سو سال سے جاری جنگقسط ہفتم
ہر شہر اور قصبے کے بیشتر ہنر مند مختلف جنگی کاموں میں جھونک دیے گئے۔
ISLAMABAD:
تہذیب کو بچانے کے نام پر پہلی عالمی تہذیب کش جنگ میں بیس ممالک نے دامے، درمے، قدمے حصہ لیا۔ اس جنگ میں تقریباً پینسٹھ ملین لوگوں نے عملی شرکت کی۔ آٹھ ملین فوجی لڑتے ہوئے مارے گئے۔ دو ملین فوجی بیماریوں کی نذر ہوئے۔ اکیس اعشاریہ دو ملین فوجی زخمی ہوئے۔ سات اعشاریہ آٹھ ملین فوجی لاپتہ ہوئے یا جنگی قیدی بنے۔ چھ اعشاریہ آٹھ ملین سویلینز ہلاک ہوئے۔ فرانس اور جرمنی میں پندرہ سے پچاس برس تک کے پچاس فیصد مرد اس جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے۔ ہر شہر اور قصبے کے بیشتر ہنر مند مختلف جنگی کاموں میں جھونک دیے گئے۔ پچیس فیصد برطانوی شہریوں نے طرح طرح کی جنگی خدمات انجام دیں۔
برطانیہ کی جانب سے جتنے بھی فوجی لڑے ان میں سے کم از کم پچیس فیصد غیر برطانوی ( نوآبادیاتی یا ڈومینینز کے فوجی)تھے۔ سب سے زیادہ غیر برطانوی فوجی ہندوستان نے دیے (اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا)۔ برطانوی ڈومینین کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بڑھ چڑھ کے جانی و مالی مدد کی۔ جنگ میں شریک چھ لاکھ کینیڈین فوجیوں میں سے ساٹھ ہزار ہلاک ہوئے۔ آسٹریلیا کے تین لاکھ اسی ہزار فوجیوں میں سے دو لاکھ ہلاک و زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ آسٹریلوی ہلاکتیں گیلی پولی کے محاذ پر ترکوں سے لڑائی میں ہوئیں۔ جب کہ نیوزی لینڈ نے جو ایک لاکھ فوجی بھیجے ان میں سے اٹھاون ہزار ہلاک و زخمی ہوئے۔ نیوزی لینڈ کی کل آبادی ایک ملین نفوس پر مشتمل تھی۔ چنانچہ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ جانی نقصان جنگ سے ہزاروں کلو میٹر پرے واقع نیوزی لینڈ نے اٹھایا۔
دونوں طرف سے ایک کھرب چھیاسی ارب چالیس کروڑ ڈالر خاک و خون و لالچ کے اس عالمی کھیل پر خرچ ہوئے۔ (یہ تخمینہ چھیانوے برس پہلے کا ہے۔ آج کے حساب سے اگر اس مالیت کو کنورٹ کیا جائے تو دماغ کے طوطے اڑ جائیں)۔
اس کمر توڑ جنگ کے لیے جرمنوں نے جو قرضہ لیا وہ دو سو ستر بلین مارک (یعنی چورانوے ہزار ٹن سونے کی قیمت کے برابر) تھا۔ یہ قرضہ دو ہزار دس میں جا کے کہیں بیباق ہوا۔ جب کہ برطانوی قرضہ (دو ارب پاؤنڈ) گزشتہ برس بیباق ہوا (انیس سو سترہ کے ایک سو پاؤنڈ اسٹرلنگ کی قدر آج کے حساب سے چونتیس ہزار پاؤنڈ کے برابر تھی)۔
جنگ میں کودنے سے پہلے امریکا قرض دار ملک نہیں تھا۔ اس کا قومی قرضہ کل قومی پیداوار کے دو اعشاریہ سات فیصد کے برابر تھا۔ لیکن جنگ میں امریکا کی محض ڈیڑھ برس کی شرکت (انیس سو سترہ۔ اٹھارہ) نے امریکا اپنی کل قومی پیداوارکے تینتیس فیصد (پچیس ارب ڈالر) کے برابر مقروض کر دیا۔
اگرچہ سلطنتِ برطانیہ کے فوجی اخراجات میں سب سے زیادہ حصہ برطانیہ کے بعد آسٹریلیا اور کینیڈا نے ڈالا لیکن اگر کسی نوآبادی نے سب سے زیادہ افرادی قوت فراہم کی تو وہ ہندوستان تھا۔ انیس سو چودہ میں برطانوی ہند کی فوج صرف ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی لیکن جنگ ختم ہونے تک آٹھ لاکھ ہندوستانی فوجی محاذِ جنگ کا تجربہ حاصل کر چکے تھے اور بارہ لاکھ رضاکار جنگ میں جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ سینتالیس ہزار سات سو چھیالیس ہندوستانی فوجیوں نے سلطنت کی حفاظت کے لیے جان دی۔ پینسٹھ ہزار زخمی ہوئے۔ تیرہ ہزار کے سینے پر شجاعت کے تمغے سجے۔ ایک لاکھ نیپالی گورکھے اور ایک ہزار تبتی فوجی بھی برٹش انڈین آرمی کی طرف سے لڑے اور شمال مشرقی ہندوستان کے پچاس ہزار ناگا اور میزو قبائلیوں نے وسطی یورپ اور مشرقِ وسطی کے محاذ پر بطور قلی فرائض انجام دیے۔
جنگ سے پہلے برٹش انڈین آرمی کا جنگی نظریہ اس مفروضے پر استوار تھا کہ انڈین آرمی کی سمندر پار ضرورت نہیں پڑے گی لہذا اسے علاقائی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا۔ لیکن جنگ شروع ہوتے ہی یہ ڈاکٹرائین دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اسی طرح مارشل ریس کے نظریے کی بھی دھجیاں اڑ گئیں یعنی بعض نسلیں زیادہ بہتر فوجی پیدا کرتی ہیں۔ مارشل ریس کا تصور برٹش انڈین آرمی کی بھرتی میں اٹھارہ سو پندرہ کے بعد سے راسخ ہونا شروع ہوا اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کو پنجاب کے سکھ اور مسلمان فوجیوں کی مدد سے کچلنے کے بعد یہ تصور راسخ ہو گیا۔ چنانچہ عالمی جنگ سے ذرا پہلے تک برٹش انڈین آرمی میں پنجابی مسلمانوں اور سکھوں کی تعداد پچاس فیصد تھی۔
لیکن جنگ شروع ہوتے ہی جب ریگولر آرمی کو وسطی یورپ کے محاذ پر روانہ کیا گیا تو مزید افرادی قوت کے حصول کے لیے مارشل ریس کا نظریہ طاق پر رکھنا پڑ گیا۔ پنجاب کے مسلمانوں، سکھوں اور جاٹوں کے ساتھ ساتھ مراٹھوں، راجپوتوں، گڑھ والوں اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے پشتونوں سے لے کر جنوبی ہندوستان کے مدراسیوں اور شمال مشرق کے آسامی و بنگالی بھی بھرتی کے دائرے میں لے لیے گئے۔
شمالی ہندوستان میں یہاں سے وہاں تک پوسٹر نمودار ہونے لگے جن میں ایک بندوق بردار یونیفارمڈ فوجی جوان مستعد کھڑا ہے اور اس کے سامنے دو ہاتھ پھیلے ہیں جن میں نوٹوں کی گڈی ہے۔ پوسٹر پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے ''یہ روپے، بندوق اور وردی کون لے گا؟ وہی جو فوج میں فوراً بھرتی ہو گا ''۔ ایک اور پوسٹر میں ایک مسلح دیسی سپاہی سینہ تانے کھڑا ہے اور نمایاں حروف میں لکھا ہے ''یہ سپاہی ہندوستان کی حفاظت کررہا ہے۔ وہ اپنے گھر اور گھر والوں کی حفاظت کر رہا ہے۔ اپنے گھر والوں کی مدد کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ ''۔۔۔۔۔
رجواڑوں نے برطانوی جنگی امداد کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ جو مقامی جاگیردار جتنے جوان بھرتی کراتا وہ تاجِ برطانیہ سے اتنی ہی قربت و مراعات سمیٹتا۔ جنگی پروپیگنڈے، بااثر افراد کی شاباشی، سمندر پار دنیا دیکھنے کی چاہ، تنخواہ، پنشن، عزت، شوقِ مہم جوئی اور وطن کی خدمت کے جذبے نے نوجوانوں کے دلوں میں ہلچل مچا دی اور وہ جوق در جوق انجانے سفر پر روانہ ہو گئے۔ اکثر یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کس سے اور کیوں بھڑنے جائے جا رہے ہیں۔ حتی کہ جنوبی افریقہ سے انیس سو پندرہ میں تازہ تازہ لوٹنے والے جواں سال وکیل موہن داس کرم چند گاندھی نے بھی ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اس جنگ میں سرکارِ برطانیہ کا ساتھ دیں تا کہ بعد میں اس کا پھل کاٹ سکیں۔
ہندوستان نے صرف اپنے جوان ہی اس پرائی جنگ کے لیے نہیں دیے بلکہ برٹش انڈیا نے تاجِ برطانیہ کو ''ہندوستانی رعایا کی طرف سے'' ایک سو چھیاسی ملین پاؤنڈ کی براہ راست مدد بھی فراہم کی۔ اس میں سے آدھی رقم جنگی قرضہ تھی۔ جنگ کے آغاز تک برٹش انڈیا اپنے بجٹ اخراجات میں خود کفیل تھا لیکن جنگ ختم ہوتے ہوتے وہ لگ بھگ تیس ملین پاؤنڈ کا مقروض ہوچکا تھا۔
برٹش انڈیا نے اس جنگ میں پہلی بار عام ہندوستانیوں کے لیے راشننگ کا نظام نافذ کیا جس کے سبب راتوں رات ایک بڑی بلیک مارکیٹ وجود میں آ گئی۔ اسی ملین پاؤنڈ مالیت کے امدای آلات و رسد یورپ اور مشرقِ وسطی کے محاذوں پر برطانوی ہند سے پہنچائے گئے۔ رسد میں ستائیس لاکھ اڑتیس ہزار ٹن خوراک بھی شامل تھی۔ برٹش انڈین آرمی کے تمام تر اخراجات برٹش انڈیا نے اٹھائے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ کے خاتمے تک ہندوستان میں غلے کی قیمت میں ترانوے فیصد، تیار شدہ دیسی مصنوعات کی قیمت میں ساٹھ فیصد اور بدیسی مصنوعات کی قیمت میں انیس سو چودہ کے مقابلے میں ایک سو ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو گیا۔
جنگ شروع ہونے کے چار ماہ بعد دو ہندوستانی ڈویژن فرانس اور بلجیئم کی سرحد پر پہنچ چکے تھے اور وہ اتنے جذبے سے لڑے کہ پہلے ہی مہینے میں خداداد خان پہلا ہندوستانی سپاہی بن گیا جسے برطانیہ نے اعلی ترین جنگی اعزاز وکٹوریہ کراس سے نوازا ( اس جنگ میں ہندوستانیوں کو گیارہ وکٹوریہ کراس ملے )۔ وسطی محاذ پر کل ملا کے چار ہندوستانی ڈویژن لڑے۔ لیکن جب برفیلے فرنٹ پر خشک میدانوں اور پہاڑوں میں لڑنے کے عادی دیسی فوجیوں کا جانی نقصان ناقابلِ برداشت ہوتا گیا (لگ بھگ آٹھ سے دس ہزار) تو پھر انھیں جنوری انیس سو سولہ میں میسو پوٹامیا (عراق) کے محاذ پر ترکوں کے مدِمقابل بھیج دیا گیا یا پھر مشرقی افریقہ کی جرمن نوآبادیات پر قبضے کے لیے استعمال کیا گیا۔
میسو پوٹامیا میں قوت الامارہ کے محاصرے اور جنگ میں برٹش انڈین دستوں کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ دسمبر انیس سو پندرہ سے لے کر اپریل انیس سو سولہ میں ترکوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مرحلے تک برٹش انڈین آرمی کے ستائیس ہزار جوان اور افسر ہلاک ہوئے اور تیرہ ہزار جنگی قیدی بنے۔ ان میں سے نصف سے زائد جبری مشقت اور بیماریوں کا لقمہ ہوئے۔ البتہ برطانویوں نے میسو پوٹامیا میں اپنی فوجوں کی تنظیمِ نو کی اور قوت الامارہ کی شکست کے صرف آٹھ ماہ بعد برطانوی فوج نے بغداد پر جھنڈا لہرا دیا۔ فاتحانہ مارچ میں اکثریت برٹش انڈین آرمی کے فوجیوں کی تھی۔ لیکن کیا سب ہندوستانی اس جنگ سے خوش تھے؟ اگر ناخوش تھے تو انھوں نے اپنی ناخوشی کیسے کیسے ظاہر کی؟ ( داستان جاری ہے )