عید گزشتہ

ہمارا ابتدائی بچپن یوپی کے ایک گاؤں میں گزرا ہے جہاں پیار اور بھائی چارے کو مذہب کا درجہ حاصل تھا

S_afarooqi@yahoo.com

MADRID:
قارئین کرام کو عید گزشتہ کی پرخلوص مبارکباد! ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی عید کے موقع پر ماضی کے دریچے یک بہ یک کھل گئے اور بے شمار حسین مناظر تازہ ہوگئے۔ وہ ناقابل فراموش مناظر جن کی دلفریبی کبھی بھی ماند نہیں پڑے گی۔ یہ وہ انمٹ نقوش ہیں جو لوح ذہن و قلب پہ ہمیشہ کندہ درخشندہ رہیں گے۔

واقعی کسی دانشور نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ The Past is Another World ماضی سچ مچ ایک اور ہی جہان ہے۔ اک جہاں تازہ۔ ایک مہکتا ہوا گلستان جس کی تازہ ہوا کا محض ایک ہی جھونکا روح کو تازہ کردیتا ہے۔ دل میں جب ماضی کی یادیں کروٹیں لینے لگتی۔

ہمارا ابتدائی بچپن یوپی کے ایک گاؤں میں گزرا ہے جہاں پیار اور بھائی چارے کو مذہب کا درجہ حاصل تھا اور مسلم اور غیر مسلم امن و آشتی کے جذبے سے سرشار ہوکر شیر و شکر ہوکر رہا کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔

اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ جب 1947 میں تقسیم برصغیر کے وقت ہر طرف آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہاتھا اور فسادات کے نتیجے میں قیامت صغریٰ برپا تھی تو تب بھی یہ مقام امن و آشتی کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ گاؤں کے باہر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے جب ہم لوگ ہندوؤں کی آبادی سے گزرتے تھے اور عیدگاہ کی راہ پر گامزن ہوتے تھے تو راستے میں کھڑے ہوئے غیر مسلم اپنے چہروں پر مسکراہٹ اور شادمانی کے پھول سجائے ہوئے فرشِ راہ بنے ہوئے ہوتے تھے۔

عید کی آمد پر ہم بچوں کے لیے نئے کپڑے سلوائے جاتے تھے اور نئے جوتے پہنائے جاتے تھے، جنھیں ہم عید کے موقع پر احتیاط سے استعمال کرنے کے بعد جھاڑ پونچھ کر آیندہ بقر عید کے لیے سنبھال کر رکھ دیا کرتے تھے، اس میں امیر و غریب کی کوئی تخصیص نہیں تھی اور پورے معاشرے کا بس یہی معمول تھا کہ عید کی نماز کھلے میدان میں انتہائی سادگی اور مِلی جذبے کے ساتھ ادا کی جاتی تھی اور اس کے بعد لوگ بڑے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کرتے تھے۔

عیدگاہ کے باہر میلے کا سا سماں ہوتا تھا جہاں کھلونا ساز ہاتھ کے بنے ہوئے طرح طرح کے پرکشش کھلونے فروخت کرنے کے لیے بچوں کے منظر ہوتے تھے۔ ان کھلونوں میں سب سے زیادہ باعث کشش وہ گاڑی ہوتی تھی جسے دھاگے سے کھینچ کر چلاتے ہوئے ڈھول کی سی آواز نکلتی تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کھلونے بچوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے جنھیں دستکاری کا شاہکار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ہم بچے پورے سال ان کھلونوں کی خاطر بڑی بے تابی کے ساتھ عید کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ بچوں کے لیے عید کی دوسری بڑی کشش عیدی ہوا کرتی تھی جو بزرگ بچوں میں انتہائی شفقت کے ساتھ تقسیم کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روپے پیسے کی نہیں جذبے کی قدر ہوا کرتی تھی اور ظاہر داری اور دکھاوے کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ عیدگاہ سے واپسی پر لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آیا جایا کرتے تھے، جہاں بے حد سادگی کے ساتھ میٹھی سویوں یا شیر خرمہ کے ساتھ ان کی خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ خواتین کے لیے عید کی سب سے بڑی کشش مہندی اور کانچ کی چوڑیاں ہواکرتی تھیں، جن کا سال بھر انتہائی بے چینی کے ساتھ انتظار کیا جاتا تھا۔

ہمارے گاؤں میں چونکہ اس وقت تک بجلی نہیں آئی تھی لہٰذا چاند رات کو عید کی تیاریاں چراغوں اور مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی لالٹینوں کی مدھم مدھم روشنیوں میں ہی کی جاتی تھی۔ لڑکیاں بالیاں مغرب کے بعد سے ہی اپنی اپنی ٹولیاں بناکر عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ مہندی لگانے کا خاص طور سے اہتمام کیا جاتا تھا۔ زندگی چونکہ مصنوعی پن کی آلودگی سے پاک تھی اس لیے بازار سے پسی ہوئی مہندی خرید کر استعمال کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ گھر گھر مہندی کے درخت ہوتے تھے جن کی تازہ پتیوں کو پتھر کی سلوں پر بڑی محنت سے پیسا جاتا تھا۔


عید کے موقع پر مردوں کے خرید کر لائے ہوئے کپڑے خواتین خود اپنے ہاتھوں سے تراش خراش کر گھر میں ہی سیا کرتی تھی۔ کپڑوں کی سلائی اور کڑھائی سمیت لڑکیوں کو کشیدہ کاری اور کھانے پکانے کی خصوصی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ بجلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے کپڑوں پر استری کرنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ لہٰذا کپڑوں پر دھات کے برتنوں کے پیندنے کے ذریعے تہہ جمائی جاتی تھی اور یہ کام بھی گھر کی تجربہ کار خواتین ہی کے ہاتھوں انجام پاتا تھا۔

معاشرتی زندگی چونکہ فضولیات سے قطعی پاک اور مبرا تھی اس لیے عید کے موقع پر طرح طرح کی ڈشیں تیار کرنے اور انواع و اقسام کے کھانوں کا بھی کوئی بکھیڑا نہیں ہوتاتھا۔ لوگ مزاجاً قناعت پسند اور صابر و شاکر تھے۔ اس لیے ''جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا'' کے فلسفہ پر عمل پیرا تھے۔ البتہ عید کے موقع پر میٹھے کا اہتمام ضرور کیا جاتا تھا۔ کیوں کہ عیدالفطر کا عوامی نام ہی ''میٹھی عید'' تھا۔

خواتین میں چونکہ پردے کا رواج بہت سخت تھا۔ لہٰذا دن کے وقت بیشتر عورتیں گھروں کے اندر ہی رہتی تھیں اور رات کے وقت عید ملنے کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں آیا جایا کرتی تھیں۔ البتہ مرد حضرات نہ صرف دن بھر ملنے ملانے میں مصروف رہتے تھے بلکہ چوپال پر محفلیں سجا سجاکر خوش گپیوں میں اپنا وقت گزارا کرتے تھے۔ بڑوں بوڑھوں کی محفلیں الگ اور نوجوانوں کی مجلسیں علیحدہ ہوتی تھیں۔ جب کہ بچے دن بھر کھیل کود کر عید کی خوشیاں منایا کرتے تھے۔

گلی محلے کی دکانیں عید کی نمازکی تھوڑی ہی دیر بعد کھل جاتی تھیں۔ جن پر دن بھر گاہکوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ دکان دار نہ صرف پورا تولتے تھے بلکہ اپنی ترازو کا مال والا پلڑا زیادہ تر جھکا ہوا ہی رکھتے تھے تاکہ کم تولنے کے گناہ سے محفوظ رہ سکیں۔ خوفِ خدا کا یہ احساس آج کے دور میں ہمیں بہت کم نظر آتا ہے۔ ناپ تول میں احتیاط کا رواج آج قریب قریب ختم ہی ہوچکا ہے۔ آپ گر کسی دکان دار سے پورا تولنے کا اصرار کریں گے تو وہ ایک دم آپ سے لڑنے جھگڑنے کو دوڑے گا۔

ہمارے ذہن میں دلی شہر کی عیدوں کی یادیں بھی ابھی تک تازہ اور محفوظ ہیں، جہاں بڑی زبردست رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ عید کی آمد کی موقع پر سب سے زیادہ رش درزیوں کی دکانوں پر ہوا کرتا اور ٹیلر حضرات کے نخرے آسمان پر ہوتے تھے۔ وقت پر کبھی کپڑے نہ دینا اور بار بار گاہکوں کو چکر پر چکر لگوانا ٹیلر ماسٹروں کا عام وطیرہ تھا۔

عید کے موقع پر جوتے والوں کی دکانوں پر بھی بڑا رش ہوتا تھا اور تمام دکانیں رات گئے دیر تک کھلی رہتی تھیں۔ بعض دکانوں پر بچوں کے لیے عید کے گفٹ کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا، جن میں ''عید مبارک'' کے غبارے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ عید کے موقع پر مٹھائی فروش طرح طرح کی مٹھائیاں تیار کرتے تھے جن کی سجاوٹ قابل دید ہوتی تھی۔ مٹھائی کے ڈبوں کی پیکنگ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔

نماز عید ادا کرنے کے لیے لوگ عیدگاہ کو ترجیح دیتے تھے جن کے بعد عید کا دوسرا سب سے بڑا اجتماع دلی کی شاہی جامع مسجد میں ہوتا تھا۔ جامع مسجد کے باہر سیڑھیوں پر کھانے پینے کی مختلف چیزوں کے اسٹال لگے ہوتے تھے جنھیں نوش کرکے دلی کے چٹورے اپنے ذوقِ خور و نوش کی تسکین کیا کرتے تھے، ماشکی اپنی اپنی مشکوں میں پینے کا پانی لیے ہوئے قلعی دار کٹورے بجاتے ہوئے گاہکوں کا دل موہ لیتے تھے۔

دلی والوں اور لاہوریوں میں بہت سی معاشرتی اور ثقافتی قدریں بہت مشترک ہیں۔ دونوں ہی کھانے پینے اور سیر سپاٹوں کے انتہائی شوقین واقع ہوئے ہیں اور دونوں ہی ''سیلانی جیوڑے'' کہلانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ عید کے گزشتہ روز دلی والے اپنے اپنے گھروں سے کھانے پینے کی اشیا لے کر یا تو مہوالی نامی بستی کا رخ کرتے تھے۔ جہاں تاریخی قطب مینار واقع ہے یا پھر ہمایوں کے مقبرے کی راہ لیتے تھے۔ نہانے کے شوقین لوگ دریائے جمنا کے کنارے اپنے ڈیرے ڈالتے تھے۔ عید کے گزشتہ روز منائے جانے والے اس خاص دن کو دلی والے ''مٹر'' کے نام سے پکارتے ہیں ''مٹر'' منانے کا اہتمام عید سے بھی بڑھ کر کیا جاتا تھا۔
Load Next Story