’’اب سفید تتلی نہیں آتی نہ خنجراب دریا پر گھوڑے دوڑتے ہیں‘‘
گلگت بلتستان کے انتہائی پہاڑی علاقے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچ نہیں پائے
'' اب سفید تتلی کہیں نظر نہیں آتی۔۔۔۔ پہلے تو ہر طرف دکھائی دیتی تھی۔'' یہ گلگت بلتستان کے انتہائی پہاڑی علاقے کے ایک گاؤں''گلمت گوجال'' کی رہائشی خاتون زمرہ بی بی کا کہنا تھا۔ زمرہ بی بی کے چہرے پر بیتے ماہ و سال کے گہرے نقوش اس کے تجربے کی کہانی سنا رہے تھے۔ وہ بتا رہی تھی کہ اس نے اپنی عمر کے بہت سے قیمتی سال بالتورو گلیشیئر پر گزارے ہیں، جہاں وہ گرمیوں میں اپنے جانور چرانے لے جاتی اور پوری گرمیاں وہیں گزارتی، یہ اس کا ہر سال کا معمول تھا۔ ان علاقوں میں مویشی پالنے کی ذمے داری خواتین کی ہے، مرد زراعت کرتے ہیں یا پھر چھوٹی موٹی نوکری کرنے شہر چلے جاتے ہیں۔
زمرہ بی بی نے مزید بتایا ''اب ہمارے جانوروں کے دودھ سے پہلے جتنا مکھن بھی نہیں نکلتا ہے، دودھ تو جانور اتنا ہی دیتے ہیں مگر مکھن پہلے جتنا نہیں ملتا۔''
یہ خاتون چرواہوں کی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے اور ایک ریسرچ ٹیم سے اپنے مشاہدات بیان کررہی تھی۔ شاید لوگوں کے لیے یہ بات حیرانی کا باعث ہو کہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں موسمیاتی تغیر یا تبدیلی کی خبریں چرواہوں کے ذریعے ملتی ہیں۔ محققین کے نزدیک یہ کمیونٹی اس حوالے سے انتہائی اہم اور ان سے ملنے والی معلومات انتہائی معتبر ہیں۔ ان کے مشاہدات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ یہ اپنے جانور چَرانے کے لیے پہاڑوں میں دور دور تک جاتے ہیں، گلیشیئرز پر، جنگلات کے اندر اور پہاڑوں میں انتہائی اندر تک سفر کرتے ہیں۔ یہ مقامی افراد ایسے دشوار گزار راستوں پر بھی چلے جاتے ہیں جہاں عموماً سفر کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
اونچے سنگلاخ پہاڑوں میں لکیر جیسے پتلے اور انتہائی کنارے پر موجود راستوں پر چلنا ان کے لیے عام بات ہے۔ ان پہاڑوں لوگوں کی عمریں عموماً طویل ہوتی ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پرانے قصے اور واقعات ان کی یادداشت میں تازہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی کوئی بھی تبدیلی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ وہ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ کون سا گلیشیئرز پگھل کر کم ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے۔
کس علاقے کی چرا گاہ میں پہلے گھاس ان کی کی کمر تک آتی تھی مگر اب اس کی لمبائی کم ہوگئی ہے۔ کون سی جڑی بوٹیاں ناپید ہوگئی ہیں یا کون سی جھیلیں نئی بنی ہیں اور کس میں کتنا پانی ہے۔ کس درخت پر پھل کم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی سائنسی تجزیوں اور تحقیق کی بنیاد ان ہی مقامی چرواہوں کی معلومات ٹھیرتی ہیں۔ بعدازاں محقق ان معلومات پر مزید تحقیق کرکے اس کا سائنسی تعلق کھوج لاتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدلتے ہوئے موسموں کے حوالے سے ان مقامی افراد کی لوک دانش اورمشاہدات کسی سائنسی رپورٹس سے ہر گز کم نہیں۔
یہ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ کچھ دہائیاں پہلے تک سردیوں میں خنجراب دریا کا پانی ٹھوس برف میں تبدیل ہوجاتا تھا اور چہ پرساں وادی کے لوگ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دریائے خنجراب عبور کرتے، لیکن یہ ماضی کی بات ہے ، اب اتنی برف نہیں پڑتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں) سوائے ( 2009 بارشیں بہت کم ہوگئی ہیں۔ برف باری اتنی ہوتی تھی کہ پوری وادی برف سے سفید ہوجاتی تھی۔
بدلتے موسموں کے اثرات کا نمایاں فرق جو مشاہدہ کیا گیا وہ گرمیوں کے دورانیے کا بڑھنا ہے۔ سوائے 2009 کے سال کے جو تاریخ کا سب سے یخ بستہ موسم سرما کہلاتا ہے، گرمیوں کے بڑھنے سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔
لوگوں کو یاد تھا کہ 1959 حتی کہ 1960تک ان پہاڑی وادیوں کے تمام دریا، ندی نالے ستمبر سے جنوری تک برف جم جاتی، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے مقامی افراد ہوا کی سمت سے موسموں کی پیش گوئی کرتے تھے اور اپنی زراعت کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرتے تھے، لیکن اب انہیں ہوا کی سمت سے کوئی مدد نہیں ملتی اور وہ کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے، کیوںکہ اب ہوا کی سمت بہت جلد تبدیل ہوجاتی ہے۔
دیگر مشاہدات میں لوگوں نے بتایا کہ گھاس کی نشوونما پر اثر پڑا ہے۔ بلندی پر پرندے اور جان داروں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ جانوروں میں بیماریاں بڑھ گئی ہیں اور ان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت گھٹ گئی ہے۔ اچانک آنے والے تیز سیلاب بڑھ گئے ہیں۔ مختلف اقسام کی تتلیاں کم ہوگئی ہیں، خصوصاً سفید تتلی تو بالکل ہی غائب ہو گئی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ سنیئر اہل کار ڈاکٹر بابر خان کا کہنا تھا کہ ہماری حالیہ ریسرچ جن خطوط پر جاری ہے اس کی بنیاد گلمت گوجال کی زمرہ بی بی کا مشاہدہ ہے کہ سفید تتلی ان علاقوں سے غائب ہوچکی ہے اور اس کے جانوروں کے دودھ میں مکھن کی کمی واقع ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر بابر خان نے بتایا کہ سفید تتلی کی ناپیدگی بظاہر کوئی خاص بات نہیں ہے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس چھوٹی سی تتلی کا غائب ہونا دراصل ایک اشارہ ہے کسی بہت بڑی گڑ بڑ کا، سوال بنتا ہے کہ بھلا کسی علاقے سے اگر سفید تتلی ناپید ہوگئی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق پڑتا ہے اور سو فی صد فرق پڑتا ہے، یہ ایک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا۔۔۔۔کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا!
اونچے بلند پہاڑ،جنگل، پیڑ، پودے، رنگارنگ پھول، ہلکورے لیتی اور رنگ بکھیرتی آب گاہیں اور ان کے کناروں پر اترتے ،چہچہاتے پرندے، جانور ، تتلیاں، جگنو اور ان میں ہنستا بستا انسان ، کوئی بھی ماحول فطرت کے تمام رنگوں سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ مصور فطرت کی بے عیب تصویر میں سے اگر ایک رنگ مٹ جائے تو ساری تصویر عیب دار ہوجاتی ہے۔ انسان اور دیگر جان دار کسی بھی ماحول کی صحت کی علامت ہوتے ہیں۔
ایسے میں اگر کسی خاص پرندے، جانور، تتلی یا جگنو یا پودے کی نوع ختم ہوجائے تو جان لیجیے کہ یہ وہاں بسنے والوں کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری زندگی کی فطری زنجیر کی کڑیوں میں درمیان سے کوئی کڑی ٹوٹ جائے تو پھر زنجیر کی مضبوطی کیسی!
ڈاکٹر بابر خان کا کہنا ہے کہ سفید تتلی بھی ایک ایسی ہی حیاتی کڑی ہے۔ وہ جن پودوں اور پھولوں پر آتی ہوگی یقیناً وہ تمام انواع وہاں سے ناپید ہوگئی ہیں۔ جانوروں کے دودھ میں مکھن کی کمی بھی گھاس یا کسی انواع کے غائب ہونے کی دلیل ہے، جو اب جانوروں کو میسر نہیں ہے ۔ حیوانات اور نباتات کی انواع کا ناپید ہونا دراصل پورے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
پاکستان کے سلسلۂ کوہ میں قراقرم کو نہ صرف پاکستان میں بل کہ وسطی ایشیا میں ایک انتہائی منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ انڈیا میں لداخ کے پہاڑوں اور چین میں پامیر سے ملتا ہے۔ قراقرم سلسلۂ کوہ اپنے اندر انتہائی انوکھی انسانی ثقافت اور خوب صورت روایات اور رسم و رواج سمیٹے ہوئے ہے۔
اپنی اسی منفرد جغرافیائی مقام کے باعث یہاں دنیا کی نایاب ترین حیاتیاتی انواع پائی جاتی ہیں۔ یہاں کے جنگلات، آبی ذخائر اور حیاتی تنوع اس کے دامن میں بسنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے غذائی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔شمالی پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں تین ممالک سے ملتی ہیں جن میں بھارت، چین اور افغانستان شامل ہیں۔ اس کے شمال میں ہمالیہ جب کہ مغرب میں قراقرم اور ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ سطح سمندر سے عموماً چھے ہزار میٹر سے زاید بلندی پر واقع ہے۔ اس زرخیز پہاڑی خطے کے مختلف ماحولیاتی نظاموں میں پائی جانے والی حیاتی دولت اپنے تنوع کی بدولت عالمی سطح پر نہایت اہمیت کی حامل شمار کی جاتی ہے ۔
شمالی پاکستان کے پہاڑی سلسلے کے ماحولیاتی نظام میں چار بنیادی اقسام کے زون پائے جاتے ہیں۔ ان میں پہاڑوں کی بلند سطح والی خشک وادیاں ((Dry Alpine vallies)اور برفانی میدان(Snowfields) ، وافر مقدار میں آبی ذخائر کی حامل چراگاہیں (Well watered alpine meadows) اور خشک آب و ہوا اور سوئی نما پتوں والے درختوں کے جنگلات (Dry temperature coniferious forests) ، جن میں زیادہ تر دیودار، زیادہ بلندی پر پائے جانے والے جونیپر، اور بید کے جنگلات ہیں، پائے جاتے ہیں۔پاکستان کے اس پہاڑی سلسلے کی وادیوں، گھاٹیوں ، قدرتی چشموں ، جنگلات اور زمین پر موجود روئیدگی نے جنگلی حیات کے لیے جو سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔
اس کی بدولت یہ خطہ مختلف اقسام کی حیاتیاتی تنوع کا قدرتی مسکن بھی ہے۔ یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات میں برفانی تیندوا، آئی بیکس، مارکوپولو بھیڑ، بھورا ریچھ، مشک نافہ ہرن، مارخور، اڑیال، اڑن گلہری، ویسٹرن مریگو پان اور برفانی تیتر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر بڑی تعداد میں ادویاتی پودے اور خوشبو دار نباتات بھی پائی جاتی ہیں۔ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے بڑی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ مویشی پالتے ہیں اور گلہ بانی ان کا پیشہ ہے ، کہیں کہیں زراعت بھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور پہاڑی ڈھلوانوں پر رہتے ہیں۔ منتشر آبادی والے ان مکینوں کی معاش کا ذریعہ چھوٹی موٹی کھیتی باڑی اور گلہ بانی ہے۔ مویشی پالنا ان کی ضرورت بھی ہے اور روایات میں شامل بھی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ بدلتے موسموں کی خبر یہی چرواہے لاتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسموں کے تغیر سے یہی لوگ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔ بدلتے موسموں سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نقصانات سے واقفیت کے باوجود باقاعدہ سائنسی معلومات ، تعلیم اور وسائل کی کمی کے باعث تدارکی اقدامات نہیں کرپاتے ہیں۔ بدلتے موسموں کے اثرات کو روکنا تو خیر انتہائی مشکل ہے مگر ان سے ہم آہنگ ہوکر نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں دی جانی والی تعلیم اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ کسی بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم لیے بغیر یہ چرواہے یہ بات جانتے ہیں اور اس کے لیے حتی الامکاں کوشش بھی کرتے ہیں۔ انہیں قدرت کی جانب سے ملنے والی تعلیم اور فطرت کے آغوش میں بسنے سے جو آگہی اور شعور حاصل ہے وہ شہر کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اپنے طور پر بہت سے ایسے اقدامات کررہے ہیں جو بدلتے موسموں سے ہم آہنگ ہیں۔
یہاں اب دھیرے دھیرے موسموں کی تبدیلی سے سردیوں میں پڑنے والی برف کا دورانیہ اور مقدار کم ہوگئی ہے۔ برف دیر سے پڑ رہی ہے اس لیے اسے ٹھوس ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ گرمیوں کا دورانیہ بڑھنے سے یہ برف گرمیوں میں تیزی سے پگھل جاتی ہے، جس سے آبی ذخائر پر اثر پڑتا ہے، مثلاً شمشال، پھسو اور مزگر میں خشک سالی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے طور پر اس آفت سے نمٹنے کے لیے پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں کھود کر پانی اپنی چراگاہوں تک پہنچا رہے ہی۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز سے نکلنے والے پانی کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسے اپنی زرعی زمینوں یا چراگاہوں تک پہنچا رہے۔
چراگاہوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے چار گاؤں میں فی گھر جانوروں کی تعداد گھٹانے کا تجربہ بھی کیا جارہا ہے۔ خنجراب وادی میں ایک چراگاہ میں صرف 10جانور چرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاوقتے کہ چراگاہوں کی حالت بہتر اور پہلے جیسی نہ ہوجائے۔ اس اقدام سے خشک سالی کے دنوں میں چَرائی کا دباؤ کم کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ سختی سے چرائی کا وقت بھی مقرر کیا گیا ہے۔ مخصوص اوقات کے بعد کوئی اپنے جانور نہیں چرا سکتا۔
یہ لوگ اپنے محدود علم کے باوجود ماحول کے تحفظ اور بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں لیکن ان علاقوں میں اور ان غریب آبادی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کچھ دیہات میں جانوروں کی تعداد کم کردی گئی ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ عمل بعض اوقات ان کی معاش کے حوالے سے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہ مویشی ان کے لیے مالی منفعت کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ان کی انتہائی ضرورت میں کام آتے ہیں۔ مویشیوں کو کم کرنے کے بجائے حکومت اگر چاہے تو ان کی چرا گاہوں کے لیے بہت کم سرمائے سے بہتری لاسکتی ہے۔
اچھے چارے کے بیج فراہم کیے جائیں۔ پانی کے لیے باقاعدہ چھوٹی نالیاںیا چینل بنا کر ان کی زراعت اور چراگاہوں کو سرسبز کیا جاسکتا ہے۔اس طرح غذائی قلت کا خطرہ بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جو بہت تیزی سے بڑھتے ہیں ، یہ درخت نہ صرف ان کی ایندھنی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں بل کہ ان کے پتے بھی جانوروں کو چارے کے طور پر کھلائے جاسکتے ہیں۔ جانوروں کی بہتر نسلیں ان علاقوں میں متعارف کروائی جاسکتی ہیں جو یہاں کے سخت موسم کو برداشت کرسکیں اور زیادہ پھولے پھلیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بدلتے موسموں کی تبدیلیوں سے یہ پہاڑی لوگ سخت متاثر ہیں۔ زراعت اور جانوروں کے لیے چارے میں کمی، جانوروں کے دودھ اور زرخیزی میں کمی، غذائی قلت، طویل گرمیاں اور بارشیں اور برف باری کے دورانیے میں کمی، غیر متوقع سیلاب وغیرہ ان کی زندگی کو اور سخت بنارہے ہیں۔ اگرچہ یہ چرواہے بدلتے موسموں کی سائنسی اور علمی معلومات نہیں رکھتے مگر ان کا تجربہ اور گہرا مشاہدہ بہت کچھ محسوس کرچکا ہے۔
یہ لوگ گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج وغیرہ کی بھاری بھرکم اصطلاحات کو تو نہیں جانتے، لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کے ماحولیاتی نظام میں کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہوگئی ہے اور وہ شدت سے یہ چاہتے ہیں کہ سب پہلے جیسا ہوجائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی معلومات اور مشاہدے سے فائدہ اٹھا کر بدلتے موسموں کے خطرات کو کم کرنے کے لیے پہاڑی علاقوں کی جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ یاد رہے کہ یہی پہاڑ ہمارے آبی خزانے یا حیات کی شہہ رگ ہیں، ان کا تحفظ ہی ہمارا تحفظ ہے۔
زمرہ بی بی نے مزید بتایا ''اب ہمارے جانوروں کے دودھ سے پہلے جتنا مکھن بھی نہیں نکلتا ہے، دودھ تو جانور اتنا ہی دیتے ہیں مگر مکھن پہلے جتنا نہیں ملتا۔''
یہ خاتون چرواہوں کی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے اور ایک ریسرچ ٹیم سے اپنے مشاہدات بیان کررہی تھی۔ شاید لوگوں کے لیے یہ بات حیرانی کا باعث ہو کہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں موسمیاتی تغیر یا تبدیلی کی خبریں چرواہوں کے ذریعے ملتی ہیں۔ محققین کے نزدیک یہ کمیونٹی اس حوالے سے انتہائی اہم اور ان سے ملنے والی معلومات انتہائی معتبر ہیں۔ ان کے مشاہدات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ یہ اپنے جانور چَرانے کے لیے پہاڑوں میں دور دور تک جاتے ہیں، گلیشیئرز پر، جنگلات کے اندر اور پہاڑوں میں انتہائی اندر تک سفر کرتے ہیں۔ یہ مقامی افراد ایسے دشوار گزار راستوں پر بھی چلے جاتے ہیں جہاں عموماً سفر کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
اونچے سنگلاخ پہاڑوں میں لکیر جیسے پتلے اور انتہائی کنارے پر موجود راستوں پر چلنا ان کے لیے عام بات ہے۔ ان پہاڑوں لوگوں کی عمریں عموماً طویل ہوتی ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پرانے قصے اور واقعات ان کی یادداشت میں تازہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی کوئی بھی تبدیلی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ وہ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ کون سا گلیشیئرز پگھل کر کم ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے۔
کس علاقے کی چرا گاہ میں پہلے گھاس ان کی کی کمر تک آتی تھی مگر اب اس کی لمبائی کم ہوگئی ہے۔ کون سی جڑی بوٹیاں ناپید ہوگئی ہیں یا کون سی جھیلیں نئی بنی ہیں اور کس میں کتنا پانی ہے۔ کس درخت پر پھل کم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی سائنسی تجزیوں اور تحقیق کی بنیاد ان ہی مقامی چرواہوں کی معلومات ٹھیرتی ہیں۔ بعدازاں محقق ان معلومات پر مزید تحقیق کرکے اس کا سائنسی تعلق کھوج لاتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدلتے ہوئے موسموں کے حوالے سے ان مقامی افراد کی لوک دانش اورمشاہدات کسی سائنسی رپورٹس سے ہر گز کم نہیں۔
یہ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ کچھ دہائیاں پہلے تک سردیوں میں خنجراب دریا کا پانی ٹھوس برف میں تبدیل ہوجاتا تھا اور چہ پرساں وادی کے لوگ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دریائے خنجراب عبور کرتے، لیکن یہ ماضی کی بات ہے ، اب اتنی برف نہیں پڑتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں) سوائے ( 2009 بارشیں بہت کم ہوگئی ہیں۔ برف باری اتنی ہوتی تھی کہ پوری وادی برف سے سفید ہوجاتی تھی۔
بدلتے موسموں کے اثرات کا نمایاں فرق جو مشاہدہ کیا گیا وہ گرمیوں کے دورانیے کا بڑھنا ہے۔ سوائے 2009 کے سال کے جو تاریخ کا سب سے یخ بستہ موسم سرما کہلاتا ہے، گرمیوں کے بڑھنے سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔
لوگوں کو یاد تھا کہ 1959 حتی کہ 1960تک ان پہاڑی وادیوں کے تمام دریا، ندی نالے ستمبر سے جنوری تک برف جم جاتی، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ پہلے مقامی افراد ہوا کی سمت سے موسموں کی پیش گوئی کرتے تھے اور اپنی زراعت کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرتے تھے، لیکن اب انہیں ہوا کی سمت سے کوئی مدد نہیں ملتی اور وہ کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے، کیوںکہ اب ہوا کی سمت بہت جلد تبدیل ہوجاتی ہے۔
دیگر مشاہدات میں لوگوں نے بتایا کہ گھاس کی نشوونما پر اثر پڑا ہے۔ بلندی پر پرندے اور جان داروں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ جانوروں میں بیماریاں بڑھ گئی ہیں اور ان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت گھٹ گئی ہے۔ اچانک آنے والے تیز سیلاب بڑھ گئے ہیں۔ مختلف اقسام کی تتلیاں کم ہوگئی ہیں، خصوصاً سفید تتلی تو بالکل ہی غائب ہو گئی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ سنیئر اہل کار ڈاکٹر بابر خان کا کہنا تھا کہ ہماری حالیہ ریسرچ جن خطوط پر جاری ہے اس کی بنیاد گلمت گوجال کی زمرہ بی بی کا مشاہدہ ہے کہ سفید تتلی ان علاقوں سے غائب ہوچکی ہے اور اس کے جانوروں کے دودھ میں مکھن کی کمی واقع ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر بابر خان نے بتایا کہ سفید تتلی کی ناپیدگی بظاہر کوئی خاص بات نہیں ہے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس چھوٹی سی تتلی کا غائب ہونا دراصل ایک اشارہ ہے کسی بہت بڑی گڑ بڑ کا، سوال بنتا ہے کہ بھلا کسی علاقے سے اگر سفید تتلی ناپید ہوگئی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق پڑتا ہے اور سو فی صد فرق پڑتا ہے، یہ ایک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا۔۔۔۔کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا!
اونچے بلند پہاڑ،جنگل، پیڑ، پودے، رنگارنگ پھول، ہلکورے لیتی اور رنگ بکھیرتی آب گاہیں اور ان کے کناروں پر اترتے ،چہچہاتے پرندے، جانور ، تتلیاں، جگنو اور ان میں ہنستا بستا انسان ، کوئی بھی ماحول فطرت کے تمام رنگوں سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ مصور فطرت کی بے عیب تصویر میں سے اگر ایک رنگ مٹ جائے تو ساری تصویر عیب دار ہوجاتی ہے۔ انسان اور دیگر جان دار کسی بھی ماحول کی صحت کی علامت ہوتے ہیں۔
ایسے میں اگر کسی خاص پرندے، جانور، تتلی یا جگنو یا پودے کی نوع ختم ہوجائے تو جان لیجیے کہ یہ وہاں بسنے والوں کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری زندگی کی فطری زنجیر کی کڑیوں میں درمیان سے کوئی کڑی ٹوٹ جائے تو پھر زنجیر کی مضبوطی کیسی!
ڈاکٹر بابر خان کا کہنا ہے کہ سفید تتلی بھی ایک ایسی ہی حیاتی کڑی ہے۔ وہ جن پودوں اور پھولوں پر آتی ہوگی یقیناً وہ تمام انواع وہاں سے ناپید ہوگئی ہیں۔ جانوروں کے دودھ میں مکھن کی کمی بھی گھاس یا کسی انواع کے غائب ہونے کی دلیل ہے، جو اب جانوروں کو میسر نہیں ہے ۔ حیوانات اور نباتات کی انواع کا ناپید ہونا دراصل پورے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
پاکستان کے سلسلۂ کوہ میں قراقرم کو نہ صرف پاکستان میں بل کہ وسطی ایشیا میں ایک انتہائی منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ انڈیا میں لداخ کے پہاڑوں اور چین میں پامیر سے ملتا ہے۔ قراقرم سلسلۂ کوہ اپنے اندر انتہائی انوکھی انسانی ثقافت اور خوب صورت روایات اور رسم و رواج سمیٹے ہوئے ہے۔
اپنی اسی منفرد جغرافیائی مقام کے باعث یہاں دنیا کی نایاب ترین حیاتیاتی انواع پائی جاتی ہیں۔ یہاں کے جنگلات، آبی ذخائر اور حیاتی تنوع اس کے دامن میں بسنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے غذائی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔شمالی پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں تین ممالک سے ملتی ہیں جن میں بھارت، چین اور افغانستان شامل ہیں۔ اس کے شمال میں ہمالیہ جب کہ مغرب میں قراقرم اور ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ سطح سمندر سے عموماً چھے ہزار میٹر سے زاید بلندی پر واقع ہے۔ اس زرخیز پہاڑی خطے کے مختلف ماحولیاتی نظاموں میں پائی جانے والی حیاتی دولت اپنے تنوع کی بدولت عالمی سطح پر نہایت اہمیت کی حامل شمار کی جاتی ہے ۔
شمالی پاکستان کے پہاڑی سلسلے کے ماحولیاتی نظام میں چار بنیادی اقسام کے زون پائے جاتے ہیں۔ ان میں پہاڑوں کی بلند سطح والی خشک وادیاں ((Dry Alpine vallies)اور برفانی میدان(Snowfields) ، وافر مقدار میں آبی ذخائر کی حامل چراگاہیں (Well watered alpine meadows) اور خشک آب و ہوا اور سوئی نما پتوں والے درختوں کے جنگلات (Dry temperature coniferious forests) ، جن میں زیادہ تر دیودار، زیادہ بلندی پر پائے جانے والے جونیپر، اور بید کے جنگلات ہیں، پائے جاتے ہیں۔پاکستان کے اس پہاڑی سلسلے کی وادیوں، گھاٹیوں ، قدرتی چشموں ، جنگلات اور زمین پر موجود روئیدگی نے جنگلی حیات کے لیے جو سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔
اس کی بدولت یہ خطہ مختلف اقسام کی حیاتیاتی تنوع کا قدرتی مسکن بھی ہے۔ یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات میں برفانی تیندوا، آئی بیکس، مارکوپولو بھیڑ، بھورا ریچھ، مشک نافہ ہرن، مارخور، اڑیال، اڑن گلہری، ویسٹرن مریگو پان اور برفانی تیتر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر بڑی تعداد میں ادویاتی پودے اور خوشبو دار نباتات بھی پائی جاتی ہیں۔ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے بڑی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ مویشی پالتے ہیں اور گلہ بانی ان کا پیشہ ہے ، کہیں کہیں زراعت بھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور پہاڑی ڈھلوانوں پر رہتے ہیں۔ منتشر آبادی والے ان مکینوں کی معاش کا ذریعہ چھوٹی موٹی کھیتی باڑی اور گلہ بانی ہے۔ مویشی پالنا ان کی ضرورت بھی ہے اور روایات میں شامل بھی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ بدلتے موسموں کی خبر یہی چرواہے لاتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسموں کے تغیر سے یہی لوگ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔ بدلتے موسموں سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نقصانات سے واقفیت کے باوجود باقاعدہ سائنسی معلومات ، تعلیم اور وسائل کی کمی کے باعث تدارکی اقدامات نہیں کرپاتے ہیں۔ بدلتے موسموں کے اثرات کو روکنا تو خیر انتہائی مشکل ہے مگر ان سے ہم آہنگ ہوکر نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں دی جانی والی تعلیم اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ کسی بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم لیے بغیر یہ چرواہے یہ بات جانتے ہیں اور اس کے لیے حتی الامکاں کوشش بھی کرتے ہیں۔ انہیں قدرت کی جانب سے ملنے والی تعلیم اور فطرت کے آغوش میں بسنے سے جو آگہی اور شعور حاصل ہے وہ شہر کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اپنے طور پر بہت سے ایسے اقدامات کررہے ہیں جو بدلتے موسموں سے ہم آہنگ ہیں۔
یہاں اب دھیرے دھیرے موسموں کی تبدیلی سے سردیوں میں پڑنے والی برف کا دورانیہ اور مقدار کم ہوگئی ہے۔ برف دیر سے پڑ رہی ہے اس لیے اسے ٹھوس ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ گرمیوں کا دورانیہ بڑھنے سے یہ برف گرمیوں میں تیزی سے پگھل جاتی ہے، جس سے آبی ذخائر پر اثر پڑتا ہے، مثلاً شمشال، پھسو اور مزگر میں خشک سالی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے طور پر اس آفت سے نمٹنے کے لیے پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں کھود کر پانی اپنی چراگاہوں تک پہنچا رہے ہی۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز سے نکلنے والے پانی کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسے اپنی زرعی زمینوں یا چراگاہوں تک پہنچا رہے۔
چراگاہوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے چار گاؤں میں فی گھر جانوروں کی تعداد گھٹانے کا تجربہ بھی کیا جارہا ہے۔ خنجراب وادی میں ایک چراگاہ میں صرف 10جانور چرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاوقتے کہ چراگاہوں کی حالت بہتر اور پہلے جیسی نہ ہوجائے۔ اس اقدام سے خشک سالی کے دنوں میں چَرائی کا دباؤ کم کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ سختی سے چرائی کا وقت بھی مقرر کیا گیا ہے۔ مخصوص اوقات کے بعد کوئی اپنے جانور نہیں چرا سکتا۔
یہ لوگ اپنے محدود علم کے باوجود ماحول کے تحفظ اور بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں لیکن ان علاقوں میں اور ان غریب آبادی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کچھ دیہات میں جانوروں کی تعداد کم کردی گئی ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ عمل بعض اوقات ان کی معاش کے حوالے سے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہ مویشی ان کے لیے مالی منفعت کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ان کی انتہائی ضرورت میں کام آتے ہیں۔ مویشیوں کو کم کرنے کے بجائے حکومت اگر چاہے تو ان کی چرا گاہوں کے لیے بہت کم سرمائے سے بہتری لاسکتی ہے۔
اچھے چارے کے بیج فراہم کیے جائیں۔ پانی کے لیے باقاعدہ چھوٹی نالیاںیا چینل بنا کر ان کی زراعت اور چراگاہوں کو سرسبز کیا جاسکتا ہے۔اس طرح غذائی قلت کا خطرہ بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جو بہت تیزی سے بڑھتے ہیں ، یہ درخت نہ صرف ان کی ایندھنی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں بل کہ ان کے پتے بھی جانوروں کو چارے کے طور پر کھلائے جاسکتے ہیں۔ جانوروں کی بہتر نسلیں ان علاقوں میں متعارف کروائی جاسکتی ہیں جو یہاں کے سخت موسم کو برداشت کرسکیں اور زیادہ پھولے پھلیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بدلتے موسموں کی تبدیلیوں سے یہ پہاڑی لوگ سخت متاثر ہیں۔ زراعت اور جانوروں کے لیے چارے میں کمی، جانوروں کے دودھ اور زرخیزی میں کمی، غذائی قلت، طویل گرمیاں اور بارشیں اور برف باری کے دورانیے میں کمی، غیر متوقع سیلاب وغیرہ ان کی زندگی کو اور سخت بنارہے ہیں۔ اگرچہ یہ چرواہے بدلتے موسموں کی سائنسی اور علمی معلومات نہیں رکھتے مگر ان کا تجربہ اور گہرا مشاہدہ بہت کچھ محسوس کرچکا ہے۔
یہ لوگ گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج وغیرہ کی بھاری بھرکم اصطلاحات کو تو نہیں جانتے، لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کے ماحولیاتی نظام میں کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہوگئی ہے اور وہ شدت سے یہ چاہتے ہیں کہ سب پہلے جیسا ہوجائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی معلومات اور مشاہدے سے فائدہ اٹھا کر بدلتے موسموں کے خطرات کو کم کرنے کے لیے پہاڑی علاقوں کی جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ یاد رہے کہ یہی پہاڑ ہمارے آبی خزانے یا حیات کی شہہ رگ ہیں، ان کا تحفظ ہی ہمارا تحفظ ہے۔