پانچ پچھتاوے
اپنے گزرے ہوئے وقت پرنظرڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے
برونی وئیر(Bronnie Ware)ایک آسٹریلین نرس تھی۔مگراسکاکام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جوزندگی کی بازی ہاررہے ہوتے تھے۔ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہماں ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمراور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔
ان میں صرف ایک چیزیکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتاتھا۔کلینک میںموجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چنددنوں کی اہمیت کومحسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔اس نے محسوس کیاکہ اگرانسان کویہ پتہ ہوکہ وہ اب اس دنیاسے جانے والاہے توغیر معمولی حدتک سچ بولنے لگتاہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پرنظرڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے'اپنی تمام عمرکے المیے، خوشیاں اورنچوڑسب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ برونی نے محسوس کیا،کہ موت کی وادی کے سفرپرروانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طورپرتنہا ہوجاتا ہے۔خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔کوئی رشتہ دار،کوئی عزیز اورکوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیاکہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوںکی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ،تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کوکمپیوٹرپرایک بلاگ(Blog)کی شکل میں مرتب کرناشروع کردیا۔
اس کے بلاگ کوبے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کوپڑھناشروع کردیا۔برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھاکہ اس کے اورمریضوں کے تاثرات کواتنی پذیرائی ملے گی۔اس نے ایک اوربڑاکام کرڈالا۔یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔اس کتاب کانام" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے" "The top five regrets of Dying"تھا۔برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیاتھے!
دنیاچھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کواپنی طرح سے جیتا۔پوری زندگی کواپنے اردگردکے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسرکرتارہا۔برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔مگروہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈوراردگردکے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔وہ زندگی میںخود فیصلے کرہی نہیں پاتا۔یہ تمام لوگوں کاپہلااوریکساں پچھتاوا تھا۔
دوسری بات جوخصوصاًمردحضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھرکے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مردکی ہوتی ہے۔یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبارپراتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔کام اورروزگارکے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیاجس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اوراہل خانہ کودیناچاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کررہے تھے،کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکردیا۔کام ان کے لیے پھانسی کاپھندابن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی،مگر ان کواپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ برونی نے اپنے اکثرمریضوں کویہ کہتے سناکہ انھیںاپنی زندگی میںاتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیامیں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرااحساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔اکثرلوگوں نے خودسے گلہ کیاکہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کوآگاہ کرپاتے۔ بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کااظہارنہ کر پائے کہ دوسروں کوناراض نہیں کرناچاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھناچاہتے تھے۔مگراس کانقصان یہ ہواکہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندرقیدرہ گئیں ۔کئی افرادکے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمرکڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہواجب بیمارپڑگے اورکسی قابل نہ رہے۔
چوتھاغم بھی بڑافکرانگیزتھا۔اکثرلوگ اس افسوس کااظہارکرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔نوکری،کام،روزگاریاکاروبارمیں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دورہوتے گئے۔ان کواس زیاں کااحساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طورپراجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعدملاقات اوروہ بھی ادھوری سی۔برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجودنہیں تھے۔اکثر مریض برونی کواپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کودہراتے تھے جووقت کی گردمیں کہیں گم ہوچکے تھے۔اپنے دوستوںکی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔برونی تمام مریضوں کوجھوٹادلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکرنہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔ مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اورآخری سانسوں میں بھی!
پانچویں اورآخری بات بہت متاثرکن تھی۔تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کوذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔اپنی خوشی کو جاننے اورپہچاننے کاعمل شروع ہی نہیں کیا۔ اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔نتیجہ یہ ہواکہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔وہ لوگوں کو ظاہری طورپر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزاررہے ہیں۔
دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔وہ یکسانیت کاشکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثردیاکہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اورقہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔
عمرکے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اورغیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھالیا،کہ ہنسنا بھول گئے۔اپنے قہقہوں کی بھرپور آوازسنی ہی نہیں۔ اپنے اندرگھٹ گھٹ کرجیتے رہے مگراپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہدبھی ترک کر ڈالی۔نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزارکرسفر عدم پرروانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پرنقش ہوچکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیںہوں گے۔آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزاررہے ہوں گے۔اپنے بچوں اورخاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔اپنے جذبات کواپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔
پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔مگرمجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اورسچ ماننے کی ہے۔ اس کے باوجودمیری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تودرکنار،ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔ مگر شائدمیں غلط کہہ رہاہوں؟
ان میں صرف ایک چیزیکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتاتھا۔کلینک میںموجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چنددنوں کی اہمیت کومحسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔اس نے محسوس کیاکہ اگرانسان کویہ پتہ ہوکہ وہ اب اس دنیاسے جانے والاہے توغیر معمولی حدتک سچ بولنے لگتاہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پرنظرڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے'اپنی تمام عمرکے المیے، خوشیاں اورنچوڑسب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ برونی نے محسوس کیا،کہ موت کی وادی کے سفرپرروانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طورپرتنہا ہوجاتا ہے۔خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔کوئی رشتہ دار،کوئی عزیز اورکوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیاکہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوںکی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ،تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کوکمپیوٹرپرایک بلاگ(Blog)کی شکل میں مرتب کرناشروع کردیا۔
اس کے بلاگ کوبے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کوپڑھناشروع کردیا۔برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھاکہ اس کے اورمریضوں کے تاثرات کواتنی پذیرائی ملے گی۔اس نے ایک اوربڑاکام کرڈالا۔یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔اس کتاب کانام" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے" "The top five regrets of Dying"تھا۔برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیاتھے!
دنیاچھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کواپنی طرح سے جیتا۔پوری زندگی کواپنے اردگردکے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسرکرتارہا۔برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔مگروہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈوراردگردکے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔وہ زندگی میںخود فیصلے کرہی نہیں پاتا۔یہ تمام لوگوں کاپہلااوریکساں پچھتاوا تھا۔
دوسری بات جوخصوصاًمردحضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھرکے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مردکی ہوتی ہے۔یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبارپراتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔کام اورروزگارکے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیاجس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اوراہل خانہ کودیناچاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کررہے تھے،کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکردیا۔کام ان کے لیے پھانسی کاپھندابن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی،مگر ان کواپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ برونی نے اپنے اکثرمریضوں کویہ کہتے سناکہ انھیںاپنی زندگی میںاتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیامیں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرااحساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔اکثرلوگوں نے خودسے گلہ کیاکہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کوآگاہ کرپاتے۔ بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کااظہارنہ کر پائے کہ دوسروں کوناراض نہیں کرناچاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھناچاہتے تھے۔مگراس کانقصان یہ ہواکہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندرقیدرہ گئیں ۔کئی افرادکے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمرکڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہواجب بیمارپڑگے اورکسی قابل نہ رہے۔
چوتھاغم بھی بڑافکرانگیزتھا۔اکثرلوگ اس افسوس کااظہارکرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔نوکری،کام،روزگاریاکاروبارمیں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دورہوتے گئے۔ان کواس زیاں کااحساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طورپراجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعدملاقات اوروہ بھی ادھوری سی۔برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجودنہیں تھے۔اکثر مریض برونی کواپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کودہراتے تھے جووقت کی گردمیں کہیں گم ہوچکے تھے۔اپنے دوستوںکی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔برونی تمام مریضوں کوجھوٹادلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکرنہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔ مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اورآخری سانسوں میں بھی!
پانچویں اورآخری بات بہت متاثرکن تھی۔تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کوذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔اپنی خوشی کو جاننے اورپہچاننے کاعمل شروع ہی نہیں کیا۔ اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔نتیجہ یہ ہواکہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔وہ لوگوں کو ظاہری طورپر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزاررہے ہیں۔
دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔وہ یکسانیت کاشکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثردیاکہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اورقہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔
عمرکے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اورغیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھالیا،کہ ہنسنا بھول گئے۔اپنے قہقہوں کی بھرپور آوازسنی ہی نہیں۔ اپنے اندرگھٹ گھٹ کرجیتے رہے مگراپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہدبھی ترک کر ڈالی۔نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزارکرسفر عدم پرروانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پرنقش ہوچکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیںہوں گے۔آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزاررہے ہوں گے۔اپنے بچوں اورخاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔اپنے جذبات کواپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔
پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔مگرمجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اورسچ ماننے کی ہے۔ اس کے باوجودمیری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تودرکنار،ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔ مگر شائدمیں غلط کہہ رہاہوں؟