چاند رات اور اُس کی رونقیں

خو شی ہو یا دُکھ ۔۔ ہر ایک طبقے اور علاقے میں اپنے اپنے طریقوں کے ساتھ منائی جاتی ہے۔


انعام مسعودی July 17, 2015
چاند رات کی مخصوص رونق میں چوڑیوں کی کھنک، مہندی کی مہک، میچنگ دوپٹوں کی رنگائی شامل ہے۔ فوٹو: فائل

پچھلے کئی گھنٹوں سے چاند دیکھنے والی کمیٹی کے ارکان بڑے بڑے لینسز والی دُور بینوں سے چِپکے کھڑے ہیں اور ساتھ ساتھ موبائل فونوں کی گھنٹیاں بھی بج رہی ہیں سب ایک ہی خبر کے انتظار میں ہیں اور وہ ہےعید کا چاند نظرآنے کی خبر۔ لیجئے صاحب، انتظار کی گھڑیاں ختم ۔۔ کمیٹی کے سربراہ نےاعلان کیا۔ ''ہمیں ملک کے مختلف علاقوں سے شوال المکرم کا چاند دیکھے جانے کی مصدقہ شہادتیں مو صول ہوئی ہیں اور مسلمانانِ پاکستان کل عید الفطر منائیں گے''، اِس کے ساتھ ہی وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں جبکہ دُوسری طرف اس خبر کے عام ہوتے ہی چاند رات کی تیاریاں شروع۔

مجھے بہت زیادہ دُرست طور پر تو یاد نہیں کہ ''چاند رات'' کا لفظ میں نے پہلی بار کب سنا تھا مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ بچپن میں رمضان کے دوران مسجد میں مولانا صاحب نے ختم قرآن کے موقع پر فضائل اور شانِ قرآن بیان کرنے کے ساتھ ساتھ چاند رات کو بازاروں میں ہونے والی ''فحاشی'' کی مذمت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ نادان لوگ مہینے بھر کی کمائی چاند رات کو بازاروں میں جا کر منٹوں میں اُڑا دیتے ہیں۔ ہم پاکستانی لوگ تہواروں اور مواقع کو منانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اس کے پیچھے کوئی خاص علمی اور فکری منطق نہیں بس سادہ سی بات ہے کہ ہم آسان کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں اور مشکل کاموں کو ٹالتے رہتے ہیں اور چونکہ منانا ہمیشہ سے ایک آسان طرز عمل ہے بہ نسبت اپنانے کے، سو ادھر چاند رات کا اعلان ہوا ادھر قوم نے منانا شروع کردی۔

یوں تو چاند رات کی کئی سرگرمیاں ہیں لیکن اگر چوڑیوں کی کھنک، مہندی کی مہک، میچنگ دوپٹوں کی رنگائی وغیرہ اس رات سے نکال دی جائے تو سارا مزا کِرکِرا ہوجائے اور بازار ویران ہوجائیں۔ پہلے وقتوں میں محلے میں ایک آپا ہوا کرتی تھیں جن کے گھر کا برآمدہ چاند رات میں محلے کی خواتین اور بچیوں سے بھرا ہوتا تھا جو اپنی اپنی مرضی کے ڈیزائن کے مطابق مہندی لگوانے آتی تھیں۔ یہ کام رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ آج کے دور میں سُنا ہے کہ مہندی لگوانے سے زیادہ رچانے سے دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، اور اسی لئے اب یہ پارلرز کی رینج آف پروڈکٹس اینڈ سروسز میں شامل ہوگیا ہے۔ متمول گھرانوں کے چشم و چراغ دوستوں کے ساتھ آئسکریم کھانے کے بہانے اپنے نئے ماڈل کی لش پش گاڑیوں کی شاندار نمائش بھی اس رات کے ایک ایونٹ کے طور پر کرتے ہیں۔

https://twitter.com/AleenaZafar1/status/365340508136026114

مہندی کے بعد باری آتی ہے چوڑیوں کی، اور چوڑیوں میں تو پہلا نمبر ابھی بھی کانچ کی چوڑیوں کا ہی ہے، اگرچہ کہ پہنتے وقت ٹوٹنے سے زخم بھی آتے ہیں مگر ''شوق دا تے کوئی مل نیں ہوندا ناں جی''۔ چاند رات پر لگے چوڑیوں کے اسٹال پر خواتین کے ہر آئٹم کی طرح چوڑیوں کی خریداری میں بھی سب سے مشکل مرحلہ ان کی میچنگ کا ہی ہوتا ہے جبکہ دوسری مشکل سائز۔

مردوں نے بھی بہت سارے کام چاند رات کے لئے بچا کر رکھے ہوتے ہیں، جیسے کہ حجام کے پاس خضاب لگوانے جانا، اسی طرح ایک اہم کام درزی سے کپڑے لینا بھی ہوتا ہے، جو اکثر آخری وقت میں بھی درزی کی جانب سے یہ مژدہ سنانے کے بعد تھوڑا سا بلڈ پریشر ہائی کروا کر ہی مِلتے ہیں، سر بس وہ شاگرد کو بھیجا ہے اوورلاک کروانے، آتا ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مرد حضرات پر اکثر اس چیز کا بھی انکشاف چاند رات کو ہی ہوتا ہے کہ شلوار قمیض یا کُرتا تو آگیا مگر اس کی ایک خاص ڈیوائس جسے بُھلے وقتوں میں ازار بند کہا جاتا تھا مگرآجکل اِسے پی ایچ ڈی، یعنی پاجامہ ہولڈنگ ڈیوائس بھی کہا جانے لگا ہے جو ابھی بازار سے لانا باقی ہے، سو انھیں بھی چارو نا چار چاند رات کو بازار کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

بہت سارے ''صاحبانِ دل و نظر'' کے لئے یہ رات اُس وقت تک عام سی رات ہی ہوتی ہے کہ جب تک ان کا چاند اپنا جلوہ نہیں دکھا دیتا، اس لیے وہ اپنے اپنے چاند نکلنے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ ان کے لئے بھی چاند رات حقیقی چاند رات بن جائے۔ لیکن وہ منچلے کیا کریں کہ جن کی زندگی میں ابھی تک کوئی چاند نہیں اُبھرا ہوا ہوتا یا یوں کہہ لیجئے کہ ابھی تک ان کا کاغذ کورا ہی ہوتا ہے۔ تو جناب آپ اگر کسی میٹرو پولیٹن شہر سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر یہ جو آپکو چاند رات کےموقع پر پُرانی کاروں میں نئے ڈبل بیرل سائلنسر لگواکر فاسٹ اینڈ فیورییس کی کاپی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی اور بدگمانی کا شکار نہ ہوں، آسان سی بات یہ ہے یا تو کسی چاند کو اپنے کرتب دکھا کر متاثر کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ان کا چاند مطلع صاف نہ ہونے کی بنا پر نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ جی ہاں ون ویلنگ اور اسی سے مِلتی جُلتی دیگر حرکا ت بھی اب چاند رات کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔

وہ صاحبانِ جن کی زندگیوں میں چاند کی چاندنی اثر کرچکی ہوتی ہے۔ ان کے لئے چاند رات ایک خاص موقع ہوتی ہے اور ان میں سے اکثر کی چاند رات اُس وقت تک چاند رات نہیں ہوتی جب تک ان کا چاند اُفق پر نہیں اُبھرتا، وہ تو بس اُٹھتے بیٹھتے یہی گنگنا رہے ہوتے ہیں کہ:
تیری یاد میں رفتہ رفتہ بکھر رہی ہے میری ذات

لوٹ آؤناں کہ کل عید ہے اور آج چاند رات ۔۔۔۔

خوشی ہو یا دُکھ ۔۔ ہر ایک طبقے اور علاقے میں اپنے اپنے طریقوں کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ چاند رات بھی ایک ایسا ہی موقع ہے جو مختلف علاقوں اور طبقوں کے لوگ مختلف طریقوں سے مناتے ہیں، یہ ایک حسین اور خوشگوار رات ہوتی ہے جس میں خوشیاں سمیٹی جاتی ہیں، لیکن اس موقع پر خوشیاں بانٹنے کا کام بھی جاری رہنا چاہئے کیونکہ خوشیاں بانٹنے سے ہمیشہ بڑھتی ہیں۔

[poll id="548"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں