افغانستان کو بھارت سے بچاؤ
افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سے اشرف غنی کا لہجہ ہی تبدیل ہوگیا تھا
ISLAMABAD:
ندرہ سال قبل جب سابق صدر پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں طالبان سے متعلق اس وقت جاری حکومتی پالیسی سے یوٹرن لیا تھا تو کاش وہ امریکا سے اپنی بھی ایک شرط منوا لیتے کہ سرکار! آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر برائے مہربانی بھارت کو افغانستان سے دور رکھیے۔ کیوں کہ اس کے وہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی اور پھر وہی ہوا کہ پاکستان جوں جوں افغان مسئلے کو حل کرانے کی کوششیں کرتا رہا بھارت اس مسئلے کو زیادہ سے زیادہ الجھانے کی تگ و دو میں لگا رہا۔
بعض مبصرین کے مطابق اگر اس ہنگامی وقت میں ہماری طرف سے بھارت کو افغانستان سے دور رکھنے کی شرط رکھی جاتی تو امریکی یقیناً اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ کیوں کہ وہ افغان مسئلے میں پھنس چکے تھے اور اس مشکل سے نمٹنے کے لیے انھیں پاکستان کی مدد حاصل کرنا ناگزیر تھا، افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور آج پاکستان اسی غلطی کی سزا بھگت رہا ہے۔
بھارت ہوشیاری سے پہلے ہی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا پلان بنا چکا تھا، اس لیے کہ شمالی اتحاد والے وہاں اس کی آؤ بھگت کے لیے تیار بیٹھے تھے پھر وہاں کرزئی جیسے انسانوں کی کمی نہ تھی، حالانکہ بھارت کا افغان مسئلے سے کوئی تعلق نہ تھا مگر وہ وہاں افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کے بہانے داخل ہوگیا۔ اپنے دوستوں کی مدد سے جلد ہی اس نے وہاں ''را'' کا نیٹ ورک قائم کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو تیار کرنے کے لیے پاکستانی سرحد سے ملحق نام نہاد قونصل خانے قائم کرلیے۔ اگرچہ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی مگر کرزئی نے محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر افغانستان کو بھارت کے حوالے کردیا۔
اس کے بعد بھارت پاکستان دشمنی میں افغان مسئلے کو زیادہ سے زیادہ الجھانے میں لگ گیا۔ سازش کے تحت بھارت امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں تلخی پیدا کرانے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ بھارت کی جانب سے پیدا کردہ پاک امریکا تعلقات میں یہ تلخی اب بھی برقرار ہے، تاہم خوش قسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے پندرہ سال تک دہشت گردی سے تباہ و برباد ہونے کے بعد اب افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں انتہائی خوش کن خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان کی کوششوں سے روٹھے ہوئے طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں، حقیقتاً یہ ایک بڑا بریک تھرو ہے کیونکہ امریکی طالبان کو شروع سے ہی مذاکرات کی دعوت دیتے رہے ہیں مگر وہ امریکی پیشکش کو ہمیشہ ہی ٹھکراتے رہے ہیں، ان کا موقف رہا ہے کہ جب تک ان کی سرزمین پر غیرملکی افواج موجود ہیں وہ کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پھر انھوں نے افغان حکومت کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ اسے ایک کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے رہے ہیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ کرزئی حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت ہی تھی اسے امریکی حکومت نے افغان عوام کی رائے لیے بغیر خود ہی تشکیل دے دیا تھا۔ کرزئی دو مرتبہ افغان حکومت کا سربراہ رہ چکا ہے۔ یہ اپنے پورے دور میں افغان عوام کے مفادات کے بجائے بھارتی مفادات کی پاسبانی کرتا رہا۔ گو افغان مسئلے کو حل کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا مگر وہ افغان مسئلے کو حل کرنے کے بجائے بھارتی خواہش پر اسے زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش میں لگا رہا۔ دراصل بھارت افغان مسئلے کا حل نہیں چاہتا تاکہ اس طرح وہ پاکستان کو دہشت گردی اور معاشی مسائل میں مسلسل پھنسائے رکھے پھر وہ پاکستان کو کرزئی کے ذریعے ہر سطح پر بدنام کراتا رہا اور افغانستان میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ حملے کا بغیر تحقیق فوری پاکستان پر الزام لگاتا رہا اس کے باوجود کہ طالبان خود ان حملوں کی ذمے داری اپنے سر لیتے رہے ہیں۔
ادھر پاکستان اپنی سرزمین پر پاکستانی طالبان کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو جتنا نقصان افغان طالبان نے افغانستان کو نہیں پہنچایا اس سے کہیں زیادہ پاکستانی طالبان نے پاکستان کو پہنچایا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ طالبان پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن بنے رہے ہیں۔ یہ بات امریکا بھی جانتا تھا کہ کرزئی حکومت افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کا پاکستان کو ذمے دار ٹھہرا کر بھارت کا حق نمک ادا کر رہی ہے مگر افسوس کہ اس نے کرزئی کو اس حرکت سے نہیں روکا جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امریکا بھی بھارت کی طرح افغانستان کی آڑ میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کی نیک نیتی دیکھیے کہ وہ شروع سے ہی طالبان کے امریکی اور افغان حکومت سے مذاکرات کرانے کی کوشش کرتا رہا تاکہ افغان مسئلہ جلد حل ہو اس طرح افغان عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی دہشت گردی سے نجات حاصل ہوسکے لیکن افسوس کہ پاکستان کی اس پرخلوص کوشش کو اس کے طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ سے تعبیر کیا گیا۔ بھارت مسلسل پروپیگنڈا کرتا چلا آرہا ہے کہ پاکستان طالبان سے ملا ہوا ہے اور اس کے اشارے پر ہی افغانستان میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن جب تک امریکی وزیر خارجہ رہیں وہ کھل کر بھارت کی طرف داری اور پاکستان کو ڈو مور کا سبق پڑھاتی رہیں۔ ان کے پورے دور میں بھارت افغانستان میں بلاشرکت غیرے راج کرتا رہا ہے اس وقت بھارت نے حالات ساز گار دیکھ کر بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی میں مزید اضافہ کیا ۔
پاکستانی مسلمان بھارت کی چالوں سے خوب اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں کہ وہ بالآخر پاکستان کو توڑ کر اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی دہشت گردانہ حملے کرواتا رہا ہے۔ مزید براں اس نے اپنے ہی ایجنٹوں سے کابل میں اپنے ہی سفارت خانے پر حملہ کروا کے اس کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی تھی۔ افغان پارلیمنٹ پر حالیہ حملے کا اگر جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ بھارتی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے شمالی اتحاد والوں سے مل کر افغان پارلیمنٹ پر حملہ کروا دیا اور فوراً کابل سے یہ بیان جاری ہوا کہ یہ حملہ پاکستان نے کروایا ہے۔
اس بیان سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بھارت نے دلوایا ہے کیونکہ وہ اس قسم کے ڈرامے اپنے ملک میں بھی بہت رچا چکا ہے اس نے اپنی ہی پارلیمنٹ پر اپنے ہی لوگوں سے حملہ کروایا اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا پھر ممبئی میں اپنے ہی دہشت گردوں سے وہاں قتل و غارت گری کرائی جس کا مقصد اس وقت پاکستان سے کشمیر پر جاری مذاکراتی عمل سے جان چھڑانا تھی یہ سراسر پاکستان پر جھوٹا الزام تھا لیکن امریکا کے دباؤ میں پاکستان نے بھارت کے اس ڈرامے کو سچ تسلیم کرکے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی تھی جس کا خمیازہ آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سے اشرف غنی کا لہجہ ہی تبدیل ہوگیا تھا اور وہ بھی کرزئی کی طرح پاکستان مخالف بیان دینے لگے تھے۔ لیکن اس وقت پاکستان نے طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر بٹھا کر افغان مسئلے کے حل کے امکانات پیدا کردیے ہیں یہ ایسا کارنامہ ہے جس کی اشرف غنی تو کیا امریکا سمیت پوری دنیا پاکستان کی تعریف و توصیف کر رہی ہے۔
اب اس میں شک نہیں ہے کہ افغان مسئلے کے حل کا وقت قریب آچکا ہے مگر پاکستان کی اس مثالی کارکردگی سے بھارت کی پریشانی میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اب افغانستان میں اس کے کھیل کے ختم ہونے کا وقت بھی قریب آچکا ہے لیکن وہ پاکستان کی اس دائمی امن کے لیے بچھائی گئی بساط کو الٹنے کے لیے کرزئی اور شمالی اتحاد والوں کے ساتھ مل کر پھر کوئی نیا سازشی ڈرامہ رچا سکتا ہے۔ چنانچہ پھر وہی پندرہ سال پرانی بات سامنے آرہی ہے کہ ''بھارت کو افغانستان سے دور رکھا جائے۔'' ورنہ افغان مسئلہ کہیں پھر کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔
ندرہ سال قبل جب سابق صدر پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں طالبان سے متعلق اس وقت جاری حکومتی پالیسی سے یوٹرن لیا تھا تو کاش وہ امریکا سے اپنی بھی ایک شرط منوا لیتے کہ سرکار! آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر برائے مہربانی بھارت کو افغانستان سے دور رکھیے۔ کیوں کہ اس کے وہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی اور پھر وہی ہوا کہ پاکستان جوں جوں افغان مسئلے کو حل کرانے کی کوششیں کرتا رہا بھارت اس مسئلے کو زیادہ سے زیادہ الجھانے کی تگ و دو میں لگا رہا۔
بعض مبصرین کے مطابق اگر اس ہنگامی وقت میں ہماری طرف سے بھارت کو افغانستان سے دور رکھنے کی شرط رکھی جاتی تو امریکی یقیناً اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ کیوں کہ وہ افغان مسئلے میں پھنس چکے تھے اور اس مشکل سے نمٹنے کے لیے انھیں پاکستان کی مدد حاصل کرنا ناگزیر تھا، افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور آج پاکستان اسی غلطی کی سزا بھگت رہا ہے۔
بھارت ہوشیاری سے پہلے ہی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا پلان بنا چکا تھا، اس لیے کہ شمالی اتحاد والے وہاں اس کی آؤ بھگت کے لیے تیار بیٹھے تھے پھر وہاں کرزئی جیسے انسانوں کی کمی نہ تھی، حالانکہ بھارت کا افغان مسئلے سے کوئی تعلق نہ تھا مگر وہ وہاں افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کے بہانے داخل ہوگیا۔ اپنے دوستوں کی مدد سے جلد ہی اس نے وہاں ''را'' کا نیٹ ورک قائم کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو تیار کرنے کے لیے پاکستانی سرحد سے ملحق نام نہاد قونصل خانے قائم کرلیے۔ اگرچہ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی مگر کرزئی نے محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر افغانستان کو بھارت کے حوالے کردیا۔
اس کے بعد بھارت پاکستان دشمنی میں افغان مسئلے کو زیادہ سے زیادہ الجھانے میں لگ گیا۔ سازش کے تحت بھارت امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں تلخی پیدا کرانے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ بھارت کی جانب سے پیدا کردہ پاک امریکا تعلقات میں یہ تلخی اب بھی برقرار ہے، تاہم خوش قسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے پندرہ سال تک دہشت گردی سے تباہ و برباد ہونے کے بعد اب افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں انتہائی خوش کن خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان کی کوششوں سے روٹھے ہوئے طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں، حقیقتاً یہ ایک بڑا بریک تھرو ہے کیونکہ امریکی طالبان کو شروع سے ہی مذاکرات کی دعوت دیتے رہے ہیں مگر وہ امریکی پیشکش کو ہمیشہ ہی ٹھکراتے رہے ہیں، ان کا موقف رہا ہے کہ جب تک ان کی سرزمین پر غیرملکی افواج موجود ہیں وہ کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پھر انھوں نے افغان حکومت کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ اسے ایک کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے رہے ہیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ کرزئی حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت ہی تھی اسے امریکی حکومت نے افغان عوام کی رائے لیے بغیر خود ہی تشکیل دے دیا تھا۔ کرزئی دو مرتبہ افغان حکومت کا سربراہ رہ چکا ہے۔ یہ اپنے پورے دور میں افغان عوام کے مفادات کے بجائے بھارتی مفادات کی پاسبانی کرتا رہا۔ گو افغان مسئلے کو حل کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا مگر وہ افغان مسئلے کو حل کرنے کے بجائے بھارتی خواہش پر اسے زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش میں لگا رہا۔ دراصل بھارت افغان مسئلے کا حل نہیں چاہتا تاکہ اس طرح وہ پاکستان کو دہشت گردی اور معاشی مسائل میں مسلسل پھنسائے رکھے پھر وہ پاکستان کو کرزئی کے ذریعے ہر سطح پر بدنام کراتا رہا اور افغانستان میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ حملے کا بغیر تحقیق فوری پاکستان پر الزام لگاتا رہا اس کے باوجود کہ طالبان خود ان حملوں کی ذمے داری اپنے سر لیتے رہے ہیں۔
ادھر پاکستان اپنی سرزمین پر پاکستانی طالبان کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو جتنا نقصان افغان طالبان نے افغانستان کو نہیں پہنچایا اس سے کہیں زیادہ پاکستانی طالبان نے پاکستان کو پہنچایا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ طالبان پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن بنے رہے ہیں۔ یہ بات امریکا بھی جانتا تھا کہ کرزئی حکومت افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کا پاکستان کو ذمے دار ٹھہرا کر بھارت کا حق نمک ادا کر رہی ہے مگر افسوس کہ اس نے کرزئی کو اس حرکت سے نہیں روکا جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امریکا بھی بھارت کی طرح افغانستان کی آڑ میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کی نیک نیتی دیکھیے کہ وہ شروع سے ہی طالبان کے امریکی اور افغان حکومت سے مذاکرات کرانے کی کوشش کرتا رہا تاکہ افغان مسئلہ جلد حل ہو اس طرح افغان عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی دہشت گردی سے نجات حاصل ہوسکے لیکن افسوس کہ پاکستان کی اس پرخلوص کوشش کو اس کے طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ سے تعبیر کیا گیا۔ بھارت مسلسل پروپیگنڈا کرتا چلا آرہا ہے کہ پاکستان طالبان سے ملا ہوا ہے اور اس کے اشارے پر ہی افغانستان میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن جب تک امریکی وزیر خارجہ رہیں وہ کھل کر بھارت کی طرف داری اور پاکستان کو ڈو مور کا سبق پڑھاتی رہیں۔ ان کے پورے دور میں بھارت افغانستان میں بلاشرکت غیرے راج کرتا رہا ہے اس وقت بھارت نے حالات ساز گار دیکھ کر بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی میں مزید اضافہ کیا ۔
پاکستانی مسلمان بھارت کی چالوں سے خوب اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں کہ وہ بالآخر پاکستان کو توڑ کر اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی دہشت گردانہ حملے کرواتا رہا ہے۔ مزید براں اس نے اپنے ہی ایجنٹوں سے کابل میں اپنے ہی سفارت خانے پر حملہ کروا کے اس کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی تھی۔ افغان پارلیمنٹ پر حالیہ حملے کا اگر جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ بھارتی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے شمالی اتحاد والوں سے مل کر افغان پارلیمنٹ پر حملہ کروا دیا اور فوراً کابل سے یہ بیان جاری ہوا کہ یہ حملہ پاکستان نے کروایا ہے۔
اس بیان سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بھارت نے دلوایا ہے کیونکہ وہ اس قسم کے ڈرامے اپنے ملک میں بھی بہت رچا چکا ہے اس نے اپنی ہی پارلیمنٹ پر اپنے ہی لوگوں سے حملہ کروایا اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا پھر ممبئی میں اپنے ہی دہشت گردوں سے وہاں قتل و غارت گری کرائی جس کا مقصد اس وقت پاکستان سے کشمیر پر جاری مذاکراتی عمل سے جان چھڑانا تھی یہ سراسر پاکستان پر جھوٹا الزام تھا لیکن امریکا کے دباؤ میں پاکستان نے بھارت کے اس ڈرامے کو سچ تسلیم کرکے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی تھی جس کا خمیازہ آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سے اشرف غنی کا لہجہ ہی تبدیل ہوگیا تھا اور وہ بھی کرزئی کی طرح پاکستان مخالف بیان دینے لگے تھے۔ لیکن اس وقت پاکستان نے طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر بٹھا کر افغان مسئلے کے حل کے امکانات پیدا کردیے ہیں یہ ایسا کارنامہ ہے جس کی اشرف غنی تو کیا امریکا سمیت پوری دنیا پاکستان کی تعریف و توصیف کر رہی ہے۔
اب اس میں شک نہیں ہے کہ افغان مسئلے کے حل کا وقت قریب آچکا ہے مگر پاکستان کی اس مثالی کارکردگی سے بھارت کی پریشانی میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اب افغانستان میں اس کے کھیل کے ختم ہونے کا وقت بھی قریب آچکا ہے لیکن وہ پاکستان کی اس دائمی امن کے لیے بچھائی گئی بساط کو الٹنے کے لیے کرزئی اور شمالی اتحاد والوں کے ساتھ مل کر پھر کوئی نیا سازشی ڈرامہ رچا سکتا ہے۔ چنانچہ پھر وہی پندرہ سال پرانی بات سامنے آرہی ہے کہ ''بھارت کو افغانستان سے دور رکھا جائے۔'' ورنہ افغان مسئلہ کہیں پھر کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔