ممکنہ اتحاد کے اہداف
ملک کے حالات جس خطرناک سمت بڑھ رہے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری، بجلی پانی کے قحط کا جس طرح سامنا ہے
اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے درمیان ایک تفصیلی ملاقات ہوئی ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے عید کے بعد احتجاجی تحریک چلانے پر اتفاق کیا ہے۔ اسلام آباد کے بے نتیجہ تاریخی دھرنے کے بعد طاہر القادری تو کینیڈا چلے گئے لیکن عمران خان بہرحال غیر اہم ایشوز پر متحرک رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری کے معتقدین لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور ان کی نظریاتی تنظیم منہاج القرآن سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ثابت قدمی سے ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں عمران خان کی دھرنا تحریک کی ناکامی کے بعد اگرچہ عوام ان سے بدظن بھی ہوگئے ہیں اور دور بھی لیکن عوام کی ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس کرپٹ نظام سے آزاد ہو جائیں ان کی دوسری مجبوری یہ ہے کہ اس بامعنی جدوجہد میں ان کی قیادت کرنے والا کوئی ایسا رہنما موجود نہیں جو صاحب بصیرت ہو دور اندیش ہو جو پاکستانی سیاست کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور کسی لالچ کے بغیر عوام کی رہنمائی کرے۔
ملک کے حالات جس خطرناک سمت بڑھ رہے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری، بجلی پانی کے قحط کا جس طرح سامنا ہے اس صورتحال میں عوام کی تیسری مجبوری یہ ہے کہ وہ آزمائے ہوؤں ہی کو دوبارہ آزمائیں۔ عمران خان اور طاہر القادری میں دوسری کئی کمزوریاں تو ہوسکتی ہیں لیکن کرپشن کے حوالے سے ان کے دامن صاف ہیں اس پس منظر میں اگر یہ دونوں زعما تحریک چلاتے ہیں تو عوام ایک بار پھر ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ممکنہ تحریک کے اہداف کیا ہوں گے۔
دیکھا یہی جا رہا ہے کہ عمران خان کی ساری توجہ 2013کے الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی پر مرکوز ہے، ان کا خیال ہے کہ اس حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کو تسلیم کرلیتی ہے تو ملک میں دوبارہ الیکشن ہوجائیں گے اور عمران خان کے اندازوں کے مطابق ان کے وزیر اعظم بننے کے چانس پیدا ہوجائیں گے اس لیے وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ 2015 میں انتخابات ہوجائیں گے لیکن نہ دھاندلی کیس میں فیصلہ عمران کے حق میں ہونا حتمی ہے نہ 2015 میں عام انتخابات ہونا حتمی ہے۔
طاہر القادری اگرچہ انقلاب کے نعرے کے ساتھ 14 اگست 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے لیکن غلط منصوبہ بندی اور غلط توقعات کی وجہ سے ان کا انقلاب اسلام آباد کے ڈی چوک ہی پر رہ گیا، اب مولانا ماڈل ٹاؤن لاہورکے 14 شہدا کے ساتھ انصاف پر زور دے رہے ہیں۔
بلاشبہ 2013 میں ہونے والی انتخابی دھاندلی اور ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے 14 کارکنوں کا مسئلہ بہت اہم ہے لیکن ان دونوں حضرات کو یقیناً اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ جب تک ہمارے ملک میں یہ گندا نظام رہے گا یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ اس واضح حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں حضرات دھاندلی اور 14 شہدا کے مسئلے کو تحریک کا اولین مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اس نظام کو اپنا ہدف بنائیں جو ان برائیوں اور المیوں کو جنم دیتا ہے۔
ہم نے بارہا اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ 68 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اس نظام کو بدلنا نہ آسان ہے نہ ایک دو پارٹیاں اس نظام کو تبدیل کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے ایک ایسے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہے جس میں صرف وہ جماعتیں شامل ہوں جو اس 68 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوں۔
اس شرط کی ضرورت اس لیے ہے کہ ماضی کے کئی سیاستدان جو آج کل اقتدار کے حوالے سے بے روزگار ہیں، اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ دوبارہ انھیں اقتدار کے مزے لوٹنے کا چانس حاصل ہوجائے۔ اگر تحریک کا مرکزی نکتہ اسٹیٹس کو کو توڑنا طے ہوجاتا ہے تو ایسے اتحاد سے وہ سارے دور بھاگ جائیں گے جو محض اقتدار میں حصہ بٹانے کی خاطر کسی اتحاد کے منتظر ہوتے ہیں، ملک میں ایسی بہت سی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو اگرچہ سائز میں چھوٹی اور کمزور ہیں لیکن نظریاتی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اگر ایسی جماعتیں اس اتحاد کا حصہ بنتی ہیں تو بلاشبہ اس اتحاد کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اور وہ گند بھی اس اتحاد سے دور رہ سکتا ہے جو ماضی میں نام نہاد چہرے بدلنے کی تحریکوں کا حصہ رہا ہے۔
موجودہ حکومت کے معتوب اور کئی کیسز میں ملوث سابق صدر پرویز مشرف بھی اسیری کی حالت میں ہونے کے باوجود اس ملک میں تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ چونکہ اپنی سرکاری عدت وہ گزار چکے ہیں لہٰذا سیاست میں حصہ لینے کا انھیں حق حاصل ہے اور ان پر کرپشن کے بھی کوئی الزامات نہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کا بڑا ہدف تمام مسلم لیگوں کو متحد کرنا ہے اور بدقسمتی سے تمام مسلم لیگیں ماضی سے حال تک آمروں کی حکومتوں میں شامل رہی ہیں اور آج بھی ان کا پہلا مقصد اقتدار میں حصہ حاصل کرنا ہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگوں کا یہ اتحاد اس وسیع تر اتحاد کا منطقی طور پر حصہ نہیں بن سکتا جس کا اولین ہدف 68 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنا ہو۔
طاہر القادری کی 14 اگست کے بعد سے کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ناپختہ ہی سہی ایک ایسے رہنما ہیں جن کا ہدف محض اقتدار کا حصہ بننا نہیں ہے۔ان کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ ان کے معتقدین نہ صرف اپنی قیادت کا آنکھ بند کرکے ساتھ دیتے ہیں بلکہ وہ بھی اس استحصالی نظام میں تبدیلی کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
1977 میں بھٹو کے خلاف جو 9 جماعتی اتحاد بنا تھا اس کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی عوام بھٹو کے انقلابی نعروں سے مایوس ہوگئے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ امریکا ہر قیمت پر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتا تھا، اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے ڈالروں کی بارش کردی تھی۔
عمران اور قادری جو اتحاد بنانے جا رہے ہیں اس کی پہلی شرط یہ ہونا چاہیے کہ اس اتحاد کا کوئی فریق اقتدار کو اولیت نہ دے اس کی ساری توجہ اسٹیٹس کو کی تبدیلی پر ہو اس قسم کی بڑی اور بامعنی تبدیلیوں کے امکان پر امریکا اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی نظر ہوتی ہے، اگر کوئی تبدیلی ان کے مفادات کے لیے خطرہ نہیں بنتی تو وہ غیر جانبدار ہوجاتے ہیں اور تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہتے ہیں لیکن ان طاقتوں کی کوئی حیثیت اس وقت نہیں رہتی جب لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر آجاتے ہیں، 1968 میں جب عوام صورتِ سیلاب سڑکوں پر آئے تو ایوب خان کو کوئی نہ بچا سکا!