پَرکُتر آپریشن
دو نقطوں کو ملانے والے سب سے چھوٹے خط کو خط مستقیم کہتے ہیں ، جو صرف ایک ’’صحیح‘‘ سیدھا اور سادا ہوتا ہے۔
دو نقطوں کو ملانے والے سب سے چھوٹے خط کو خط مستقیم کہتے ہیں ، جو صرف ایک ''صحیح'' سیدھا اور سادا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر مسئلے کا بھی صرف ایک صحیح اور سیدھا حل ہو سکتا ہے، اگر ارادتاً یا شرارتاً اس کو رد کر دیتے ہیں تو باقی سارے حل پیچیدہ اور ناقابل قبول ہوتے ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان میں ہوا۔
عوامی لیگ نے انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی تھی اصولاً مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی، یہی جمہوریت اور مینڈیٹ کا تقاضا تھا لیکن شرارتاً ایسا نہیں کیا گیا، کیا وہ فرزند زمین نہیں تھے؟ پھر ان کو غداری کا لقب کیوں دیا گیا؟ جن کو پاکستان پر حکومت کرنا ہے وہ کس کے خلاف غداری کرتے؟ پھر بنگالی نہیں بنگال چاہیے کا نعرہ لگا کر آپریشن کیوں کیا گیا؟ بنگالیوں اور فوج میں ناقابل عبور دراڑ کیوں ڈالی گئی؟ آپریشن سرچ لائٹ کے بعد بنگالیوں کا یہ حال ہو گیا کہ اگر کوئی فوجی بنگالی کو روک کر سوال کرتا ''تیرا نام کیا ہے'' تو جواب ملتا ''ہم تو پونجابی ہے۔''
ذرا غور کیجیے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگانے والے مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دینے والے، بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں غیر معمولی عجلت کرنے والے، مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور مغربی پاکستان والوں کو ''محبت کا زم زم بہہ رہا ہے'' کی خوش خبریاں سنانے والے، بنگالی دانشوروں کا قتل عام کرنے والے کون لوگ تھے؟ ان میں مشرقی پاکستان کا ایک بھی غدار نہیں تھا یہ سب کے سب مغربی پاکستان کے پیدائشی محب وطن تھے۔
پھر ٹنٹنا کیا تھا؟ بات صرف اتنی سی تھی کہ پچاس کی دہائی کی ابتدا میں جگتو فرنٹ کے بینر تلے الیکشن میں حصہ لے کر عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا صفایا کر دیا تھا اور حکومت بناتے ہی موثر اور با مقصد زرعی اصلاحات کر کے مشرقی پاکستان سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا تھا۔ مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کو یقینا تھا کہ اگر مجیب الرحمن کو وزیر اعظم بنایا جاتا تو سب سے بڑی غداری یہ کرتا کہ مغربی پاکستان سے بھی جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیتا۔ چنانچہ آپشن صرف ایک تھا کہ مشرقی پاکستان سے نجات یا اپنی جاگیروں کی حفاظت، ایوب خان اور مادر ملت کے صدارتی انتخاب کے دوران دو خدشات کی اور تصدیق ہو گئی۔
(1) مشرقی پاکستان کو آبادی کے تعلق سے پورے مغربی پاکستان پر فوقیت حاصل تھی بالکل آج کے پنجاب کی طرح تینوں صوبوں کی آبادی مل کر بھی پنجاب کی آبادی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ یعنی ساری خدائی ایک طرف اور ... (2) دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی میں مہاجر بنگالی اِکٹھ پورے مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کے لیے بھیانک خواب تھا کیوں کہ دونوں طبقوں میں جاگیردار نہ تھے، نہ وہ جاگیرداری نظام کو قبول کرتے تھے۔ اس کا واحد علاج (الف ) کراچی سے دارالخلافے کی اسلام آباد روانگی۔ (ب) مشرقی پاکستان سے تجارت اور (ج) کراچی کے سیاسی خیالات کے حامل شہریوں کے پَر کُتر دینا ٹھہرا تا کہ وہ اونچی اڑان کے قابل ہی نہ رہیں۔ کراچی کی حدود میں پھڑ پھڑا تے رہیں۔
چنانچہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد گیا، مہاجر بیورو کریسی اور سرکاری ملازم بے روزگار ہو گئے، کراچی کے کارخانوں میں جلاؤ گھیراؤ، قبضہ کرو کی لہر اٹھی اور مہاجر سیٹھ فٹ پاتھ پر آ گئے، کوٹہ سسٹم نافذ ہوا مہاجروں کی آنے والی نسلوں پر روزگار اور تعلیم کے دروازے بند ہو گئے۔سوال یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے کون فائدے میں رہا اور نقصان کس کا ہوا؟ (1) مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کی جاگیریں بچ گئیں (2) ساری بدنامی پاکستانی افواج کا مقدر بنی۔ (3) فوج کا ساتھ دینے کے پاداش میں مشرقی پاکستان کے مہاجرین (بہاری) بنگالیوں کے بد ترین انتقام کا نشانہ بنے جو آج بھی کیمپوں میں محصور پاکستان کا پرچم تھامے بیٹھے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج اور مہاجر پاکستان کے دو طبقے ایسے ہیں جن کے وجود سے جواز پاکستان ہے جب کہ مقامی فخریہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی، اس کے بعد پاکستانی ہیں مثلاً مشرقی پاکستان ختم ہو گیا لیکن جو مشرقی پاکستان سے پہلے بنگالی تھا اب بنگلہ دیشی ہے لیکن فوج کہاں ہے؟ مشرقی پاکستان ختم ہوا فوج ختم ہو گئی اور مہاجر (بہاری) کیمپوں میں محصور سوالیہ نشان بن کر رہ گئے چنانچہ فوج اور مہاجر دو طبقے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں یعنی اول و آخر پاکستانی۔
اب سوال یہ ہے کہ روشنیوں کے شہر کراچی کے مسائل کا واحد، صحیح، سیدھا اور سادھا حل کیا ہے؟
حالات حاضرہ کے مطابق اس روشنیوں کے شہر کراچی میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے پولیس والا بکتر بند گاڑی میں گشت کرتا ہے اور ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، بغیر ہیلمٹ کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر دندناتے اور بھتے کی پرچیاں تقسیم کرتے پھرتے ہیں، صرف اس لیے کہ ارادتاً اور شرارتاً کراچی والوں (مہاجر+کراچی کے تمام مستقل رہائشی) کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ اس کا واحد صحیح سیدھا اور سادا حل یہ ہے کہ بلا چوں چرا، حیل و حجت، جبر و اکراہ ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔(1) کراچی کو میٹروپولیٹن ہی نہیں بلکہ کاسمو پولیٹن سٹی ڈیکلیئر کیا جائے اس کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں رائج جیسے اقدامات کیے جائیں۔ (2) آئین میں دیے گئے۔
اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کر دیے جائیں۔ (3) جو قانون سازی کا مینڈیٹ لے کر آیا ہے وہ قانون سازی کرے جو ترقیاتی کاموں کا مینڈیٹ لے کر آیا ہے وہ ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے (4) منتخب نمایندوں پر غیرت مند بابا لوگ مسلط نہ ہوں۔ (5) ترقیاتی فنڈز کو نظر بد سے بچانے کے لیے سخت قانون سازی کی جائے۔
(6) اگر بلدیاتی نظام معطل ہو تو خود بخود ترقیاتی فنڈز منجمد ہو جائیں۔ کراچی روشنیوں کا شہر صرف اسی وقت بن سکتا ہے جب ہر طرف امن و امان کے چراغ فروزاں ہوں اور ان میں قانون کی حکمرانی کا تیل جل رہا ہو اور یہ کارنامہ صرف اور صرف لوکل گورنمنٹ کے تین بنیادی ستون ہی انجام دے سکتے ہیں۔ (1) کراچی والے (مہاجر+ کراچی کے تمام مستقل رہائشی (2) لوکل کونسلر (3) لوکل پولیس کیوں؟
قانون کی حکمرانی اور امن و امان کا قیام تینوں کا مشترکہ مفاد، دلی تمنا اور سنہرا خواب ہوتا ہے (1) یہ سب کے سب شہر کے گنجان آباد علاقوں میں اپنے خاندان، عزیز رشتے داروں، ذات برادری کے ساتھ رہتے ہیں (2) ان سب کے بچے بھی اسکول کالج جاتے ہیں اور بڑے کاروبار ملازمت کرتے ہیں۔ (3) لوکل کونسلر اور لوکل پولیس میں علاقے کے ہر فرد سے باپ دادا سمیت واقف ہوتے ہیں کیوں کہ حلقہ چھوٹا ہوتا ہے۔ (4) یہ محلوں میں محلے والوں کے درمیان ان کی نظروں کے درمیان ان کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔ (5) یہ میگا کرپشن کے قابل ہی نہیں ہوتے کیوں کہ ان کو زندہ رہنے کے لیے محل اور دفن ہونے کے لیے مقبرے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
(6) بے شک یہ فرشتے نہیں ہوتے ہیر پھیر تو کر لیتے ہیں لیکن نظر بچا کر، ڈنکے کی چوٹ پر نہیں کیوں کہ ان کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پڑوس میں ناک نہ کٹ جائے۔ غریب کا اثاثہ نہ سوئس اکاؤنٹ نہ دبئی کے ساحل پر فلیٹ ہوتا ہے بلکہ صرف سالم ناک (7) یہ برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے عوام کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔مجھے تو یقین کامل ہے کہ اگر مذکورہ بالا اقدامات کیے جائیں تو کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن کر جگمگانے لگے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا محض اس لیے کہ بے تحاشا ترقیاتی فنڈز سے چند کوالیفائڈ لٹیرے اپنی جبیں نہیں بھر سکیں گے تو پھر میں قائد ملت لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم کے آخری الفاظ دہراؤں گا ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔''
عوامی لیگ نے انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی تھی اصولاً مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی، یہی جمہوریت اور مینڈیٹ کا تقاضا تھا لیکن شرارتاً ایسا نہیں کیا گیا، کیا وہ فرزند زمین نہیں تھے؟ پھر ان کو غداری کا لقب کیوں دیا گیا؟ جن کو پاکستان پر حکومت کرنا ہے وہ کس کے خلاف غداری کرتے؟ پھر بنگالی نہیں بنگال چاہیے کا نعرہ لگا کر آپریشن کیوں کیا گیا؟ بنگالیوں اور فوج میں ناقابل عبور دراڑ کیوں ڈالی گئی؟ آپریشن سرچ لائٹ کے بعد بنگالیوں کا یہ حال ہو گیا کہ اگر کوئی فوجی بنگالی کو روک کر سوال کرتا ''تیرا نام کیا ہے'' تو جواب ملتا ''ہم تو پونجابی ہے۔''
ذرا غور کیجیے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگانے والے مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دینے والے، بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں غیر معمولی عجلت کرنے والے، مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور مغربی پاکستان والوں کو ''محبت کا زم زم بہہ رہا ہے'' کی خوش خبریاں سنانے والے، بنگالی دانشوروں کا قتل عام کرنے والے کون لوگ تھے؟ ان میں مشرقی پاکستان کا ایک بھی غدار نہیں تھا یہ سب کے سب مغربی پاکستان کے پیدائشی محب وطن تھے۔
پھر ٹنٹنا کیا تھا؟ بات صرف اتنی سی تھی کہ پچاس کی دہائی کی ابتدا میں جگتو فرنٹ کے بینر تلے الیکشن میں حصہ لے کر عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا صفایا کر دیا تھا اور حکومت بناتے ہی موثر اور با مقصد زرعی اصلاحات کر کے مشرقی پاکستان سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا تھا۔ مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کو یقینا تھا کہ اگر مجیب الرحمن کو وزیر اعظم بنایا جاتا تو سب سے بڑی غداری یہ کرتا کہ مغربی پاکستان سے بھی جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیتا۔ چنانچہ آپشن صرف ایک تھا کہ مشرقی پاکستان سے نجات یا اپنی جاگیروں کی حفاظت، ایوب خان اور مادر ملت کے صدارتی انتخاب کے دوران دو خدشات کی اور تصدیق ہو گئی۔
(1) مشرقی پاکستان کو آبادی کے تعلق سے پورے مغربی پاکستان پر فوقیت حاصل تھی بالکل آج کے پنجاب کی طرح تینوں صوبوں کی آبادی مل کر بھی پنجاب کی آبادی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ یعنی ساری خدائی ایک طرف اور ... (2) دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی میں مہاجر بنگالی اِکٹھ پورے مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کے لیے بھیانک خواب تھا کیوں کہ دونوں طبقوں میں جاگیردار نہ تھے، نہ وہ جاگیرداری نظام کو قبول کرتے تھے۔ اس کا واحد علاج (الف ) کراچی سے دارالخلافے کی اسلام آباد روانگی۔ (ب) مشرقی پاکستان سے تجارت اور (ج) کراچی کے سیاسی خیالات کے حامل شہریوں کے پَر کُتر دینا ٹھہرا تا کہ وہ اونچی اڑان کے قابل ہی نہ رہیں۔ کراچی کی حدود میں پھڑ پھڑا تے رہیں۔
چنانچہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد گیا، مہاجر بیورو کریسی اور سرکاری ملازم بے روزگار ہو گئے، کراچی کے کارخانوں میں جلاؤ گھیراؤ، قبضہ کرو کی لہر اٹھی اور مہاجر سیٹھ فٹ پاتھ پر آ گئے، کوٹہ سسٹم نافذ ہوا مہاجروں کی آنے والی نسلوں پر روزگار اور تعلیم کے دروازے بند ہو گئے۔سوال یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے کون فائدے میں رہا اور نقصان کس کا ہوا؟ (1) مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کی جاگیریں بچ گئیں (2) ساری بدنامی پاکستانی افواج کا مقدر بنی۔ (3) فوج کا ساتھ دینے کے پاداش میں مشرقی پاکستان کے مہاجرین (بہاری) بنگالیوں کے بد ترین انتقام کا نشانہ بنے جو آج بھی کیمپوں میں محصور پاکستان کا پرچم تھامے بیٹھے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج اور مہاجر پاکستان کے دو طبقے ایسے ہیں جن کے وجود سے جواز پاکستان ہے جب کہ مقامی فخریہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی، اس کے بعد پاکستانی ہیں مثلاً مشرقی پاکستان ختم ہو گیا لیکن جو مشرقی پاکستان سے پہلے بنگالی تھا اب بنگلہ دیشی ہے لیکن فوج کہاں ہے؟ مشرقی پاکستان ختم ہوا فوج ختم ہو گئی اور مہاجر (بہاری) کیمپوں میں محصور سوالیہ نشان بن کر رہ گئے چنانچہ فوج اور مہاجر دو طبقے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں یعنی اول و آخر پاکستانی۔
اب سوال یہ ہے کہ روشنیوں کے شہر کراچی کے مسائل کا واحد، صحیح، سیدھا اور سادھا حل کیا ہے؟
حالات حاضرہ کے مطابق اس روشنیوں کے شہر کراچی میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے پولیس والا بکتر بند گاڑی میں گشت کرتا ہے اور ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، بغیر ہیلمٹ کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر دندناتے اور بھتے کی پرچیاں تقسیم کرتے پھرتے ہیں، صرف اس لیے کہ ارادتاً اور شرارتاً کراچی والوں (مہاجر+کراچی کے تمام مستقل رہائشی) کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ اس کا واحد صحیح سیدھا اور سادا حل یہ ہے کہ بلا چوں چرا، حیل و حجت، جبر و اکراہ ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔(1) کراچی کو میٹروپولیٹن ہی نہیں بلکہ کاسمو پولیٹن سٹی ڈیکلیئر کیا جائے اس کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں رائج جیسے اقدامات کیے جائیں۔ (2) آئین میں دیے گئے۔
اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کر دیے جائیں۔ (3) جو قانون سازی کا مینڈیٹ لے کر آیا ہے وہ قانون سازی کرے جو ترقیاتی کاموں کا مینڈیٹ لے کر آیا ہے وہ ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے (4) منتخب نمایندوں پر غیرت مند بابا لوگ مسلط نہ ہوں۔ (5) ترقیاتی فنڈز کو نظر بد سے بچانے کے لیے سخت قانون سازی کی جائے۔
(6) اگر بلدیاتی نظام معطل ہو تو خود بخود ترقیاتی فنڈز منجمد ہو جائیں۔ کراچی روشنیوں کا شہر صرف اسی وقت بن سکتا ہے جب ہر طرف امن و امان کے چراغ فروزاں ہوں اور ان میں قانون کی حکمرانی کا تیل جل رہا ہو اور یہ کارنامہ صرف اور صرف لوکل گورنمنٹ کے تین بنیادی ستون ہی انجام دے سکتے ہیں۔ (1) کراچی والے (مہاجر+ کراچی کے تمام مستقل رہائشی (2) لوکل کونسلر (3) لوکل پولیس کیوں؟
قانون کی حکمرانی اور امن و امان کا قیام تینوں کا مشترکہ مفاد، دلی تمنا اور سنہرا خواب ہوتا ہے (1) یہ سب کے سب شہر کے گنجان آباد علاقوں میں اپنے خاندان، عزیز رشتے داروں، ذات برادری کے ساتھ رہتے ہیں (2) ان سب کے بچے بھی اسکول کالج جاتے ہیں اور بڑے کاروبار ملازمت کرتے ہیں۔ (3) لوکل کونسلر اور لوکل پولیس میں علاقے کے ہر فرد سے باپ دادا سمیت واقف ہوتے ہیں کیوں کہ حلقہ چھوٹا ہوتا ہے۔ (4) یہ محلوں میں محلے والوں کے درمیان ان کی نظروں کے درمیان ان کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔ (5) یہ میگا کرپشن کے قابل ہی نہیں ہوتے کیوں کہ ان کو زندہ رہنے کے لیے محل اور دفن ہونے کے لیے مقبرے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
(6) بے شک یہ فرشتے نہیں ہوتے ہیر پھیر تو کر لیتے ہیں لیکن نظر بچا کر، ڈنکے کی چوٹ پر نہیں کیوں کہ ان کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پڑوس میں ناک نہ کٹ جائے۔ غریب کا اثاثہ نہ سوئس اکاؤنٹ نہ دبئی کے ساحل پر فلیٹ ہوتا ہے بلکہ صرف سالم ناک (7) یہ برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے عوام کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔مجھے تو یقین کامل ہے کہ اگر مذکورہ بالا اقدامات کیے جائیں تو کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن کر جگمگانے لگے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا محض اس لیے کہ بے تحاشا ترقیاتی فنڈز سے چند کوالیفائڈ لٹیرے اپنی جبیں نہیں بھر سکیں گے تو پھر میں قائد ملت لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم کے آخری الفاظ دہراؤں گا ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔''