عید کی خوشیوں سے محروم عوام

امت مسلمہ میں رمضان کے مہینے کو ایک خصوصی تقدس حاصل ہے، اس ماہ میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

امت مسلمہ میں رمضان کے مہینے کو ایک خصوصی تقدس حاصل ہے، اس ماہ میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے ان عبادات میں روزے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، روزے کی ترکیب یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سے روزہ دار کو بھوک کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ خاص طور پر ان طبقات کو جن کی ڈکشنری میں بھوک کا لفظ ہی نہیں ہوتا بھوک کی تکلیف کا اندازہ ہو، لیکن یہ دو فیصد مخلوق اول تو روزہ رکھتی ہی نہیں اور اگر بفرض محال رکھ بھی لیتی ہے تو اس کا اس قدر انتظام کر لیتی ہے کہ روزہ آسان ہو جاتا ہے، ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں روزہ زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتا، اس مخصوص طبقے کو بھوک کی تکلیف کا احساس برائے نام ہوتا ہے، رمضان کے روزوں کی فرضیت تو ان غریب طبقات میں ہوتی ہے ۔

جن کے پاس نہ سحری کو پیٹ بھر کھانے کی اہلیت ہوتی ہے نہ افطار کے بعد انھیں پیٹ بھر کھانا نصیب ہوتا ہے لیکن یہی طبقات اپنی اذیت ناک زندگی میں رمضان اور روزوں کے تقدس کو اپنی زندگی کی اولین ترجیح بنا لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے عید روزوں کا انعام ہوتی ہے اور عید ایک ایسا خصوصی دن ہوتا ہے جسے پرمسرت بنانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جن ملکوں میں 53 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں ان ملکوں کے عوام کی زندگی میں رمضان کے علاوہ بھی بے شمار روزے آتے ہیں اور ان غریب طبقات کی عید بھی محرومیوں کی نظر ہو جاتی ہے۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ رمضان میں بھوک سے ناواقفوں کو بھوک کا احساس دلایا جاتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بھوک پیدا کیوں ہوتی ہے؟ کیا بھوکے ملکوں میں اناج کی کمی ہوتی ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کی بھاری اکثریت کے پاس اناج سمیت دوسری بنیادی ضروریات زندگی کو خریدنے کے لیے قوت خرید نہیں ہوتی یعنی دولت نہیں ہوتی جب کہ یہی طبقات دولت پیدا کرتے ہیں پھر یہ دولت سے محروم کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ محرومی ان کا مقدر ہوتی ہے؟ یا اس نظام کی دین ہوتی ہے جو صدیوں سے غریب طبقات پر مسلط ہے؟

انسانی معاشرے صدیوں سے غریب اور امیر محتاج اور غنی میں بٹے ہوئے ہیں، وہ لوگ جن کی تعداد 90 فیصد کے لگ بھگ ہے وہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور دو فیصد دولت مند قوم کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کر کے اپنی زندگی کو جنت بنائے ہوئے ہیں اور غریب طبقات کے ذہنوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ بات بٹھائے ہوئے ہیں کہ غریبی اور امیری سب مقدر کے کھیل ہیں۔ اس حوالے سے ایک فلسفہ یہ گھڑا گیا ہے کہ زندگی ایک امتحان ہوتی ہے یعنی بھوک، بیماری، جہالت سب ایک امتحان ہے اور جو لوگ اس امتحان میں استقامت کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں یعنی بھوک، بیماری، بیکاری کی اذیتیں ہنستے ہوئے سہہ لیتے ہیں انھیں مرنے کے بعد اس کا صلہ جنت کی شکل میں ملتا ہے۔ اس فلسفے کو غریب طبقات کے ذہنوں میں اس مضبوطی کے ساتھ ٹھونسا گیا ہے کہ یہ طبقات بھوک افلاس بیماری کو طبقاتی استحصال کی ایک شکل سمجھنے ہی سے قاصر ہوتے ہیں اور ان بلاؤں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر سہتے ہیں۔


اس پروپیگنڈے کے ساتھ دو فیصد اشرافیہ نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے یہ پروپیگنڈہ بھی کر رکھا ہے کہ جو لوگ ان طبقاتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور عوام میں ان مظالم کے خلاف بغاوت کی ترغیب دیتے ہیں وہ کافر ہیں، دین دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بالادست طبقات کی یہ شاطرانہ سازشیں اس لیے کامیاب رہتی ہیں کہ 90 فیصد آبادی علم اور طبقاتی شعور سے نابلد ہے۔ انھیں علم اور طبقاتی شعور سے نابلد اور محروم رکھنے کے لیے انھیں ایک طرف حصول تعلیم کی استطاعت سے محروم رکھا گیا ہے تو دوسری طرف انھیں مختلف حوالوں سے اس طرح بانٹ کر رکھا گیا ہے کہ یہ طبقات آپس ہی میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

مثلاً پاکستان میں عوام کو پاکستانی بنانے کے بجائے سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان، سرائیکی، ہزارہ وال، بلوچی وغیرہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اسی طرح انھیں مسلمان رہنے دینے کے بجائے سنی، شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی جیسے مختلف خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے خلاف اس طرح برسر پیکار کر دیا گیا ہے کہ ان کی اجتماعی اور ناقابل شکست طاقت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تقسیم کو اس قدر گہرا کر دیا گیا ہے مسجدوں کو بھی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور بے چارے عوام عید کی نماز کے لیے بھی اپنی اپنی مسجدیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے اور اسے پُرتشدد بنانے کے لیے اب دنیا، خصوصاً مسلم ملکوں میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلم دنیا ہی نہیں، بلکہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے نام پر ایسی وحشیانہ تنظیمیں بنائی جا رہی ہیں جو مسلمانوں کو تقسیم کر کے ایک دوسرے کو قتل کرنا عین ثواب بتا رہی ہیں۔

آج ذرا عراق شام یمن سمیت درجنوں مسلم ملکوں پر نظر ڈالیے آپ کو اندازہ ہو گا کہ انتہا پسند کس قدر طاقتور ہو گئے ہیں عراق کے ایک بڑے حصے پر ان انتہا پسندوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ شام کا بھی یہی حال ہے۔ کئی افریقی ملکوں میں مذہبی انتہا پسند تیزی کے ساتھ طاقت پکڑ رہے ہیں۔ عراق شام یمن وغیرہ میں فقہوں کے نام پر جو شدت پسند برسر پیکار ہیں ان کی طاقت کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ طاقتیں نہ صرف منظم ریاستی طاقتوں سے برسر پیکار ہیں بلکہ ہر جگہ انھیں پیچھے دھکیل کر آگے بڑھ رہی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھیں اس قدر بھاری جنگی طاقت کون فراہم کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان انتہا پسند طاقتوں کو ریاستی طاقتوں جیسی طاقت وہ ملک فراہم کر رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر کے انھیں اس طرح آپس ہی میں برسر پیکار کر دیا جائے کہ وہ سرمایہ دارانہ سامراجی ملکوں کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔ دراصل یہ ملک آقا اور غلام، غریب اور امیر، محتاج و غنی کے اس کلچر کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں جو رمضان جیسے مقدس مہینے اور عید جیسی خوشیوں کے دن کو غریب عوام کے لیے مایوسی اور احساس کم مائیگی کے دن میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
Load Next Story