فیض اور جالب ۔۔۔۔ ایک تعلق
عوام نے حبیب جالب کو شاعر عوام کہا اور فیض احمد فیض نے عوامی فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کی۔
جالب صاحب کے شعری مجموعے ''جالب نامہ'' کا انتخاب ایک معروف صحافی نے کیا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں علی سردار جعفری نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے لکھا ''مبارک ہے وہ ملک جسے فیض اور جالب کی آواز ملی۔ (علی سردار جعفری، 19 مئی 1991)'' فیض اور جالب میں ایک دوسرے کے لیے عقیدت و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ فیض اور جالب اپنی اپنی سطح پر بڑے شاعر بھی تھے اور اعلیٰ ظرف بھی تھے۔ فیض اور جالب کے حوالے سے چند واقعات بیان کر رہا ہوں۔
فیض صاحب کو جب لینن پرائز ملا تو جالب صاحب ان کے گھر گئے اور مبارکباد پیش کی۔ پھر جالب صاحب نے فیض صاحب سے پوچھا ''نقد بھی مل گیا'' فیض نے کہا ''ہاں مل گیا'' جالب صاحب نے ان سے کہا ''میرے حصے کے دو سو روپے میری جیب میں ڈال دیں'' فیض صاحب بولے ''نہیں تمہیں صرف چائے کا ایک کپ ملے گا'' اور پھر جالب صاحب بیان کرتے ہیں کہ ''میں بھی دو سو روپے لے کر ہی ٹلا''۔ یہ واقعہ ساٹھ کی دہائی کا ہے۔ حکومت لاکھوں روپے دینے پر تیار مگر جالب انکاری۔ اور دوست کے دو سو روپے قبول۔
عوام نے حبیب جالب کو شاعر عوام کہا اور فیض احمد فیض نے عوامی فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کی۔ فیض نے کہا تھا ''ولی دکنی سے لے کر آج تک کسی شاعر کو اتنے سامع نصیب نہیں ہوئے جتنے حبیب جالب کو ہوئے۔'' ڈاکٹر ایوب مرزا فیض صاحب کے بڑے مداح اور دوست بھی تھے۔
انھوں نے فیض صاحب کا ایک طویل انٹرویو کیا تھا، اور یہ انٹرویو (گفتگو) کتابی شکل میں بھی موجود ہے۔ کتاب کا نام ہے ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی'' دوست پبلی کیشنز اسلام آباد کا شایع کردہ ایڈیشن، اشاعت 1996 درج ہے۔ ڈاکٹر ایوب مرزا لکھتے ہیں ''باتوں باتوں میں ذکر وارث شاہ، بلھے شاہ، بابا فرید، میاں محمد، سلطان باہو وغیرہ کا چھڑ گیا۔ کہنے لگے (فیض صاحب) ''بھئی! اصل بات یہ ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے، یہ بہت بڑے شعرا ہیں۔
درحقیقت یہ عوامی شعرا ہیں۔ ذرا غور کرو کہ ان کے پاس پبلشر کہاں تھے۔ چھاپے خانے کدھر تھے، اور ان کے پروموٹر اور دھڑے بند بھائی کہاں تھے، مگر ان کے اشعار اور قصے دیہاتوں میں زبان زد عام تھے، ان کی بے پایاں مقبولیت، ان کی شاعرانہ عظمت کی نشان دہی کرتی ہے۔
ان قصوں میں انھوں نے اس وقت کی سیاسی، سماجی اور معاشی حالت کی بہت اعلیٰ درجے کی عکاسی کی۔ اس وقت کے رسم و رواج اور رائج الوقت محبتوں کے اصولوں کو اپنی شاعری میں بہتر اسلوب میں رقم کیا ہے۔'' ڈاکٹر ایوب مرزا فوراً ہی آگے لکھتے ہیں ''میں نے گستاخانہ لہجے میں کہا ''فیض صاحب! آپ کی شاعری عام آدمی کے سر سے اوپر سے گزر جاتی ہے، اگرچہ آپ کی شاعری کی اساس عوامی ہے۔'' کہنے لگے ''(فیض صاحب) ''ہم کب کہتے ہیں کہ ہم عوامی شعر کہتے ہیں '' اور پھر فیض صاحب مسکرائے اور کہا ''بھئی! اس کے لیے ہمارے پاس حبیب جالب جو ہے۔''
جالب صاحب فیض صاحب کا بڑا احترام کرتے تھے اور اپنائیت بھرے لہجے میں کبھی کبھی کہا کرتے تھے کہ فیض صاحب میرے لیے لکھتے ہیں اور پھر میں ان کے پیغام کو عوام تک پہنچاتا ہوں۔
فیض صاحب ملک میں ہوتے اور لاہور میں ہوتے تو احباب سے کہتے کہ ''جالب کو ڈھونڈ کر لاؤ۔'' ایک واقعہ فیض اور جالب کا یہ بھی ہے کہ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں فیض صاحب نیشنل سینٹر کے سربراہ بنا دیے گئے۔ ان کا عہدہ مرکزی وزیر کے برابر تھا۔ جالب صاحب کو یہ بات اچھی نہیں لگی، ادھر بلوچستان کی آئینی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔ کچھ بلوچ احتجاجاً پہاڑوں پر چلے گئے تھے، بلوچستان پر فوج کشی ہو رہی تھی۔ جالب صاحب نے غزل لکھ دی۔ مطلع تھا:
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اور غزل کا مقطع تھا:
جگا نہ شہہ کے مصاحب کو خواب سے جالب
اگر وہ جاگ گیا، نوکری سے جائے گا
یار لوگوں نے فیض صاحب تک یہ بات پہنچائی کہ جالب آپ پر پھبتی کستا ہے۔ مقطع سن کر فیض صاحب حسب عادت مسکرائے اور کہا ''جالب کو حق پہنچتا ہے۔''
2007ء یا 2008ء کی بات ہے۔2007 میں حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجرا ہوا تھا، پہلا ایوارڈ کامریڈ سوبھوگیان چندانی صاحب کو دیا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب کراچی پریس کلب میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب کے بعد اکادمی ادبیات (کراچی) نے کامریڈ سوبھو گیان چندانی کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی۔ یہ تقریب کے ڈی اے آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں ہوئی تھی۔ تقریب کے اختتام پر چائے پیتے ہوئے محترمہ زہرہ نگاہ صاحبہ نے ایک بہت اہم واقعہ سنایا۔
انھوں نے بتایا کہ ''فیض صاحب قیام لندن کے دوران میرے گھر پر موجود تھے۔ میرے شوہر ماجد بھی تھے۔ فیض صاحب نے کہا ''اب پاکستان واپس جاتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ جالب کی قربانیاں بہت زیادہ ہوچکی ہیں۔'' یہ تھے عظیم شاعر فیض احمد فیض، جن کو اللہ نے دوسروں کی خدمات کا اعتراف کرنے کا حوصلہ بھی حد درجہ عطا فرمایا تھا۔ جالب کے اعتراف میں خود فیض صاحب کا بڑا انسان ہونا دنیا والوں کے سامنے آیا۔ مجھے یقین ہے کہ اب یہ دونوں عظیم شاعر انتہائی آسودگی میں ہوں گے۔ فیض صاحب کے انتقال پر جالب نے لکھا تھا:
بیادِ فیض
فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں
ہم سے جس وقت نے وہ شاہِ سخن چھین لیا
ہم کو وہ وقتِ الم بھولنے والا ہے کہیں
تیرے اشک اور بھی چمکائیں گے یادیں اس کی
ہم کو وہ دیدۂ غم بھولنے والا ہے کہیں
کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست
جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالب
یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں
فیض صاحب کے انتقال پر جالب صاحب آپریشن کے باعث سروسز اسپتال میں داخل تھے، اور جنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔