کے ای رینجرز اور کراچی کے شہری
لیکن جائز و ناجائز طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرنے میں یہ ادارہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ہے
KARACHI:
دیگر لاتعداد مسائل کے علاوہ بجلی، پانی اور امن و امان کے مسئلے کراچی کے شہریوں کے لیے جان لیوا بنے ہوئے ہیں، جن سے ہر شہری بری طرح متاثر ہے۔ کراچی شہر کو بجلی کی فراہمی کا ادارہ کراچی الیکٹرک کی نااہلی، لوٹ مار اور ناقص منصوبہ بندی، طاقتور حلقوں کی جانب سے بجلی کی چوری اور حکومتی اداروں کی طرف سے بلوں کی عدم ادائیگی، بجلی چوری کی رقم کی عام شہریوں سے وصولی اور اس کی سزا میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے نرخوں کی شرح میں بیش بہا اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
لوڈشیڈنگ سے جاں بہ لب، اشتعال اور ذہنی ہیجان کے شکار شہری، شہر کی مختلف شاہراہوں پر آکر توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور گاڑیوں پر پتھروں کے عادی ہوچکے ہیں، جن سے عام شہری مزید مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے مابین مارپیٹ کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے اور افطار، سحر اور تراویح کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا اعلان بھی ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گیا۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی شدید گرمی میں کے الیکٹرک کی نااہلی اور سنگدلی کی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار سے زائد انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ گھروں پر انتقال کر جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے، قبرستانوں میں قبریں ملنا مشکل ہوگئیں، ان کے نرخوں میں بھی خوب بلیک مارکیٹنگ کی گئی، گورکنوں اور مزدوروں کو منت سماجت کرکے منہ مانگے دام ادا کرکے قبریں تیار کروائی گئیں۔
شہری سن اسٹروک کے شکار مریضوں کو ایمبولینسوں میں لے کر اسپتالوں کے چکر لگاتے رہے مگر اسپتالوں میں مریضوں کے لیے گنجائش نہ تھی۔ یہ صورتحال کئی دنوں تک جاری رہی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے خدانخواستہ کسی قدرتی آفت کی صورتحال میں شہر اور شہریوں کی کیا درگت بن سکتی ہے۔ شدید گرمی اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھروں کے اے سی، فریج، ڈیپ فریزر اور دیگر برقی آلات نے کام چھوڑ دیا۔ اے سی، فریج، روم کولر اور ڈیپ فریزر کی اربوں روپوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی، بلیک مارکیٹنگ بھی کھل کر ہوئی اس کے علاوہ علاج معالجہ اور دیگر اشیا کی خرابی اور اوقات کار کے ضیاع اور پیداواری عمل کے تعطل سے جو نقصان پہنچا اس کی مالیت شاید کھربوں روپے تک ہو۔
دنیا کے مہذب ممالک میں اگر بغیر پیشگی نوٹس چند منٹوں کے لیے بھی بجلی غائب ہوجائے تو معذرت نامے کے ساتھ کہ آپ کو ذہنی کوفت برداشت کرنا پڑی، کمپنسیشن یعنی زرتلافی یا معاوضہ بل کے ساتھ ہی ادا کردیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی کراچی میں ہلاکتوں کا ذمے دار کے ای کو قرار دیا ہے یہی موقف ہمارے حکومتی ارکان، حزب اختلاف کے رہنماؤں اور عام شہریوں کا بھی ہے لیکن اس کے باوجود کے ای کسی تادیبی کارروائی سے مبرا ہے۔
اس ادارے کو اپنی نااہلی و ناقص کارکردگی یا مجرمانہ غفلت پر کسی قسم کی ندامت یا شرمندگی نہیں ہے بلکہ نمایندوں کے بیانات دھمکی آمیز اور وضاحتیں عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی کے ای کے نمایندوں کی گفتگو بعض متحارب و مشتعل سیاسی رہنماؤں کی طرح اشتعال انگیز، دروغ گوئی اور عدم شائستگی پر مبنی ہوتی ہے۔ ادارہ کاپر وائر کی جگہ المونیم وائر استعمال کر رہا ہے۔
جس سے لائن لاسز اور فالٹ کی شرح میں بڑی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، المونیم کی تاریں ٹوٹنے اور جل جانے پر گھنٹوں نہیں بلکہ بعض مرتبہ کئی دنوں تک سپلائی بحال نہیں کی جاتی، ادارہ اوور بلنگ بھی کرتا ہے، بڑے بجلی چوروں کی ریکوری بل ادا کرنے والے شہریوں سے کرتا ہے، پھر اس کی پاداش میں انھیں لوڈشیڈنگ کی اذیت سے بھی دوچار کرتا ہے، بجلی کی تیاری کے لیے گیس اور سستا فرنس آئل اور اربوں روپوں کی حکومتی سبسڈی کے باوجود اس ادارے کی کارکردگی روز افزوں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔
لیکن جائز و ناجائز طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرنے میں یہ ادارہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ہے۔مئی 2015 میں اس ادارے نے بجلی چوری اور بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف ''آپریشن برق'' شروع کیا ہوا ہے جس کے تحت کے ای کی لاؤڈ اسپیکر سے مزین گاڑیوں کی قطاریں جن کے پیچھے رینجرز کی گاڑیاں بھی چل رہی ہوتی ہیں مختلف شاہراہوں پر بجلی چوروں اور بل نادہندگان کے خلاف کارروائیوں کے اعلانات کرتی پھرتی ہیں۔ اب تو بجلی کے بلوں کے ساتھ اردو میں ایک نوٹس بھی منسلک کرکے بھیجا جا رہا ہے جس میں تحریر ہے کہ کے ای کا عملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بجلی چوروں اور بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے گا۔
یہ نوٹس جو عام اور قانون پسند شہریوں کو بھیجا جا رہا ہے اس میں تحریر ہے کہ یہ نوٹس بجلی چوروں کے لیے ایک انتباہ ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بجلی چوری میں ملوث صارفین، انفرادی اشخاص، اداروں کی نشاندہی کرنے اور اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے میں کے ای کی مدد کرتے رہیں گے اور یہ کہ امید کرتے ہیں کہ صارفین چوری ختم کرنے اور واجبات کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہوئے مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس نوٹس کی اخلاقی و قانونی حیثیت ایک طویل بحث طلب موضوع ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے تو کے ای کے معاون و مددگار یا ماتحت ہیں مگر حکومت یا کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ایسی نہیں ہے جو اس ادارے کے معاملات کو دیکھے۔
پچھلے ہفتے وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے واپڈا کے ڈھائی سو کے قریب نااہل اور کرپٹ افسران و ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا مگر کے ای کے معاملے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں کسی قسم کی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
حکومتی ادارے خود کے ای کے اربوں روپوں کے بلوں کے نادہندہ ہیں بعض حکمرانوں اور سیاستدانوں کے مفادات بھی کے ای کے ساتھ وابستہ ہیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی جماعتیں جن کی اکثریت مختلف ادوار میں حکومت میں رہی ہیں جنھوں نے اس ملک میں ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کی یا ان کی تعمیر میں مجرمانہ قسم کی غفلت برتی، اب پانی و بجلی کی قلت پر عوام کی ہمدردی میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور پوائنٹ اسکورننگ کا ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، حافظے سے محروم قوم کو اپنے ایسے بازیگر مسیحاؤں کا احتساب کرنا چاہیے۔
بجلی و پانی کے بعد امن و امان کی بدتر صورتحال کراچی کے شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے شہر میں دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ، ڈاکے، اغوا، اغوا برائے تاوان ، بھتہ گیری اور دیگر اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں نے طویل عرصے سے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اور سول اداروں کی ناکامی کے بعد ان غیر معمولی حالات میں حکومت سندھ نے صوبے میں رینجرز کو آپریشن کے خصوصی اختیارات دیے تھے جس کے نتیجے میں ان جرائم میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی، شہریوں میں خوف و ہراس کی فضا بھی کافی حد تک کم ہوئی۔
رمضان کے ماہ میں دس سال بعد ریکارڈ خریداری ہوئی۔ رینجرز پر شہریوں کا اعتماد اس حد تک بڑھا کہ وہ کراچی الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے محکموں کو بھی رینجرز کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ شہریوں کو رینجرز سے بہت سے تحفظات اور شکایات بھی ہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، شہریوں کے مابین معاملات و تنازعات میں دخل اندازی کرتے ہیں اس کے بعض اہلکار ماورائے عدالت قتل میں بھی ملوث رہے ہیں۔
بے گناہ شہریوں کو گرفتار اور لاپتہ کردیتے ہیں بعض کو بے گناہ ہونے پر ہفتوں بعد چھوڑ دیاجاتا ہے اس دوران ان کے اہل خانہ عذاب و اذیت میں مبتلا رہتے ہیں یا پھر یہ گرفتار افراد کو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں جو انھیں ناحق مقدمات میں ملوث کردیتی ہے۔ کے ای کو رینجرز کے حوالے کرنے والے شہری جب کے ای کی گاڑیوں کے پیچھے گشت کرتا دیکھتے ہیں تو کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرتے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے رینجرز کی مخالفت یا الزامات تو سیاسی یا مفاداتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
لیکن عوامی شکایات کا رینجرز کے اعلیٰ حکام کو جائزہ لے کر ان کا ازالہ کرنا چاہیے، اس سلسلے میں محکمہ جاتی چیک اینڈ بیلنس کا کڑا نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی غیر ذمے دار اہلکار اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ادارے کی شہرت کو داغدار نہ کرسکے، چھاپوں اور گرفتاریوں کا عمل شفاف اور کسی شک و شبے سے بالاتر ہونا چاہیے تاکہ اسے شہریوں کا بھرپور اور حقیقی اعتماد و تعاون میسر آئے اور ادارے کا وقار اور احترام قائم رہے۔
دیگر لاتعداد مسائل کے علاوہ بجلی، پانی اور امن و امان کے مسئلے کراچی کے شہریوں کے لیے جان لیوا بنے ہوئے ہیں، جن سے ہر شہری بری طرح متاثر ہے۔ کراچی شہر کو بجلی کی فراہمی کا ادارہ کراچی الیکٹرک کی نااہلی، لوٹ مار اور ناقص منصوبہ بندی، طاقتور حلقوں کی جانب سے بجلی کی چوری اور حکومتی اداروں کی طرف سے بلوں کی عدم ادائیگی، بجلی چوری کی رقم کی عام شہریوں سے وصولی اور اس کی سزا میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے نرخوں کی شرح میں بیش بہا اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
لوڈشیڈنگ سے جاں بہ لب، اشتعال اور ذہنی ہیجان کے شکار شہری، شہر کی مختلف شاہراہوں پر آکر توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور گاڑیوں پر پتھروں کے عادی ہوچکے ہیں، جن سے عام شہری مزید مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے مابین مارپیٹ کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے اور افطار، سحر اور تراویح کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا اعلان بھی ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گیا۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی شدید گرمی میں کے الیکٹرک کی نااہلی اور سنگدلی کی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار سے زائد انسانی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ گھروں پر انتقال کر جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے، قبرستانوں میں قبریں ملنا مشکل ہوگئیں، ان کے نرخوں میں بھی خوب بلیک مارکیٹنگ کی گئی، گورکنوں اور مزدوروں کو منت سماجت کرکے منہ مانگے دام ادا کرکے قبریں تیار کروائی گئیں۔
شہری سن اسٹروک کے شکار مریضوں کو ایمبولینسوں میں لے کر اسپتالوں کے چکر لگاتے رہے مگر اسپتالوں میں مریضوں کے لیے گنجائش نہ تھی۔ یہ صورتحال کئی دنوں تک جاری رہی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے خدانخواستہ کسی قدرتی آفت کی صورتحال میں شہر اور شہریوں کی کیا درگت بن سکتی ہے۔ شدید گرمی اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھروں کے اے سی، فریج، ڈیپ فریزر اور دیگر برقی آلات نے کام چھوڑ دیا۔ اے سی، فریج، روم کولر اور ڈیپ فریزر کی اربوں روپوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی، بلیک مارکیٹنگ بھی کھل کر ہوئی اس کے علاوہ علاج معالجہ اور دیگر اشیا کی خرابی اور اوقات کار کے ضیاع اور پیداواری عمل کے تعطل سے جو نقصان پہنچا اس کی مالیت شاید کھربوں روپے تک ہو۔
دنیا کے مہذب ممالک میں اگر بغیر پیشگی نوٹس چند منٹوں کے لیے بھی بجلی غائب ہوجائے تو معذرت نامے کے ساتھ کہ آپ کو ذہنی کوفت برداشت کرنا پڑی، کمپنسیشن یعنی زرتلافی یا معاوضہ بل کے ساتھ ہی ادا کردیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی کراچی میں ہلاکتوں کا ذمے دار کے ای کو قرار دیا ہے یہی موقف ہمارے حکومتی ارکان، حزب اختلاف کے رہنماؤں اور عام شہریوں کا بھی ہے لیکن اس کے باوجود کے ای کسی تادیبی کارروائی سے مبرا ہے۔
اس ادارے کو اپنی نااہلی و ناقص کارکردگی یا مجرمانہ غفلت پر کسی قسم کی ندامت یا شرمندگی نہیں ہے بلکہ نمایندوں کے بیانات دھمکی آمیز اور وضاحتیں عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی کے ای کے نمایندوں کی گفتگو بعض متحارب و مشتعل سیاسی رہنماؤں کی طرح اشتعال انگیز، دروغ گوئی اور عدم شائستگی پر مبنی ہوتی ہے۔ ادارہ کاپر وائر کی جگہ المونیم وائر استعمال کر رہا ہے۔
جس سے لائن لاسز اور فالٹ کی شرح میں بڑی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، المونیم کی تاریں ٹوٹنے اور جل جانے پر گھنٹوں نہیں بلکہ بعض مرتبہ کئی دنوں تک سپلائی بحال نہیں کی جاتی، ادارہ اوور بلنگ بھی کرتا ہے، بڑے بجلی چوروں کی ریکوری بل ادا کرنے والے شہریوں سے کرتا ہے، پھر اس کی پاداش میں انھیں لوڈشیڈنگ کی اذیت سے بھی دوچار کرتا ہے، بجلی کی تیاری کے لیے گیس اور سستا فرنس آئل اور اربوں روپوں کی حکومتی سبسڈی کے باوجود اس ادارے کی کارکردگی روز افزوں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔
لیکن جائز و ناجائز طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرنے میں یہ ادارہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ہے۔مئی 2015 میں اس ادارے نے بجلی چوری اور بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف ''آپریشن برق'' شروع کیا ہوا ہے جس کے تحت کے ای کی لاؤڈ اسپیکر سے مزین گاڑیوں کی قطاریں جن کے پیچھے رینجرز کی گاڑیاں بھی چل رہی ہوتی ہیں مختلف شاہراہوں پر بجلی چوروں اور بل نادہندگان کے خلاف کارروائیوں کے اعلانات کرتی پھرتی ہیں۔ اب تو بجلی کے بلوں کے ساتھ اردو میں ایک نوٹس بھی منسلک کرکے بھیجا جا رہا ہے جس میں تحریر ہے کہ کے ای کا عملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بجلی چوروں اور بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے گا۔
یہ نوٹس جو عام اور قانون پسند شہریوں کو بھیجا جا رہا ہے اس میں تحریر ہے کہ یہ نوٹس بجلی چوروں کے لیے ایک انتباہ ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بجلی چوری میں ملوث صارفین، انفرادی اشخاص، اداروں کی نشاندہی کرنے اور اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے میں کے ای کی مدد کرتے رہیں گے اور یہ کہ امید کرتے ہیں کہ صارفین چوری ختم کرنے اور واجبات کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہوئے مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس نوٹس کی اخلاقی و قانونی حیثیت ایک طویل بحث طلب موضوع ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے تو کے ای کے معاون و مددگار یا ماتحت ہیں مگر حکومت یا کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ایسی نہیں ہے جو اس ادارے کے معاملات کو دیکھے۔
پچھلے ہفتے وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے واپڈا کے ڈھائی سو کے قریب نااہل اور کرپٹ افسران و ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا مگر کے ای کے معاملے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں کسی قسم کی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
حکومتی ادارے خود کے ای کے اربوں روپوں کے بلوں کے نادہندہ ہیں بعض حکمرانوں اور سیاستدانوں کے مفادات بھی کے ای کے ساتھ وابستہ ہیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی جماعتیں جن کی اکثریت مختلف ادوار میں حکومت میں رہی ہیں جنھوں نے اس ملک میں ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کی یا ان کی تعمیر میں مجرمانہ قسم کی غفلت برتی، اب پانی و بجلی کی قلت پر عوام کی ہمدردی میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور پوائنٹ اسکورننگ کا ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، حافظے سے محروم قوم کو اپنے ایسے بازیگر مسیحاؤں کا احتساب کرنا چاہیے۔
بجلی و پانی کے بعد امن و امان کی بدتر صورتحال کراچی کے شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے شہر میں دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ، ڈاکے، اغوا، اغوا برائے تاوان ، بھتہ گیری اور دیگر اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں نے طویل عرصے سے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اور سول اداروں کی ناکامی کے بعد ان غیر معمولی حالات میں حکومت سندھ نے صوبے میں رینجرز کو آپریشن کے خصوصی اختیارات دیے تھے جس کے نتیجے میں ان جرائم میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی، شہریوں میں خوف و ہراس کی فضا بھی کافی حد تک کم ہوئی۔
رمضان کے ماہ میں دس سال بعد ریکارڈ خریداری ہوئی۔ رینجرز پر شہریوں کا اعتماد اس حد تک بڑھا کہ وہ کراچی الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے محکموں کو بھی رینجرز کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ شہریوں کو رینجرز سے بہت سے تحفظات اور شکایات بھی ہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، شہریوں کے مابین معاملات و تنازعات میں دخل اندازی کرتے ہیں اس کے بعض اہلکار ماورائے عدالت قتل میں بھی ملوث رہے ہیں۔
بے گناہ شہریوں کو گرفتار اور لاپتہ کردیتے ہیں بعض کو بے گناہ ہونے پر ہفتوں بعد چھوڑ دیاجاتا ہے اس دوران ان کے اہل خانہ عذاب و اذیت میں مبتلا رہتے ہیں یا پھر یہ گرفتار افراد کو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں جو انھیں ناحق مقدمات میں ملوث کردیتی ہے۔ کے ای کو رینجرز کے حوالے کرنے والے شہری جب کے ای کی گاڑیوں کے پیچھے گشت کرتا دیکھتے ہیں تو کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرتے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے رینجرز کی مخالفت یا الزامات تو سیاسی یا مفاداتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
لیکن عوامی شکایات کا رینجرز کے اعلیٰ حکام کو جائزہ لے کر ان کا ازالہ کرنا چاہیے، اس سلسلے میں محکمہ جاتی چیک اینڈ بیلنس کا کڑا نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی غیر ذمے دار اہلکار اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ادارے کی شہرت کو داغدار نہ کرسکے، چھاپوں اور گرفتاریوں کا عمل شفاف اور کسی شک و شبے سے بالاتر ہونا چاہیے تاکہ اسے شہریوں کا بھرپور اور حقیقی اعتماد و تعاون میسر آئے اور ادارے کا وقار اور احترام قائم رہے۔