پینتیس افطار دعوتیں
کچھ دیر خاموشی رہی پھر دروازہ کھلا اور مدعی نے گلی میں آ کر ہاتھ ہلایا جس کا مطلب تھا پیسے دے دیے ہیں،
لاہور کے ایک معروف ہوٹل میں جہاں ایک بار قائداعظم محمد علی جناح نے قیام کیا تھا اور چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کا قیام ہوتا تھا سابق سول سرونٹ ڈاکٹر امجد ثاقب نے چار پانچ سو روزہ دار احباب کو ''اخوت'' کی طرف سے افطار کے لیے مدعو کر رکھا تھا، ہر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لوگوں پر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ بابرکت مہینہ اختتام کے قریب ہے اور پھر افطار پارٹیاں اچانک شروع ہو جاتی ہیں لیکن قریبی دوستوں میں یہ سلسلہ رمضان کے وسط میں شروع ہو چکا ہوتا ہے جب کہ رشتہ دار شروع ہی میں ابتدا کر چکے ہوتے ہیں لیکن اس رمضان میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پائے جا رہے تھے کہ اس بار پہلے جیسی افطار پارٹیوں کی گرم جوشی کیوں نہیں ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا ادارہ ایک مائیکرو فنانس این جی او ہے جو غریب اور مالی طور پر کمزور اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بے سہارا لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بڑی خلوص نیت کے ساتھ خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ اخوت معاشرے میںموجود غیر مراعات یافتہ افراد کی سود سے پاک قرضوں کے ذریعے مدد کرتا ہے تاکہ وہ روزی کمانے کا ایک باعزت ذریعہ حاصل کر سکیں۔
اسی افطار پارٹی میں بیٹھے ہوئے مجھے چند روز قبل دی جانے والی افطار پارٹی یاد آ گئی جس کے میزبان ایک معروف پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے مالک و پرنسپل تھے۔ مہمان کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور افطار کا وقت دس پندرہ منٹ بعد تھا۔ ایک کونے میں کچھ اعلیٰ سرکاری افسران براجمان تھے۔ ایک باریش بزرگ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے ایک مہمان افسر پر نظریں جمائے قریب آئے اور اس افسر سے مخاطب ہوئے کہ کیا آپ فلاں ہیں جو کبھی راولپنڈی میں مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے۔
وہ صاحب اٹھے، بزرگ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ ''آپ نے ٹھیک پہچانا اور آپ کی تعریف؟؟'' وہ بزرگ شدت جذبات سے اس افسر سے لپٹ گئے اور بولے کہ ''میں اس ادارے کے مالک کا باپ اور محکمہ تعلیم کا وہ ریٹائرڈ افسر ہوں جس پر آپ نے بحیثیت مجسٹریٹ رشوت ستانی کے الزام پر ریڈ کیا رقم برآمد ہو گئی لیکن مجھے گرفتار نہ کیا'' افطار ہوئی کھانا بھی کھا لیا اور میں جو پہلے بھی انھی افسروں کے ساتھ بیٹھا تھاوہیں ان کے ساتھ چائے پینے لگا۔ وہ بزرگ کچھ میٹھا لے کر اسی ٹیبل پر آئے اور کہا کہ '' اگر آپ مجھے گرفتار کر لیتے تو مجھے اور میرے بیٹے کو آج جیسی میزبانی نصیب نہ ہوتی''
اینٹی کرپشن ریڈ کا احوال جو اس افسر نے سنایا جو انھی کی زبانی کچھ اس طرح تھا۔ دلچسپ ہے اس لیے سنئے۔''کئی دہائیاں پرانا قصہ ہے۔ مجھے حاجی محمد اکرم ڈپٹی کمشنر نے بلا کر چھاپے کے مدعی سے ملایا اور اس کی درخواست بنام ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ میرے حوالے کی جس میں درج تھا کہ وہ اسکول ٹیچر ہے اور اس کی ٹرانسفر کرنے کے عوض محکمہ کا افسر اس سے رشوت طلب کرتا ہے، رشوت کی رقم کے نوٹوں کے نمبر درخواست میں درج کیے گئے، اس مدعی کو اور پولیس انسپکٹر اور کنسٹیبلوں کو ہمراہ لے کر ریڈنگ پارٹی شام کے وقت ایجوکیشن افسر کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئی۔
ایجوکیشن آفیسر کی رہائش ایک محلے کی تنگ چھوٹی گلی کے مکان میں تھی جس مکان میں مدعی داخل ہوا اس کے ایک جانب پولیس کا عملہ ذرا چھپ کر کھڑا ہو گیا جب کہ میں گلی میں ٹہلنے لگا جب میں اس مکان کی ایک کھڑکی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اندر سے ایک غصے دار آواز آئی کہ ''تمہیں شرم نہیں آتی، مجھے رشوت کے پیسے دینے کی کوشش کرتے ہوئے'' جس کا جواب آیا ''نہیں سر میں تو بچوں کی مٹھائی کے لیے یہ پیسے دے رہا ہوں'' اس کے بعد چلاتی ہوئی آواز آئی ''نہیں تم مجھے تبادلے کے عوض رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہو'' ''دوسری آواز پھر آئی کہ ''سر شرمندہ نہ کریں، یہ پیسے رکھ لیں، مجھے مایوس نہ کریں''۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر گفتگو سنتا رہا پھر غصے بھری آواز آئی ''میں تمہارے اسکول معائنے کے لیے آیا، تم نے ظہر کی نماز میں امامت کی۔ میری تو وہ نماز بھی ضایع ہو گئی بس اب دفع ہو جاؤ''۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر دروازہ کھلا اور مدعی نے گلی میں آ کر ہاتھ ہلایا جس کا مطلب تھا پیسے دے دیے ہیں، اب میں نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر ایجوکیشن آفیسر کو بلا کر تعارف کرایا ،آنے کا مقصد بتایا اور پولیس انسپکٹر اور مدعی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا۔ اندر جا کر میں نے مدعی اور الزام علیہ کے بیان قلمبند کرنے سے پہلے الزام علیہ سے رشوت کی وصولی کی بابت پوچھا تو وہ انکاری ہو گیا لیکن مدعی نے کہا اس نے پیسے لے کر تکیے کے نیچے رکھے ہیں، رقم تکیے کے نیچے سے مل گئی جس پر الزام علیہ نے کہا کہ یہ رقم مدعی نے چھپا کر تکیے کے نیچے رکھ دی جب کہ وہ اس پیسے پر لعنت بھیجتا ہے۔
میں نے ہر دو کی گفتگو سن لی تھی اس لیے نتیجہ میرے سامنے تھا۔ مدعی اور الزام علیہ کے بیانات میں انھی الفاظ کی تکرار تھی جو کچھ میں نے کھڑکی میں سے سنا تھا۔ دونوں کے بیان لکھنے کے بعد میں نے ان کی جو گفتگو سنی تھی تحریر کیا اور مدعی کی گرفتاری کا آرڈر لکھ کر ہتھ کڑی لگوا کر حکم نامہ مع گرفتاری آرڈر پولیس انسپکٹر کے حوالے کر دیا''۔
مہمان افسر اعلیٰ یعنی سابق مجسٹریٹ درجہ اول کے سنائے ہوئے واقعے کے ساتھ ہی مجھے اسی دور کا ایک اپنا اینٹی کرپشن ریڈ یاد آ گیا۔ یہ ریڈ ایک سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی (RTA) پر کیا گیا تھا جو روٹ پرمٹ دینے کے عوض رشوت طلب کرتا تھا۔ میرا ریڈ (چھاپہ) سو فیصد کامیاب رہا تھا لیکن ملزم با اثر تھا اس چھاپے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب میں نے اسی محفل میں اس ریڈ کی تفصیل سنائی تو وہاں موجود ایک افسر نے بتایا کہ مذکورہ سیکریٹری RTA کئی سال کے بعد ڈائریکٹر جنرل حج تعینات ہو گیا تھا۔
رمضان المبارک کے آخری دنوں کی یہ دونوں افطار پارٹیاں ایمان افروز تھیں کہ ایک میں غربت کے خاتمے کے لیے اخوت کی خدمات کا ذکر اور بیان تھا تو دوسری میں انصاف کے قیام اور پامالی دونوں کا بیان تھا۔ عیدالفطر پر مجھے اپنی گوجرانوالہ تعیناتی کے دنوں کی یاد آ جاتی ہے جہاں رمضان المبارک کے مہینے میں ہمارے آٹھ دس دوستوں کو شہر کے خوش خوراک مقامی احباب کی طرف سے پنتیس افطار دعوتوں پر مدعو کیا گیا تھا اور پانچ دعوتیں ایسی تھیں جن میں افطار ایک جگہ ہوئی اور کھانا دوسری جگہ کھایا گیا تھا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا ادارہ ایک مائیکرو فنانس این جی او ہے جو غریب اور مالی طور پر کمزور اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بے سہارا لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بڑی خلوص نیت کے ساتھ خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ اخوت معاشرے میںموجود غیر مراعات یافتہ افراد کی سود سے پاک قرضوں کے ذریعے مدد کرتا ہے تاکہ وہ روزی کمانے کا ایک باعزت ذریعہ حاصل کر سکیں۔
اسی افطار پارٹی میں بیٹھے ہوئے مجھے چند روز قبل دی جانے والی افطار پارٹی یاد آ گئی جس کے میزبان ایک معروف پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے مالک و پرنسپل تھے۔ مہمان کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور افطار کا وقت دس پندرہ منٹ بعد تھا۔ ایک کونے میں کچھ اعلیٰ سرکاری افسران براجمان تھے۔ ایک باریش بزرگ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے ایک مہمان افسر پر نظریں جمائے قریب آئے اور اس افسر سے مخاطب ہوئے کہ کیا آپ فلاں ہیں جو کبھی راولپنڈی میں مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے۔
وہ صاحب اٹھے، بزرگ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ ''آپ نے ٹھیک پہچانا اور آپ کی تعریف؟؟'' وہ بزرگ شدت جذبات سے اس افسر سے لپٹ گئے اور بولے کہ ''میں اس ادارے کے مالک کا باپ اور محکمہ تعلیم کا وہ ریٹائرڈ افسر ہوں جس پر آپ نے بحیثیت مجسٹریٹ رشوت ستانی کے الزام پر ریڈ کیا رقم برآمد ہو گئی لیکن مجھے گرفتار نہ کیا'' افطار ہوئی کھانا بھی کھا لیا اور میں جو پہلے بھی انھی افسروں کے ساتھ بیٹھا تھاوہیں ان کے ساتھ چائے پینے لگا۔ وہ بزرگ کچھ میٹھا لے کر اسی ٹیبل پر آئے اور کہا کہ '' اگر آپ مجھے گرفتار کر لیتے تو مجھے اور میرے بیٹے کو آج جیسی میزبانی نصیب نہ ہوتی''
اینٹی کرپشن ریڈ کا احوال جو اس افسر نے سنایا جو انھی کی زبانی کچھ اس طرح تھا۔ دلچسپ ہے اس لیے سنئے۔''کئی دہائیاں پرانا قصہ ہے۔ مجھے حاجی محمد اکرم ڈپٹی کمشنر نے بلا کر چھاپے کے مدعی سے ملایا اور اس کی درخواست بنام ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ میرے حوالے کی جس میں درج تھا کہ وہ اسکول ٹیچر ہے اور اس کی ٹرانسفر کرنے کے عوض محکمہ کا افسر اس سے رشوت طلب کرتا ہے، رشوت کی رقم کے نوٹوں کے نمبر درخواست میں درج کیے گئے، اس مدعی کو اور پولیس انسپکٹر اور کنسٹیبلوں کو ہمراہ لے کر ریڈنگ پارٹی شام کے وقت ایجوکیشن افسر کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئی۔
ایجوکیشن آفیسر کی رہائش ایک محلے کی تنگ چھوٹی گلی کے مکان میں تھی جس مکان میں مدعی داخل ہوا اس کے ایک جانب پولیس کا عملہ ذرا چھپ کر کھڑا ہو گیا جب کہ میں گلی میں ٹہلنے لگا جب میں اس مکان کی ایک کھڑکی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اندر سے ایک غصے دار آواز آئی کہ ''تمہیں شرم نہیں آتی، مجھے رشوت کے پیسے دینے کی کوشش کرتے ہوئے'' جس کا جواب آیا ''نہیں سر میں تو بچوں کی مٹھائی کے لیے یہ پیسے دے رہا ہوں'' اس کے بعد چلاتی ہوئی آواز آئی ''نہیں تم مجھے تبادلے کے عوض رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہو'' ''دوسری آواز پھر آئی کہ ''سر شرمندہ نہ کریں، یہ پیسے رکھ لیں، مجھے مایوس نہ کریں''۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر گفتگو سنتا رہا پھر غصے بھری آواز آئی ''میں تمہارے اسکول معائنے کے لیے آیا، تم نے ظہر کی نماز میں امامت کی۔ میری تو وہ نماز بھی ضایع ہو گئی بس اب دفع ہو جاؤ''۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر دروازہ کھلا اور مدعی نے گلی میں آ کر ہاتھ ہلایا جس کا مطلب تھا پیسے دے دیے ہیں، اب میں نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر ایجوکیشن آفیسر کو بلا کر تعارف کرایا ،آنے کا مقصد بتایا اور پولیس انسپکٹر اور مدعی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا۔ اندر جا کر میں نے مدعی اور الزام علیہ کے بیان قلمبند کرنے سے پہلے الزام علیہ سے رشوت کی وصولی کی بابت پوچھا تو وہ انکاری ہو گیا لیکن مدعی نے کہا اس نے پیسے لے کر تکیے کے نیچے رکھے ہیں، رقم تکیے کے نیچے سے مل گئی جس پر الزام علیہ نے کہا کہ یہ رقم مدعی نے چھپا کر تکیے کے نیچے رکھ دی جب کہ وہ اس پیسے پر لعنت بھیجتا ہے۔
میں نے ہر دو کی گفتگو سن لی تھی اس لیے نتیجہ میرے سامنے تھا۔ مدعی اور الزام علیہ کے بیانات میں انھی الفاظ کی تکرار تھی جو کچھ میں نے کھڑکی میں سے سنا تھا۔ دونوں کے بیان لکھنے کے بعد میں نے ان کی جو گفتگو سنی تھی تحریر کیا اور مدعی کی گرفتاری کا آرڈر لکھ کر ہتھ کڑی لگوا کر حکم نامہ مع گرفتاری آرڈر پولیس انسپکٹر کے حوالے کر دیا''۔
مہمان افسر اعلیٰ یعنی سابق مجسٹریٹ درجہ اول کے سنائے ہوئے واقعے کے ساتھ ہی مجھے اسی دور کا ایک اپنا اینٹی کرپشن ریڈ یاد آ گیا۔ یہ ریڈ ایک سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی (RTA) پر کیا گیا تھا جو روٹ پرمٹ دینے کے عوض رشوت طلب کرتا تھا۔ میرا ریڈ (چھاپہ) سو فیصد کامیاب رہا تھا لیکن ملزم با اثر تھا اس چھاپے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب میں نے اسی محفل میں اس ریڈ کی تفصیل سنائی تو وہاں موجود ایک افسر نے بتایا کہ مذکورہ سیکریٹری RTA کئی سال کے بعد ڈائریکٹر جنرل حج تعینات ہو گیا تھا۔
رمضان المبارک کے آخری دنوں کی یہ دونوں افطار پارٹیاں ایمان افروز تھیں کہ ایک میں غربت کے خاتمے کے لیے اخوت کی خدمات کا ذکر اور بیان تھا تو دوسری میں انصاف کے قیام اور پامالی دونوں کا بیان تھا۔ عیدالفطر پر مجھے اپنی گوجرانوالہ تعیناتی کے دنوں کی یاد آ جاتی ہے جہاں رمضان المبارک کے مہینے میں ہمارے آٹھ دس دوستوں کو شہر کے خوش خوراک مقامی احباب کی طرف سے پنتیس افطار دعوتوں پر مدعو کیا گیا تھا اور پانچ دعوتیں ایسی تھیں جن میں افطار ایک جگہ ہوئی اور کھانا دوسری جگہ کھایا گیا تھا۔