مختلف ممالک میں عید الفطر کی روایات
عیدالفطر پر فلسطین میں کک التماز نامی گوشت کی میٹھی ڈش تیار کی جاتی ہے جو کافی کے ساتھ مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے
دنیا بھر میں لوگ عید پر خصوصی کھانے پکاتے ہیں۔ فوٹو : فائل
اسلامی تہواروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بیک وقت خوشیاں بھی فراہم کرتے ہیں اور عبادت کا موقع بھی دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں رائج اسلامی تہواروں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کو خوشیاں فراہم کرنا اور ان میں اتحاد ویگانگت کو فروغ دینا ہے ، ماہ رمضان کے اختتام پر مسلمانوں کا خوشیوں بھرا تہوار عیدالفطر دوسرے لفظوں میں اسے ''میٹھی عید'' بھی کہتے ہیں جو دنیا بھر کے مسلمان بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔
دنیا بھر میں تہوار ایک ہی دن ہونے کی وجہ سے مسلمان اس تہوار کی خصوصی تیار کرتے ہیں۔ تاہم مذہبی تہوار ہونے کی وجہ سے مقامی روایات اور ثقافتی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ برصغیر میں عید کے تاریخی پس منظر کے مطابق عید کے تہوار کو ترقی دینے میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے اہم کردار ادا کیا، اورنگ زیب عالم گیر شریعت کا بہت پابند اور پرستار تھا۔
اس نے تخت سنبھالتے ہی غیراسلامی رسموں کا خاتمہ کیا جو ہند کی پرانی معاشرت کی بدولت عہد تیموری میں برصغیر میں رائج ہوگئی تھیں اور غیراسلامی رسومات اکبراعظم نے محض سیاسی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھیں، مگر اس کے جانشینوں کی کم زوری نے ان کا اثر تیزی سے قبول کیا تھا۔
باقی کسر ایرانی رسموں نے پوری کردی تھی۔ چناںچہ تیمور کے دور میں جشن نو روز اتنی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا کہ اس کے آگے عید پھیکی پڑ جاتی تھی۔ عالم گیر نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے جو فرمان جاری کیا تھا وہ یہی تھا کہ نو روز منانے کا سلسلہ یک لخت ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ عیدالفطر بھرپور طریقے سے منائی جائے۔
عالم گیر کا جشن جلوس (اقتدار سنبھالنے کی یاد میں منایا جانے والا دن) بھی عموماً انہی ایام میں پڑتا تھا، لہٰذا اس کے سبب عید کی رونقیں دوبالا ہوجایا کرتی تھیں۔ یوں برصغیر میں جشن نوروز کے بجائے عید کا تہوار ذوق و شوق اور جوش و خروش سے منایا جانے لگا۔ ترقی پانے لگا اور آنے والے دیگر بادشاہوں اور بہادر شاہ ظفر نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا اور آگے بڑھایا۔
عید کا دن شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے اس دن بچے جوان اور ضعیف العمر مرد و خواتین نئے نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں، مرد و بچے عید گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور وہاں شکرانے کے طور پر دو رکعت با جماعت نماز ادا کرتے ہیں صدقہ و خیرات کے ذریعے وہ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرتے ہیں تاکہ انھیں بھی صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں میسر ہوسکیں۔
دنیا بھر میں لوگ عید پر خصوصی کھانے پکاتے ہیں۔ افریقا ہو یا ایشیا، یورپ ہو یا عرب دنیا، تمام ممالک میں جہاں مسلمان بستے ہیں یہ تہوار بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔ شمالی افریقا، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں یہ دن زیادہ تر ''ڈے آف فیملی'' کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عرب قدیم دور میں عید کے پکوانوں میں کھجوریں، شوربے میں بھیگی ہوئی روٹی، شہد ، اونٹنی، بکری کا دودھ اور روغن زیتون میں بھنا ہوا گوشت استعمال کرتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کھانوں میں تبدیلی آتی گئی۔
مرغن غذاؤں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ دسترخوان پر تلی ہوئی مچھلی، مرغ، دودھ، شہد، سرکہ اور اعلیٰ پائے کی کھجوریں نظر آنے لگیں اب عرب ممالک میں قدیم روایات کے ساتھ وہ جدید یعنی نئے کھانے بھی رواج پاگئے ہیں جن میں فاسٹ فوڈ بھی شامل ہے۔ عید کے روز عربوں کی سب سے پختہ روایت اعلیٰ اور قیمتی لباس زیب تن کرکے رشتے داروں اور دوستوں کے گھر جاکر ملنا ہے۔ شام کے وقت عید کے سلسلے میں منعقد کردہ میلے اس تہوار کی رونق کچھ اور بڑھا دیتے ہیں۔ دیہات میں اونٹوں کی ریس کا بھی رواج ہے۔
بحرین میں عید کی تقریبات پانچ روز تک منائی جاتی ہیں اور پندرہ رمضان ہی سے تیاریاں کی جانے لگتی ہیں۔ عراق میں لوگ صبح نماز عید ادا کرنے سے پہلے ناشتے میں بھینس کے دودھ کی کریم اور شہد سے روٹی کھاتے ہیں۔ مصر میں عیدالفطر کا تہوار چار روز تک منایاجاتا ہے۔
فلسطین میں اس موقع پر کک التماز نامی گوشت کی میٹھی ڈش تیار کی جاتی ہے جوگرما گرم کافی کے ساتھ مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا اور انڈیا میں عید سے پہلے والی رات کو ''چاند رات'' کہتے ہیں اس رات زیادہ تر لوگ اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلادیش اور فیجی میں عید کے موقع پر شیر خورمہ بنتا ہے جسے بنگلا دیش میں ''شی مائی Shemai'' کہا جاتا ہے۔
ایران میں عید الفطر کو ''عید فطر'' کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے، وہاں مسلمان ملکوں جیسا سماں ہوتا ہے مسلمان صبح نئے کپڑے پہنتے ہیں، فطرانہ ادا کرتے ہیں اور عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوکر ان کا عزیزوں اور دوستوں سے ملنے ملانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تفریحی پروگرام طے کیے جاتے ہیں۔ پکنک منائی جاتی ہے اور بہت سے لوگ گھروں میں ہی مختلف پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ گویا برطانیہ میں بھی پاکستان جیسا ماحول بن جاتا ہے۔ ملائیشیا میں عید کی تقریبات رسم و رواج کے رنگ برنگے کپڑوں کی وجہ سے بڑی رنگین ہوجاتی ہیں۔
یہاں اسپیشل ڈش کے طور پر ناریل کے پتوں میں چاول پکائے جاتے ہیں، جسے مقامی زبان میں کٹو پٹ کہا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں عید کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلاً ہری رایا، ہری اوتک، ہری رایا آئیڈیل اور ہری رایا پوسا۔ ''ہری رایا'' کے معنی ''خوشی کا دن'' کے ہیں انڈونیشیا اور ملائیشیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں ملتی ہیں۔
ایسے موقع پر بازاروں میں لوگوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ خاص طور پر آخری عشرے میں بینک، گورنمنٹ اور پرائیویٹ آفس بند ہوتے ہیں۔ چاند رات کو ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بہت سے علاقوں کی مسجدوں میں تکبیر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں پانی کے تالاب میں لوگ تیل کے دیے جلاتے ہیں۔ ان ممالک کے لوگ عید پر روایتی پکوان پکاتے ہیں اور ثقافتی لباس پہنتے ہیں۔