں اس کا نقصان ہے۔
وہ انسان جس کو خدا نے دلِ بصیر اور عقلِ خبیر دی ہیں۔ قرآن میں غوطہ زن ہو کر دیکھتا ہے۔ تو صاف نظر آتا ہے کہ الکتاب اپنے مرکزی عنوان کے گرد گھوم رہی ہے۔ دورانِ گردشی جو مختلف عنوانات خواہ وہ تخلیقِ زمین و آسمان، تخلیقِ انسان، خواہ وہ مشاہداتِ آثار ِکائنات، ماضی کے حالات، مستقبل کے واقعات، وہ سب ذیلی عنوانات، مرکزی عنوان سے اس طرح وابستہ ہیں جس طرح کرنیں سورج سے پیوستہ ہوتی ہیں۔اندازِ خطاب اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر، کبھی عقائد، عبادات اور معاملات کی طرف، کبھی نصیحت، عبرتِ ملامت کی طرف، بدلتا رہتا ہے۔
لیکن اپنے مرکزی عنوان کو سر مو ہٹتا اور نہ بکھرتا ہے۔ قرآن بحر و بر، خشک و تر، ہر چیز کا ذکر ہے، لیکن اس کثرتِ ذکر کے باوجود، فردِ بشر اور اس سے متعلق خیر و شر کے عنوان اصل طرف لوٹتا اور پلٹتا ہے۔ جس طرح دریا مختلف راستوں سے بہتے ہوئے سمندر میں آ کر گرتے ہیں۔ شعاعیں لوٹتی سورج کی طرف ہیں، اسی طرح اتنے طویل ترین خطاب میں کثرت سے وحدت کی طرف لوٹتا دیکھ کر انسان کی عقل حیران ہے۔
یہی قرآن کی شان ہے، جو خدائے ذوالجلال و الاکرام کا کلام ہے، جس کے اہلِ ایمان سو جان سے صدقے جاتے ہیں۔مجھ عاصی بشر کی زبان میں کہاں وہ اثر، جسے خود نہیں کچھ اپنی خبر وہ کیا کرے گا بیان، قرآن کا ذکر، جس کے اندر ہے بند عجائب و غرائب کا بیکراں سمندر، اس لیے آئیے ذاتِ پاک خیر البشر کی زبان پر اثر سے سنتے ہیں قرآن کی خیر تاکہ ہو دل پر اثر، زندگی کی شب تاریک شاید ہو جائے سحر، قرآن کے اثر سے ایسے بشر جو کل تک تھے شر کے شریکِ سفر اور آج ہی خیر کے ہم سفر، خدا کرے مثلِ عمرؓ ہم پر بھی ہو قرآن کا اثر۔
ناطقِؐ قرآن نے فرمایا:
(۱) میری امت کی سب سے بہتر عبادت، قرآن کی تلاوت ہے۔ (احیاء العلوم۔ الاتقان)
(۲) اللہ تعالیٰ سے ظاہر ہونے والے قرآن کی طرح کسی اور عبادت کے ذریعے بندے اللہ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
(۳) تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو قرآن شریف کو سیکھے اور سکھا دے۔ (صحاح ستہ)
(۴) جس شخص کو قرآن شریف کی مشغولیت کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی، میں اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی فضلیت باقی تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی فضیلت اپنی مخلوق پر ہے۔ (ترمذی، دارمی، بیہقی)
(۵) اللہ کی کتاب میں ماضی کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کی پیش گوئیاں بھی اور حال کے لیے مکمل رہنمائی بھی یہ ایک فیصلہ کن، سنجیدہ اور باوقار کتاب ہے، جو جابر اور مغرور اسے نظرانداز کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پارہ پارہ تتر بتر کر دیتا ہے اور جو اس سے ہٹ کر کہیں اور رُشد و ہدایت چاہتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ صحیح راستے سے ہٹا دیتا ہے۔
(پھر وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتا ہی رہتا ہے) یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔ یہ حکیمانہ نصیحت ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے۔ یہ قرآن وہ چیز ہے کہ تخیل اسے غلط راستے پر نہیں لے جاسکتے اور زبانیں اس میں کسی قسم کی آمیزش نہیں کر سکتیں۔ علما اس کتاب سے سیر نہیں ہو سکتے اور اسے جتنا پڑھو یہ پرانا نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے غائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ (ترمذی، داری)
آخرالذکر حدیثِ مبارکہ میں نبی کریمؐ نے قرآن کے حقائق کا ایک اجمالی تعارف اور فضائل قرآن کا نچوڑ اور جوہر پیش کر کے گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ قرآنِ مبین، ترجمانِ ماضی، شانِ حال اور جانِ استقبال ہے، جو قوم اپنے آپ کو زندہ رکھنا، آج کو پایندہ اور کل کو تابندہ بنانا چاہتی ہے اس کے لیے قرآن مشعل اور راہِ عمل ہے۔
فرد، قوم، ملک، سلطنت کے لیے قوت اور شان و شوکت کی ضمانت ہے۔ قرآن، کلام خدائے ذوالجلال ہے۔ وہ اذانِ سحر ہے، جس سے شبستانِ وجود لرزتا ہے۔ رہبر ترقی و کمال، نور شب تاحیات ہے، جیسا کہ آپؐ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کتنی ہی قوموں کو بلندی بخشے گا اور کتنی ہی قوموں کو پست کرے گا۔'' (صحیح مسلم)آپؐ کی یہ پیش گوئی حق اور سچ ثابت ہوئی۔ ہمارے اسلاف نے صدق دل سے قرآن کو چوما، سینے سے لگایا، آنکھوں کا نور بنایا، دل میں بسایا، مضبوطی سے تھاما، قرآن پر سو جان سے قربان ہونے کی اور اللہ کی زمین کو اللہ کے نور سے منور کرنے کی ٹھان لی۔ اللہ نے ان کا اخلاص، یقین محکم، عملِ پیہم، عزم و مصمم دیکھا۔ عشق میں سچا اور پکا پایا۔
آزمائش کی ہر گھڑی میں باوفا پایا تو ان کو ہر ہر نعمت و رحمت سے نوازتا چلا گیا، وہ لوگ جن کے پاس نہ کھانے کو روٹی، نہ پینے کو پانی، نہ رہنے کو گھر، نہ سونے کو بستر، دربدر کی ٹھوکر جن کا مقدر تھا ان کی حالت یکسر بدل دی، دولت، عزت، عظمت، شوکت، حکومت اور دیگر نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے نوازا اور ان کی قابلِ رحم حالت کو ایسا قابلِ رشک بنا دیا۔ ''پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی'' کی مثل صادق آتی تھی۔قیصر و کسریٰ اور دوسرے کیسے کیسے ناموروں کو ان کے ذریعے بے نام و نشان کر دیا ان کے تاج، تاراج اور تخت تاخت کر دیے، عرب ہی نہیں افریقہ، یورپ اور ہندوستان ان کی دستِ قدرت میں دے دیے۔ بحر و بر، خشک و تر ان کے زیرِ اثر کر دیے ہر باطل قوت کو زیر و زبر کر دیا۔
مہ و پروین کا امیر اور سارے جہاں کو ان کا دستِ نگر بنا دیا۔ ہمارے اسلاف نے بھی اللہ کی عطا کردہ ہر نعمت کا خوب حق ادا کیا۔سارے جہاں کو نور لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ سے روشن کر دیا۔ سارا جہاں ان کی رحمت، محبت، صداقت، شرافت، انسانیت، عدالت اور ان کی شوکت، عظمت، رفعت، جلالت اور ہیبت سے لرزہ براندام تھا یہ سب کچھ اسلاف کا قرآن سے عشق و شغف کا نتیجہ اور عطیہ تھا انھوں نے عاشق قرآن بن کر سب کچھ پایا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا۔
ہم اسلام کے اسلاف کے اشراف ہونے کا سبب بھولتے چلے گئے۔ عشق قرآن سے دور اور عشق بتاں کے قریب ہو گئے، قرآن کے شغف میں ضعف آ گیا۔ قرآن سے روگردانی کرنے لگے جب اللہ نے اخلاف کے انداز رندانہ دیکھے تو آہستہ آہستہ اپنی رحمت اور نعمت اٹھاتا چلا گیا۔ مہر، قہر میں بدلتا گیا بلندی سے پستی کی طرف دھکیلتا گیا اور سزا کے طور پر رسوائی، ناداری، خواری اور بدنامی سے ان کی ہستی اور بستی کو بھر دیا اسلاف قرآن کے تارک بن کر تاریکی میں ڈوب گئے، انھوں نے قرآن کا دامن تھام کر سب کچھ پایا اور ہم نے قرآن کا دامن چھوڑ کر سب کچھ کھو دیا۔
اگر ہم اسلاف کی کھوئی ہوئی میراث کو پانا چاہتے اور اللہ کی روٹھی ہوئی رحمت کو منانا چاہتے ہیں تو وہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا جو اسلاف کا شیوہ تھا، یعنی قرآن کی طرف صدقِ دل سے سفر عاشقی شروع کرنا ہو گا۔ ہر دامن کو چھوڑ کر صرف قرآن کا دامن پکڑنا ہو گا، پستی کو بلندی میں، ذلت کو عزت میں، غلامی کو امیری میں، قہر کو مہر میں بدلنے کا اس کے سوا اور کوئی چارا کار نہیں۔ اس کے سوا جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔
اس سے مرض گھٹنے کی بجائے بڑھتا جائے گا۔ افاقہ کی بجائے اضافہ ہو گا، کیوں کہ مسلمان کی فطرت میں عشقِ قرآن داخل ہے، عشقِ قرآن، مسلمان کا ترجمان اس کی آن، شان اور ایمان ہے۔ عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کے لیے قرآن پر فریفتہ ہونا ناگزیر ہے۔ دنیا کی امامت کو اسیر کرنے کے لیے قرآن عظیم نسخہ اکسیر ہے جب تک قرآن ہمارے دل میں گھر نہیں کرتا، عظمت کی طرف روشنی کا سفر شروع نہیں ہو سکتا، اسلاف کی تاریخ میں اس حقیقت کی شہادت ہے گر ہم سمجھیں۔