عید سیزن میں70ارب روپے کی فروخت کا دعویٰ
پہلی بار250بازار رمضان کے دوسرے عشرے سے ہی رات بھرکھلے رہے،آل کراچی تاجراتحاد
شہر میں برسوں کے بعد امن کی بہار سے عیدالفطر پر شہریوں کی خوشیوں کے پھول کھل گئے، کراچی میں عید کی خریداری کا گزشتہ 10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، بازاروں میں گہما گہمی، چہل پہل اور رونقیں قابلِ دید رہیں، عوام کے ہجوم بازاروں میں امڈ آئے اور فیملی کے ہمراہ خریداری اور تفریح کا بھرپور لطف اٹھایا، بازاروں میں میلے کا سماں پیدا ہوگیا، مردوں عورتوں اور بچوں کے ملبوسات کی خریداری عروج پر رہی، تجارتی مراکز افطار سے سحری تک جگمگاتے رہے۔
یہ بات آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے رمضان المبارک میں امن و امان کی بہتر صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے خصوصی طور پر رینجرز اور دیگر حفاظتی اداروں کے ذمے داران کو قابل تحسین انتظامات پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اہلیان شہر رونقوں کی صورت میں رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقع پر امن کی بہار کا پھل کھا رہے ہیں۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی سیکیورٹی انتظامات میں بہتری رہی تو معاشی حب اور عروس البلاد کراچی کو اس کی حقیقی شناخت واپس مل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ماضی میں آخری عشرے میں افطار کے بعد کھلنے والے بازار دوسرے عشرے میں ہی کھلنا شروع ہو گئے جس سے عید کی روایتی خریداری کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، مارکیٹوں میں گہما گہمی سے شہری خوف کے ماحول سے باہر نکل آئے اور رونقیں بحال ہو گئیں۔
انھوں نے کہا کہ خریداروں کا جوش و جذبہ قابل دید تھا، مارکیٹوں میں توقع سے زیادہ رش کے باعث کئی بازاروں میں ٹریفک کے تحت کیے گئے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، پتھاروں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ اور عارضی طور پر لگائے گئے اسٹالز بھی سج گئے۔
انھوں نے کہا کہ رواں سال عید سیزن سیل کیلیے تاجروں نے تقریباً 90ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ شہریوں نے 70ارب روپے کی خریداری کی، شہر کے 25 مقامات پر 250 سے زائد بازار رمضان المبارک کے پہلے عشرے سے ہی کھلنا شروع ہوگئے جس سے عید نائٹ شاپنگ کی رونقیں بحال ہوگئیں، کلفٹن، ڈیفنس، بہادر آباد، طارق روڈ، صدر، اللہ والا مارکیٹ، جامع کلاتھ، جوبلی کلاتھ مارکیٹ، موتن داس، گل پلازہ، لیاقت آباد، حیدری مارکیٹ، ناظم آباد اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں خریداروں کی توجہ کا مرکز رہیں۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا عید تہوار منایا جاتا ہے، مقامی تجارت کے علاوہ عید اور عید کے فوری بعد شادیوں کے سیزن کیلیے 25 تا 30ارب روپے کا مال ملک کے مختلف شہروں سے منگوایا جاتا ہے جن میں ریڈی میڈ گارمنٹس، کپڑوں پر کڑھائی، جوتے، ہوزری، چوڑیاں، کاسمیٹکس، فرنیچر، پردے، آرائش کا سامان، ہینڈ میڈ کارپٹ، خواتین کے پرس، مہندی، مختلف اقسام کا کپڑا، کھلونے، کراکری، آرٹیفیشل جیولری اور دیگر سامان شامل ہے، 2 کروڑ سے زائد عوام اپنے وسائل کے مطابق عید الفطر منانے کا اہتمام کرتے ہیں، عید کی خوشیوں میں 80فیصد حصہ عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کے اہتمام کا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کمتر وسائل اور متوسط طبقے کے افراد کم ازکم 500روپے تا 5000روپے فی کس جبکہ پوش گھرانوں کے افراد اوسطاً 50 ہزار روپے تا 1لاکھ روپے فی کس تک خرچ کرتے ہیں، پسماندگی کا شکار30فیصد افراد عید پر نئے کپڑے سلوانے کی سکت نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی خراب صورتحال سے تاجروں اور خریداروں کیلیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں، اکثر خریداروں کو خریداری کیے بغیر ہی گھر واپس لوٹنا پڑا۔
یہ بات آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے رمضان المبارک میں امن و امان کی بہتر صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے خصوصی طور پر رینجرز اور دیگر حفاظتی اداروں کے ذمے داران کو قابل تحسین انتظامات پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اہلیان شہر رونقوں کی صورت میں رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقع پر امن کی بہار کا پھل کھا رہے ہیں۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی سیکیورٹی انتظامات میں بہتری رہی تو معاشی حب اور عروس البلاد کراچی کو اس کی حقیقی شناخت واپس مل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ماضی میں آخری عشرے میں افطار کے بعد کھلنے والے بازار دوسرے عشرے میں ہی کھلنا شروع ہو گئے جس سے عید کی روایتی خریداری کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، مارکیٹوں میں گہما گہمی سے شہری خوف کے ماحول سے باہر نکل آئے اور رونقیں بحال ہو گئیں۔
انھوں نے کہا کہ خریداروں کا جوش و جذبہ قابل دید تھا، مارکیٹوں میں توقع سے زیادہ رش کے باعث کئی بازاروں میں ٹریفک کے تحت کیے گئے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، پتھاروں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ اور عارضی طور پر لگائے گئے اسٹالز بھی سج گئے۔
انھوں نے کہا کہ رواں سال عید سیزن سیل کیلیے تاجروں نے تقریباً 90ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ شہریوں نے 70ارب روپے کی خریداری کی، شہر کے 25 مقامات پر 250 سے زائد بازار رمضان المبارک کے پہلے عشرے سے ہی کھلنا شروع ہوگئے جس سے عید نائٹ شاپنگ کی رونقیں بحال ہوگئیں، کلفٹن، ڈیفنس، بہادر آباد، طارق روڈ، صدر، اللہ والا مارکیٹ، جامع کلاتھ، جوبلی کلاتھ مارکیٹ، موتن داس، گل پلازہ، لیاقت آباد، حیدری مارکیٹ، ناظم آباد اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں خریداروں کی توجہ کا مرکز رہیں۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا عید تہوار منایا جاتا ہے، مقامی تجارت کے علاوہ عید اور عید کے فوری بعد شادیوں کے سیزن کیلیے 25 تا 30ارب روپے کا مال ملک کے مختلف شہروں سے منگوایا جاتا ہے جن میں ریڈی میڈ گارمنٹس، کپڑوں پر کڑھائی، جوتے، ہوزری، چوڑیاں، کاسمیٹکس، فرنیچر، پردے، آرائش کا سامان، ہینڈ میڈ کارپٹ، خواتین کے پرس، مہندی، مختلف اقسام کا کپڑا، کھلونے، کراکری، آرٹیفیشل جیولری اور دیگر سامان شامل ہے، 2 کروڑ سے زائد عوام اپنے وسائل کے مطابق عید الفطر منانے کا اہتمام کرتے ہیں، عید کی خوشیوں میں 80فیصد حصہ عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کے اہتمام کا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کمتر وسائل اور متوسط طبقے کے افراد کم ازکم 500روپے تا 5000روپے فی کس جبکہ پوش گھرانوں کے افراد اوسطاً 50 ہزار روپے تا 1لاکھ روپے فی کس تک خرچ کرتے ہیں، پسماندگی کا شکار30فیصد افراد عید پر نئے کپڑے سلوانے کی سکت نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی خراب صورتحال سے تاجروں اور خریداروں کیلیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں، اکثر خریداروں کو خریداری کیے بغیر ہی گھر واپس لوٹنا پڑا۔