ترے سامنے آسماں اور ہیں
انسانی تاریخ کاایک عظیم الشان واقعہ ’’ناسا‘‘ کے عظیم سائنس دانوں کا ایک اور حیرت انگیز کارنامہ
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
آدمی ابتدائے آفرینش سے اپنے لیے جستجو کے نئے در کھولتا رہا ہے۔ وہ سفر میں ہے ، ہر دم سفر، کائنات کے رازوں کو جاننے کی آرزو اس کے دل میں جاگتی رہتی ہے، اور وہ منزلوں پر منزل سر کرتا ہو ا زمین و آسمان کی پنہائیوں میں انسانی عظمت کے نقوش ثبت کرتا جاتا ہے۔ یہ ہزاروں لاکھوں سال کے سفر کی داستان ہے، جس کے اندر اس کی بے کراں صلاحیتوں کے امکانات ہر آن حرکت میں رہتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا؎
انسان عظیم ہے خدایا !!
آج کے دور میں اس سفر کے دوران ناسا والے جو حیرت انگیز کمالات دکھا رہے ہیں ، ان کا کوئی ثانی نہیں۔
یہ سب انسان کا اجتماعی ورثہ ہے، جس کے طلسماتی مظاہر ہماری نظروں کے سامنے رقص کررہے ہیں، نسل انسانی کے لیے فخر کے نئے افق روشن کر رہے ہیں۔ پلوٹو تک رسائی کا عمل مکمل ہونے سے اب انسان کی ہمارے نظام شمسی کے تمام نو سیاروں تک رسائی کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔
ناسا مشن کے کمرے میں گہرا سکوت طاری تھا۔ وہاں موجود ہر فرد کی نظریں زیرو کی طرٖف ٹک ٹک کی ردھم کے ساتھ بڑھتی سیکنڈ کی سوئی پر تھیں۔ بے چینی اور اضطراب کی کیفیت اُن کے چہرے سے نمایاں تھی۔ کام یابی اور ناکامی کے درمیان محض چند لمحوں کا فاصلہ حائل تھا۔
''خلائی جہاز پلوٹو کے قریب پہنچ گیا ہے''
نیو ہورائزنز کی جانب سے ملنے والے اس پیغام کو سُن کر ناسا میں بیٹھے سائنس دانوں میں خوشی کی لہر ڈور گئی۔ زمین سے4 ارب70 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے سے آنے والے اس پیغام کو زمین تک پہنچنے میں چار گھنٹے اور 25 منٹ لگے۔ 14جولائی کو ساڑھے نو سال کے سفر اور تقریباً تین ارب میل کا سفر طے کرنے کے بعد 'نیو ہورائزنز' نے زمین سے رابطہ کیا اور وہاں سے تصاویر ارسال کیں۔ سائنس دانوں نے آنسوؤں اور تالیوں کے ساتھ اس خبر کا خیر مقدم کیا۔
ایک خاتون سائنس داں ایلس باؤ مین نے کہا،''آپ اپنے بچوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات وہ بھی آپ کی توقعات پر پورے نہیں اُترتے۔ لیکن نیوہورائزنز نے ہمیں بالکل مایوس نہیں کیا۔ اتنے طویل سفر کے دوران ہمارا یہ خلائی جہاز پوری طرح ''صحت مند '' رہا۔ اور پھر اس نے وقت پر ہمیں پلوٹو کے بارے میں اعداد و شمار اور تصاویر بھیجنا شروع کردیں۔ ہم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔''
نیو ہورائزنز 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 50 منٹ پر پلوٹو کے قریب ترین پہنچا۔ پلوٹو کا نظام شمسی کے آخری سیارے نیو ہورائزنز سے فاصلہ 12500 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ نیوہورائزنز نے تاریخ رقم کرتے ہوئے اس چھوٹے سیارے کے قریب سے گزرتے ہوئے کچھ تصاویر بھی زمین پر بھیجیں۔
''نیو ہورائزنز نے پلوٹو کے سفر کے دوران جو ہزاروں تصاویر اور اعداد و شمار جمع کیے ہیں ، انہیں زمین تک ارسال کرنے میں ابھی سولہ مہینے صرف ہوں گے۔'' نیو ہورائزنز نے کچھ تصاویر زمین پر بھیج کر اپنا رُخ دوبارہ پلوٹو کی طرف موڑ لیا ہے۔ اب یہ پلوٹو کی مزید تصاویر اور سائنسی اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد زمین سے رابطہ کرے گا۔ ہورائزنز کام یابی کے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے پلوٹو کے پانچ چاند ہائیڈرا، کربیروس، نکس، اسٹکس،کیرن کا بھی مشاہدہ کرے گا۔
اس منصوبے کے سربراہ ایلن سٹرن کا کہنا ہے کہ 'ہم نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے جانے والے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے لیے بہت بے چین ہیں۔ ابھی تو ایسا ہی ہے جیسے ہم ایک آبشار کے نیچے کھڑے ہوکر محض اطراف میں پڑنے والی پھوار سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔' اُن کا کہنا ہے کہ اب تک بھیجی گئی تصاویر سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پلوٹو کا حجم ماضی میں کیے گئے اندازوں سے نسبتاً زیادہ ہے۔ اور نیو ہورائزنز کی جانب سے کی گئی پیمائش کے مطابق پلوٹو کا قطر 2370 کلومیٹر ہے۔ نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر میں پلوٹو کے سب سے بڑے چاند کیرن کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
تاہم پلوٹو اور کیرن کی رنگت میں واضح فرق نے سائنس دانوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ کیرن کا رنگ سرخ جب کہ پلوٹو کا رنگ سرمئی ہے۔ نیو ہورائزنز سے حاصل ہونے والی ابتدائی تصاویر میں پلوٹو پر برف کی موجودگی کے بھی شواہد ملے ہیں۔ ایلن سٹرن کے مطابق تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیارے پر شمالی امریکا کے پہاڑی سلسلے راکیز جتنے بلند برفانی پہاڑ موجود ہیں، جب کہ دل کی شکل کا ایک علاقہ بھی ظاہر ہورہا ہے۔ سائنس دانوں نے دل کے نشان والے علاقے کو 1930 میں پلوٹو کو دریافت کرنے والے ماہر طبیعات کے نام پر '' کلائیڈ ٹومبا'' کا نام دیا ہے۔
نیو ہورائزنز مشن کے ایک سائنس دان جان اسپینسر کا کہنا ہے کہ پلوٹو کی سطح کی قریب سے لی گئی تصاویر میں دکھائی دیتا ہے کہ گذشتہ 100 ملین سالوں کے دوران آتش فشانی جیسے ارضیاتی عمل کے نتیجے میں زمینی سلسلہ نمودار ہوا ہے، جب کہ اس تصویر میں ہمیں ایک بھی گڑھا نظر نہیں آیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔
ایلن سٹرن کا کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ایسے چھوٹے سیارے کی معلومات ہیں جو ساڑھے چار ارب برسوں کے بعد کی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے اور نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجی گئی معلومات کی مدد سے ہمیں پلوٹو کا ازسرِ نو جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ جان اسپینسر کا کہنا ہے کہ پلوٹو پر میتھین، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن کی وجہ سے وجود میں آنے والی والی برف کی ایک دبیز تہہ ہے، جو اتنی مضبوط نہیں کہ اس سے پہاڑی سلسلہ بن سکے۔
تاہم تصاویر میں ظاہر ہونے والا چار سے چھے میل لمبا ایک شگاف پہاڑی سلسلے کے متحرک ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ ایلس باؤ مین نے کہا 'خلائی جہاز بالکل ٹھیک ہے، ہم نے پلوٹو نظام کی معلومات ریکارڈ کی ہیں اور اب خلائی جہاز پلوٹو نظام سے باہر کی جانب جا رہا ہے۔ تاہم اب تک جو معلومات ملی ہیں وہ صرف انجنیئرنگ کے حوالے سے ہیں اور اس کا مقصد مشن کنٹرول کو مطلع کرنا ہے کہ پلوٹو کے قریب سے سفر مشن کے مطابق ہوا ہے یا نہیں۔ تاہم اب وہ دن دور نہیں جب مریخ اور نظام شمسی کے دوسرے سیارے بھی انسانی دسترس میں آجائیں گے۔
نیو ہورائزنز کے بارے میں چند دل چسپ حقائق
1۔ دنیا کا سب سے تیزرفتار خلائی جہاز
نیو ہورائزنز کو دنیا کا سب سے تیزرفتار خلائی جہاز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 19جنوری2006کو اپنی لانچنگ کے فوراً بعد ہی یہ 58 ہزار536 کلو میٹر فی گھنٹہ (36ہزار373میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے براہ راست زمین اور سورج کے مدار سے نکل گیا تھا۔
2۔پلوٹو کے قریب ترین پہنچنے والا پہلا خلائی جہاز
دو دسمبر 2011تک Voyager 1 کو پلوٹو کے قریب ترین رسائی حاصل کرنے والے خلائی جہاز کا اعزاز حاصل تھا۔ تاہم اب یہ اعزاز نیو ہورائزنز کو حاصل ہے۔
3۔خلا کا طویل ترین سفر
اپنی لانچنگ کے بعد 14جولائی 2015تک نیو ہورائزنز نے 3462دن سفر کیا۔ اس عرصے میں نیو ہورائزنز نے 4ارب76کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ فاصلہ زمین اور سورج کے گرد 32چکر لگانے کے برابر ہے۔ نیو ہورائزنزپلوٹو کا قریب ترین مشاہدہ کرنے والا پہلا خلائی جہاز بن گیا ہے۔ یہ نظام شمسی کے نویں سیارے کا مزید کئی ہفتے مشاہدہ کرے گا۔
4۔غیر دریافت شدہ چاند یا کسی شہابِِ ثاقب سے ٹکراؤ کا امکان
پلوٹو کے مدار میں اس وقت 5چاند ہیں، جن میں سے تین کو حالیہ چند برسوں میں دریافت کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کو اس بات کا خطرہ بھی لاحق ہے کہ پلوٹو کے مدار میں چھُپا ہوا کوئی چاند یا شہاب ثاقب نیو ہورائزنز سے متصادم ہوکر اس مشن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
5 ۔ جوہری ایندھن پر چلنے والا خلائی جہاز
زیادہ تر خلائی جہاز آن بورڈ سسٹم کے لیے شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں، لیکن سورج سے 4 ارب میل کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی پر انحصار کرنے والے خلائی جہاز کا پلوٹو تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نیو ہورائزنز جوہری ایندھن پلوٹونیم پر چل رہا ہے۔ نیو ہورائزنز پر 2020 تک سفر کے لیے پلوٹونیم موجود ہے۔
نیو ہورائزنز میں استعمال کیے گئے خصوصی آلات
خلائی جہازوں میں اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے آلات کا استعمال بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ نیوہورائزنز کی تیاری کے وقت سائنس دانوں کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔
وہ جاننا چاہتے تھے کہ پلوٹو کا ماحول، اس کا برتاؤ کیسا ہے؟ اس کی سطح کیسی دکھائی دیتی ہے؟ پلوٹو کا جغرافیائی ڈھانچا کیسا ہے؟ سورج سے خارج ہونے والے ذرات (شمسی ہوا) کے ماحول کے ساتھ کس طرح ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ ان تمام سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نیو ہورائزنز ی ٹیم نے ایسے آلات کو منتخب کیا جو نہ صرف ناسا کے تمام اہداف کو پورا کریں بل کہ مشن کے دوران اگر ایک انسٹرومنٹ (آلہ) خراب ہوجائے تو اسے بیک اپ بھی فراہم کریں۔ اپنی نوعیت کے اس واحد اور اہم ترین مشن کے لیے ناسا نے نیو ہورائزنز کو سات اہم آلات سے لیس کیا۔
٭Ralph
یہ رنگ اور ساخت کے ساتھ تھرمل (حرارتی) نقشے فراہم کرنے والا ایک ویزیبل اور انفرا ریڈ امیجر (برقی ڈیوائس جو کسی شے کی تصاویر ریکارڈ کرے)، اسپیکٹرومیٹر انسٹرومنٹ ہے۔
٭Alice
پلوٹو کے ماحول کے ڈھانچے اور ساخت کا تجزیہ کرنے والا بالائے بنفشی امیجنگ اسپیکٹرومیٹر، یہ آلہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاندCharon اور Kuiperبیلٹ آبجیکٹس (نظام شمسی میں سیاروں کے درمیان بکھری اشیاء) کا بھی تجزیہ کررہا ہے۔
٭REX
ریکس (ریڈیو سائنس ایکسپیریمینٹ) انسٹرومنٹ کرۂ ہوائی کی ساخت، درجۂ حرارت کی پیمائش کرنے کا اہل ہے۔
٭LORRI
لوری (لانگ رینج ری کانیسینس امیجر) ایک ٹیلی اسکوپک (دوربینی) کیمرا ہے، جو طویل فاصلے سے ڈیٹا حاصل کرنے، پلوٹو کا نقشہ بنانے اور ہائی ریزولیشن جغرافیائی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
٭SWAP
سولر ونڈ اراؤنڈ پلوٹو کے نام سے تیار کیے گئے اس خصوصی آلے کا کام پلوٹو کا شمسی ہوا (سولر ونڈ) کے ساتھ ردعمل کا مشاہدہ اور ایٹموسفیرک 'اسکیپ ریٹ' کی پیمائش کرنا ہے۔
٭PEPSSI
پلوٹوانرجیٹک پارٹیکل اسپیکٹرومیٹر سائنس انویسٹی گیشن انسٹرومنٹ پلوٹو کی فضا سے خارج ہونے پلازما (آئن) کی کثافت اور ساخت کی پیمائش کرتا ہے۔
٭SDC
اسٹوڈینٹ ڈسٹ کاؤنٹر کے نام سے بنائے گئے اس انسٹرومنٹ کو تیار بھی طلبا نے کیا تھا اور اسے آپریٹ بھی طلبا ہی کرتے ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کا بنیادی مقصد نظام شمسی میں سفر کے دوران خلا میں سفر کے دوران نیوہورائزنز پر لگنے والی خلائی دھول کی پیمائش کرنا ہے۔
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
آدمی ابتدائے آفرینش سے اپنے لیے جستجو کے نئے در کھولتا رہا ہے۔ وہ سفر میں ہے ، ہر دم سفر، کائنات کے رازوں کو جاننے کی آرزو اس کے دل میں جاگتی رہتی ہے، اور وہ منزلوں پر منزل سر کرتا ہو ا زمین و آسمان کی پنہائیوں میں انسانی عظمت کے نقوش ثبت کرتا جاتا ہے۔ یہ ہزاروں لاکھوں سال کے سفر کی داستان ہے، جس کے اندر اس کی بے کراں صلاحیتوں کے امکانات ہر آن حرکت میں رہتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا؎
انسان عظیم ہے خدایا !!
آج کے دور میں اس سفر کے دوران ناسا والے جو حیرت انگیز کمالات دکھا رہے ہیں ، ان کا کوئی ثانی نہیں۔
یہ سب انسان کا اجتماعی ورثہ ہے، جس کے طلسماتی مظاہر ہماری نظروں کے سامنے رقص کررہے ہیں، نسل انسانی کے لیے فخر کے نئے افق روشن کر رہے ہیں۔ پلوٹو تک رسائی کا عمل مکمل ہونے سے اب انسان کی ہمارے نظام شمسی کے تمام نو سیاروں تک رسائی کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔
ناسا مشن کے کمرے میں گہرا سکوت طاری تھا۔ وہاں موجود ہر فرد کی نظریں زیرو کی طرٖف ٹک ٹک کی ردھم کے ساتھ بڑھتی سیکنڈ کی سوئی پر تھیں۔ بے چینی اور اضطراب کی کیفیت اُن کے چہرے سے نمایاں تھی۔ کام یابی اور ناکامی کے درمیان محض چند لمحوں کا فاصلہ حائل تھا۔
''خلائی جہاز پلوٹو کے قریب پہنچ گیا ہے''
نیو ہورائزنز کی جانب سے ملنے والے اس پیغام کو سُن کر ناسا میں بیٹھے سائنس دانوں میں خوشی کی لہر ڈور گئی۔ زمین سے4 ارب70 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے سے آنے والے اس پیغام کو زمین تک پہنچنے میں چار گھنٹے اور 25 منٹ لگے۔ 14جولائی کو ساڑھے نو سال کے سفر اور تقریباً تین ارب میل کا سفر طے کرنے کے بعد 'نیو ہورائزنز' نے زمین سے رابطہ کیا اور وہاں سے تصاویر ارسال کیں۔ سائنس دانوں نے آنسوؤں اور تالیوں کے ساتھ اس خبر کا خیر مقدم کیا۔
ایک خاتون سائنس داں ایلس باؤ مین نے کہا،''آپ اپنے بچوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات وہ بھی آپ کی توقعات پر پورے نہیں اُترتے۔ لیکن نیوہورائزنز نے ہمیں بالکل مایوس نہیں کیا۔ اتنے طویل سفر کے دوران ہمارا یہ خلائی جہاز پوری طرح ''صحت مند '' رہا۔ اور پھر اس نے وقت پر ہمیں پلوٹو کے بارے میں اعداد و شمار اور تصاویر بھیجنا شروع کردیں۔ ہم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔''
نیو ہورائزنز 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 50 منٹ پر پلوٹو کے قریب ترین پہنچا۔ پلوٹو کا نظام شمسی کے آخری سیارے نیو ہورائزنز سے فاصلہ 12500 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ نیوہورائزنز نے تاریخ رقم کرتے ہوئے اس چھوٹے سیارے کے قریب سے گزرتے ہوئے کچھ تصاویر بھی زمین پر بھیجیں۔
''نیو ہورائزنز نے پلوٹو کے سفر کے دوران جو ہزاروں تصاویر اور اعداد و شمار جمع کیے ہیں ، انہیں زمین تک ارسال کرنے میں ابھی سولہ مہینے صرف ہوں گے۔'' نیو ہورائزنز نے کچھ تصاویر زمین پر بھیج کر اپنا رُخ دوبارہ پلوٹو کی طرف موڑ لیا ہے۔ اب یہ پلوٹو کی مزید تصاویر اور سائنسی اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد زمین سے رابطہ کرے گا۔ ہورائزنز کام یابی کے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے پلوٹو کے پانچ چاند ہائیڈرا، کربیروس، نکس، اسٹکس،کیرن کا بھی مشاہدہ کرے گا۔
اس منصوبے کے سربراہ ایلن سٹرن کا کہنا ہے کہ 'ہم نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے جانے والے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے لیے بہت بے چین ہیں۔ ابھی تو ایسا ہی ہے جیسے ہم ایک آبشار کے نیچے کھڑے ہوکر محض اطراف میں پڑنے والی پھوار سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔' اُن کا کہنا ہے کہ اب تک بھیجی گئی تصاویر سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پلوٹو کا حجم ماضی میں کیے گئے اندازوں سے نسبتاً زیادہ ہے۔ اور نیو ہورائزنز کی جانب سے کی گئی پیمائش کے مطابق پلوٹو کا قطر 2370 کلومیٹر ہے۔ نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر میں پلوٹو کے سب سے بڑے چاند کیرن کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
تاہم پلوٹو اور کیرن کی رنگت میں واضح فرق نے سائنس دانوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ کیرن کا رنگ سرخ جب کہ پلوٹو کا رنگ سرمئی ہے۔ نیو ہورائزنز سے حاصل ہونے والی ابتدائی تصاویر میں پلوٹو پر برف کی موجودگی کے بھی شواہد ملے ہیں۔ ایلن سٹرن کے مطابق تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیارے پر شمالی امریکا کے پہاڑی سلسلے راکیز جتنے بلند برفانی پہاڑ موجود ہیں، جب کہ دل کی شکل کا ایک علاقہ بھی ظاہر ہورہا ہے۔ سائنس دانوں نے دل کے نشان والے علاقے کو 1930 میں پلوٹو کو دریافت کرنے والے ماہر طبیعات کے نام پر '' کلائیڈ ٹومبا'' کا نام دیا ہے۔
نیو ہورائزنز مشن کے ایک سائنس دان جان اسپینسر کا کہنا ہے کہ پلوٹو کی سطح کی قریب سے لی گئی تصاویر میں دکھائی دیتا ہے کہ گذشتہ 100 ملین سالوں کے دوران آتش فشانی جیسے ارضیاتی عمل کے نتیجے میں زمینی سلسلہ نمودار ہوا ہے، جب کہ اس تصویر میں ہمیں ایک بھی گڑھا نظر نہیں آیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔
ایلن سٹرن کا کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ایسے چھوٹے سیارے کی معلومات ہیں جو ساڑھے چار ارب برسوں کے بعد کی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے اور نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجی گئی معلومات کی مدد سے ہمیں پلوٹو کا ازسرِ نو جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ جان اسپینسر کا کہنا ہے کہ پلوٹو پر میتھین، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن کی وجہ سے وجود میں آنے والی والی برف کی ایک دبیز تہہ ہے، جو اتنی مضبوط نہیں کہ اس سے پہاڑی سلسلہ بن سکے۔
تاہم تصاویر میں ظاہر ہونے والا چار سے چھے میل لمبا ایک شگاف پہاڑی سلسلے کے متحرک ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ ایلس باؤ مین نے کہا 'خلائی جہاز بالکل ٹھیک ہے، ہم نے پلوٹو نظام کی معلومات ریکارڈ کی ہیں اور اب خلائی جہاز پلوٹو نظام سے باہر کی جانب جا رہا ہے۔ تاہم اب تک جو معلومات ملی ہیں وہ صرف انجنیئرنگ کے حوالے سے ہیں اور اس کا مقصد مشن کنٹرول کو مطلع کرنا ہے کہ پلوٹو کے قریب سے سفر مشن کے مطابق ہوا ہے یا نہیں۔ تاہم اب وہ دن دور نہیں جب مریخ اور نظام شمسی کے دوسرے سیارے بھی انسانی دسترس میں آجائیں گے۔
نیو ہورائزنز کے بارے میں چند دل چسپ حقائق
1۔ دنیا کا سب سے تیزرفتار خلائی جہاز
نیو ہورائزنز کو دنیا کا سب سے تیزرفتار خلائی جہاز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 19جنوری2006کو اپنی لانچنگ کے فوراً بعد ہی یہ 58 ہزار536 کلو میٹر فی گھنٹہ (36ہزار373میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے براہ راست زمین اور سورج کے مدار سے نکل گیا تھا۔
2۔پلوٹو کے قریب ترین پہنچنے والا پہلا خلائی جہاز
دو دسمبر 2011تک Voyager 1 کو پلوٹو کے قریب ترین رسائی حاصل کرنے والے خلائی جہاز کا اعزاز حاصل تھا۔ تاہم اب یہ اعزاز نیو ہورائزنز کو حاصل ہے۔
3۔خلا کا طویل ترین سفر
اپنی لانچنگ کے بعد 14جولائی 2015تک نیو ہورائزنز نے 3462دن سفر کیا۔ اس عرصے میں نیو ہورائزنز نے 4ارب76کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ فاصلہ زمین اور سورج کے گرد 32چکر لگانے کے برابر ہے۔ نیو ہورائزنزپلوٹو کا قریب ترین مشاہدہ کرنے والا پہلا خلائی جہاز بن گیا ہے۔ یہ نظام شمسی کے نویں سیارے کا مزید کئی ہفتے مشاہدہ کرے گا۔
4۔غیر دریافت شدہ چاند یا کسی شہابِِ ثاقب سے ٹکراؤ کا امکان
پلوٹو کے مدار میں اس وقت 5چاند ہیں، جن میں سے تین کو حالیہ چند برسوں میں دریافت کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کو اس بات کا خطرہ بھی لاحق ہے کہ پلوٹو کے مدار میں چھُپا ہوا کوئی چاند یا شہاب ثاقب نیو ہورائزنز سے متصادم ہوکر اس مشن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
5 ۔ جوہری ایندھن پر چلنے والا خلائی جہاز
زیادہ تر خلائی جہاز آن بورڈ سسٹم کے لیے شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں، لیکن سورج سے 4 ارب میل کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی پر انحصار کرنے والے خلائی جہاز کا پلوٹو تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نیو ہورائزنز جوہری ایندھن پلوٹونیم پر چل رہا ہے۔ نیو ہورائزنز پر 2020 تک سفر کے لیے پلوٹونیم موجود ہے۔
نیو ہورائزنز میں استعمال کیے گئے خصوصی آلات
خلائی جہازوں میں اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے آلات کا استعمال بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ نیوہورائزنز کی تیاری کے وقت سائنس دانوں کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔
وہ جاننا چاہتے تھے کہ پلوٹو کا ماحول، اس کا برتاؤ کیسا ہے؟ اس کی سطح کیسی دکھائی دیتی ہے؟ پلوٹو کا جغرافیائی ڈھانچا کیسا ہے؟ سورج سے خارج ہونے والے ذرات (شمسی ہوا) کے ماحول کے ساتھ کس طرح ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ ان تمام سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نیو ہورائزنز ی ٹیم نے ایسے آلات کو منتخب کیا جو نہ صرف ناسا کے تمام اہداف کو پورا کریں بل کہ مشن کے دوران اگر ایک انسٹرومنٹ (آلہ) خراب ہوجائے تو اسے بیک اپ بھی فراہم کریں۔ اپنی نوعیت کے اس واحد اور اہم ترین مشن کے لیے ناسا نے نیو ہورائزنز کو سات اہم آلات سے لیس کیا۔
٭Ralph
یہ رنگ اور ساخت کے ساتھ تھرمل (حرارتی) نقشے فراہم کرنے والا ایک ویزیبل اور انفرا ریڈ امیجر (برقی ڈیوائس جو کسی شے کی تصاویر ریکارڈ کرے)، اسپیکٹرومیٹر انسٹرومنٹ ہے۔
٭Alice
پلوٹو کے ماحول کے ڈھانچے اور ساخت کا تجزیہ کرنے والا بالائے بنفشی امیجنگ اسپیکٹرومیٹر، یہ آلہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاندCharon اور Kuiperبیلٹ آبجیکٹس (نظام شمسی میں سیاروں کے درمیان بکھری اشیاء) کا بھی تجزیہ کررہا ہے۔
٭REX
ریکس (ریڈیو سائنس ایکسپیریمینٹ) انسٹرومنٹ کرۂ ہوائی کی ساخت، درجۂ حرارت کی پیمائش کرنے کا اہل ہے۔
٭LORRI
لوری (لانگ رینج ری کانیسینس امیجر) ایک ٹیلی اسکوپک (دوربینی) کیمرا ہے، جو طویل فاصلے سے ڈیٹا حاصل کرنے، پلوٹو کا نقشہ بنانے اور ہائی ریزولیشن جغرافیائی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
٭SWAP
سولر ونڈ اراؤنڈ پلوٹو کے نام سے تیار کیے گئے اس خصوصی آلے کا کام پلوٹو کا شمسی ہوا (سولر ونڈ) کے ساتھ ردعمل کا مشاہدہ اور ایٹموسفیرک 'اسکیپ ریٹ' کی پیمائش کرنا ہے۔
٭PEPSSI
پلوٹوانرجیٹک پارٹیکل اسپیکٹرومیٹر سائنس انویسٹی گیشن انسٹرومنٹ پلوٹو کی فضا سے خارج ہونے پلازما (آئن) کی کثافت اور ساخت کی پیمائش کرتا ہے۔
٭SDC
اسٹوڈینٹ ڈسٹ کاؤنٹر کے نام سے بنائے گئے اس انسٹرومنٹ کو تیار بھی طلبا نے کیا تھا اور اسے آپریٹ بھی طلبا ہی کرتے ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کا بنیادی مقصد نظام شمسی میں سفر کے دوران خلا میں سفر کے دوران نیوہورائزنز پر لگنے والی خلائی دھول کی پیمائش کرنا ہے۔