قوم کی تقسیم در تقسیم
قوم قابل رشک حد تک متحد تو پہلے بھی نہیں تھی، لسانی اور فرقہ وارانہ تضادات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہے ہیں
ملالہ پر حملے کے بعد جو ردعمل سامنے آیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے ہماری بدقسمتی پر مہر لگا دی ہو۔
مشرف دور میں قوم کو تقسیم کرنے کا جو عمل شروع ہوا، اب وہ اتنی منزلیں آگے بڑھ گیا ہے کہ قوم واضح طور پر دو حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ دو حصوں کی اصطلاح میں نے اس مخصوص واقعے کے پس منظر میں لکھی ہے ورنہ قوم دو نہیں کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ قوم قابل رشک حد تک متحد تو پہلے بھی نہیں تھی، لسانی اور فرقہ وارانہ تضادات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہے ہیں لیکن یہ تضادات ہمیشہ محدود رہے ہیں، اپنے حجم میں بھی اور دائرے میں بھی۔ کراچی یا سندھ کے حالات دیکھ لیجیے۔ مہاجر سندھی تضاد ہمیشہ رہا لیکن مشرف کی پالیسیوں نے سندھ کے ان دونوں بڑے لسانی یا نسلی دھڑوں میں اتنی زیادہ دوری پیدا کر دی ہے کہ اب اسے پا ٹنا معرکے کا کام ہوگا۔ فرقہ وارانہ معاملے کو لیجیے تو مخالف مسلک کے لوگوں کی (دوطرفہ) ٹارگٹ کلنک کے واقعات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
مشرف دور ہی میں پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ نازل ہوئی۔ مشرف نے اپنی سیاسی کامیابی کے لیے یا امریکا کی رضامندی کے لیے یا دونوں مقاصد کے لیے پاکستان میں موجود مذہبی اور ترقی پسند عناصر کے درمیان پہلے سے موجود فاصلے کو اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور پہلے سے زیادہ انتہا پسندی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے نے اس تقسیم اور دراڑ کو زیادہ گہرا کر دیا ہے۔
علماء سے آغاز کیجیے تو علما اور مذہبی حلقوں نے بھی ملالہ پر حملے کی مذمت کی ہے لیکن ان کا لہجہ اور آہنگ بالکل وہ نہیں ہے جو عافیہ صدیقی کے لیے تھا یا ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں کے لیے ہے۔ یہی صورتحال ترقی پسندوں کی ہے۔ عافیہ صدیقی کا کیس ہو یا ڈرون حملوں میں شہری اموات، وہ اصولی طور پر مذمت کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل وہی طرز عمل ہے جو مذہبی حلقے کی طرف سے ملالہ کے بارے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ملالہ پر حملے کے بعد یہ تقسیم گہری ہی نہیں ہوئی بلکہ اس میں محاذ آرائی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔
ایک طرف سے یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ چونکہ ملالہ پر حملہ کرنے والے طالبان انتہا پسند ہیں، اس لیے نہ صرف شمالی وزیر ستان بلکہ ملک بھر میں فوجی آپریشن کیا جائے اور انتہا پسندوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس مطالبے کے حامی یہ نہیں بتاتے کہ قابل گردن زدنی انتہا پسند کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ جو عناصر کھل کر یہ کہتے ہیں کہ بے پردہ طالبات کو مارو، حجاموں کی دکانیں جلا دو، ان نظریات کے حامل لوگ قبائلی علاقوں کے سوا کہیں نہیںپائے جاتے۔ طالبان اپنی جگہ ایک مسئلہ ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں ایسے '' انتہا پسندوں'' کی کمی نہیں جو اِن طالبان کی حمایت کرتے ہیں جو امریکا سے لڑ رہے ہیں۔ اسکول اُڑانے اور حجاموں کی دکانوں کو آگ لگانے والے طالبان سے ہمدردی رکھنے والے بھی ہوں گے لیکن بالعموم یہ ہمدردی خفیہ رکھی جاتی ہے۔ اب اس خفیہ ہمدردی کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہوگا؟
ایک پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص افغان طالبان کا حامی ہے، اسے پاکستانی طالبان یعنی اسکول اڑانے والوں کا حامی بھی سمجھ لیا جائے؟ حالانکہ افغان طالبان افغانستان میں امریکا سے لڑتے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان ہماری فوج، پولیس اور عام شہریوں حتیٰ کہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس ساری تقسیم میں دیوبندی اور اہلحدیث ایک صف میں نظر آتے ہیں جو بالعموم طالبان کے حامی ہیں جبکہ بریلوی مسلک کے علما دوسری طرف ہیں اور طالبان کے خلاف ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مصروف عمل پاکستانی طالبان پر اہل تشیع کے قتل کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے، اس لیے اہل تشیع بھی اسی صف میں ہیں۔ تناسب یہ ہے کہ ان دونوں مسلکوں کے لوگ کم و بیش برابر ہیں۔ گویا ایک واضح مسلکی یا مذہبی تقسیم نے بھی پاکستان کو آر پار کھڑا کر دیا ہے۔ طالبان کے حامی طالبان کے مخالفوں کو امریکی ایجنٹ کہتے ہیں۔ بریلوی اور شیعہ مسلک کے لوگ امریکا کے ایجنٹ تو کیا، امریکا کے حامی بھی نہیں ہیں، ان کی مخالفت کی وجہ کچھ اور ہے۔ اسی طرح بریلوی اور شیعہ علما طالبان کے حامیوں کو بلا امتیاز دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پہلے الزام کی طرح یہ الزام بھی صحیح نہیں۔
یوں سمجھ لیجیے کہ فرقہ وارانہ مخاصمت کو طالبان اور امریکا کی کشمکش نے اپنے حساب کتاب چکانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ یہی صورت ترقی پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان کشمکش کی ہے۔ ماضی میں قدامت پرست ترقی پسند لیڈروں کو روس اور ترقی پسند قدامت پرستوں کو امریکا کا ایجنٹ کہتے تھے۔ اب روس تو رہا نہیں، قدامت پرست اب ترقی پسندوں کو امریکا اور بھارت کا ایجنٹ مانتے ہیں اور ترقی پسند قدامت پرستوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ یہاں بھی پُرانے حساب کتاب چکانے اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا عزم ہے جو بڑھ رہا ہے ورنہ صاف بات ہے کہ کوئی ترقی پسند امریکا کا سخت دشمن بھی ہو سکتا ہے اور کوئی قدامت پرست ایسا معتدل بھی کہ جو کسی جانور کو مارنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھتا ہو۔
ایک عالم دین کے بارے میں سُنا کہ مسجد میں وضو کرتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ کسی نمازی نے بھڑ کو مار دیا۔ یہ عالم دین سخت ناراض ہوئے کہ جب بھڑ نے کسی کو کاٹا نہیں تو تم نے اسے ناحق کیوں مار دیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ایک طرف ترقی پسندوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈرون حملوں پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گنوار قبائلی مرتے ہیں تو دوسری طرف علما دین میں بھی ایسے لوگ آپ کو مل جائیں گے جو بے حجابی، داڑھی منڈوانے اور فلمیں دیکھنے کے ''جرائم'' کو سزائے موت کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔
فرقہ وارانہ مذہبی تنازعات بھارت سمیت کئی اور ممالک میں بھی ہیں۔ اسی طرح ترقی پسندی، لبرل ازم، قدامت پرستی، مذہبی انتہا پسندی بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہے لیکن پاکستان کے سوا کسی بھی ملک میں ایسے میدان جنگ سجتے نظر نہیں آتے۔ ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی مزاحمت کی جاتی ہے لیکن دائرے میں رہ کر۔ اس کی جہاں دوسری وجوہات ہوں گی وہاں شاید سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کو ایسے حالات نہیں ملے جیسے پاکستان کے نصیب میں آئے ہیں اور ''ایسے'' حالات میں ایک حالت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اپنا الّو سیدھا کرنے کے لیے ملک اور قوم کی کسی بھی شے کو دائو پر لگانے سے نہیں ہچکچاتے اور تازہ ترین متاثرہ شے قوم کا اتحاد ہے۔ ان کی مہربانی سے اب یہ قوم اتنے زیادہ تنازعات اور جھگڑوں اور فسادوں میں غرق ہوچکی ہے کہ اب کسی دشمن کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ چلیے، اس کا ایک ضمنی فائدہ تو ہوا کہ دشمن کے حملے کا ڈر نہیں رہا۔
مشرف دور میں قوم کو تقسیم کرنے کا جو عمل شروع ہوا، اب وہ اتنی منزلیں آگے بڑھ گیا ہے کہ قوم واضح طور پر دو حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ دو حصوں کی اصطلاح میں نے اس مخصوص واقعے کے پس منظر میں لکھی ہے ورنہ قوم دو نہیں کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ قوم قابل رشک حد تک متحد تو پہلے بھی نہیں تھی، لسانی اور فرقہ وارانہ تضادات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہے ہیں لیکن یہ تضادات ہمیشہ محدود رہے ہیں، اپنے حجم میں بھی اور دائرے میں بھی۔ کراچی یا سندھ کے حالات دیکھ لیجیے۔ مہاجر سندھی تضاد ہمیشہ رہا لیکن مشرف کی پالیسیوں نے سندھ کے ان دونوں بڑے لسانی یا نسلی دھڑوں میں اتنی زیادہ دوری پیدا کر دی ہے کہ اب اسے پا ٹنا معرکے کا کام ہوگا۔ فرقہ وارانہ معاملے کو لیجیے تو مخالف مسلک کے لوگوں کی (دوطرفہ) ٹارگٹ کلنک کے واقعات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
مشرف دور ہی میں پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ نازل ہوئی۔ مشرف نے اپنی سیاسی کامیابی کے لیے یا امریکا کی رضامندی کے لیے یا دونوں مقاصد کے لیے پاکستان میں موجود مذہبی اور ترقی پسند عناصر کے درمیان پہلے سے موجود فاصلے کو اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور پہلے سے زیادہ انتہا پسندی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے نے اس تقسیم اور دراڑ کو زیادہ گہرا کر دیا ہے۔
علماء سے آغاز کیجیے تو علما اور مذہبی حلقوں نے بھی ملالہ پر حملے کی مذمت کی ہے لیکن ان کا لہجہ اور آہنگ بالکل وہ نہیں ہے جو عافیہ صدیقی کے لیے تھا یا ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں کے لیے ہے۔ یہی صورتحال ترقی پسندوں کی ہے۔ عافیہ صدیقی کا کیس ہو یا ڈرون حملوں میں شہری اموات، وہ اصولی طور پر مذمت کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل وہی طرز عمل ہے جو مذہبی حلقے کی طرف سے ملالہ کے بارے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ملالہ پر حملے کے بعد یہ تقسیم گہری ہی نہیں ہوئی بلکہ اس میں محاذ آرائی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔
ایک طرف سے یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ چونکہ ملالہ پر حملہ کرنے والے طالبان انتہا پسند ہیں، اس لیے نہ صرف شمالی وزیر ستان بلکہ ملک بھر میں فوجی آپریشن کیا جائے اور انتہا پسندوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس مطالبے کے حامی یہ نہیں بتاتے کہ قابل گردن زدنی انتہا پسند کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ جو عناصر کھل کر یہ کہتے ہیں کہ بے پردہ طالبات کو مارو، حجاموں کی دکانیں جلا دو، ان نظریات کے حامل لوگ قبائلی علاقوں کے سوا کہیں نہیںپائے جاتے۔ طالبان اپنی جگہ ایک مسئلہ ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں ایسے '' انتہا پسندوں'' کی کمی نہیں جو اِن طالبان کی حمایت کرتے ہیں جو امریکا سے لڑ رہے ہیں۔ اسکول اُڑانے اور حجاموں کی دکانوں کو آگ لگانے والے طالبان سے ہمدردی رکھنے والے بھی ہوں گے لیکن بالعموم یہ ہمدردی خفیہ رکھی جاتی ہے۔ اب اس خفیہ ہمدردی کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہوگا؟
ایک پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص افغان طالبان کا حامی ہے، اسے پاکستانی طالبان یعنی اسکول اڑانے والوں کا حامی بھی سمجھ لیا جائے؟ حالانکہ افغان طالبان افغانستان میں امریکا سے لڑتے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان ہماری فوج، پولیس اور عام شہریوں حتیٰ کہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس ساری تقسیم میں دیوبندی اور اہلحدیث ایک صف میں نظر آتے ہیں جو بالعموم طالبان کے حامی ہیں جبکہ بریلوی مسلک کے علما دوسری طرف ہیں اور طالبان کے خلاف ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مصروف عمل پاکستانی طالبان پر اہل تشیع کے قتل کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے، اس لیے اہل تشیع بھی اسی صف میں ہیں۔ تناسب یہ ہے کہ ان دونوں مسلکوں کے لوگ کم و بیش برابر ہیں۔ گویا ایک واضح مسلکی یا مذہبی تقسیم نے بھی پاکستان کو آر پار کھڑا کر دیا ہے۔ طالبان کے حامی طالبان کے مخالفوں کو امریکی ایجنٹ کہتے ہیں۔ بریلوی اور شیعہ مسلک کے لوگ امریکا کے ایجنٹ تو کیا، امریکا کے حامی بھی نہیں ہیں، ان کی مخالفت کی وجہ کچھ اور ہے۔ اسی طرح بریلوی اور شیعہ علما طالبان کے حامیوں کو بلا امتیاز دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پہلے الزام کی طرح یہ الزام بھی صحیح نہیں۔
یوں سمجھ لیجیے کہ فرقہ وارانہ مخاصمت کو طالبان اور امریکا کی کشمکش نے اپنے حساب کتاب چکانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ یہی صورت ترقی پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان کشمکش کی ہے۔ ماضی میں قدامت پرست ترقی پسند لیڈروں کو روس اور ترقی پسند قدامت پرستوں کو امریکا کا ایجنٹ کہتے تھے۔ اب روس تو رہا نہیں، قدامت پرست اب ترقی پسندوں کو امریکا اور بھارت کا ایجنٹ مانتے ہیں اور ترقی پسند قدامت پرستوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ یہاں بھی پُرانے حساب کتاب چکانے اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا عزم ہے جو بڑھ رہا ہے ورنہ صاف بات ہے کہ کوئی ترقی پسند امریکا کا سخت دشمن بھی ہو سکتا ہے اور کوئی قدامت پرست ایسا معتدل بھی کہ جو کسی جانور کو مارنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھتا ہو۔
ایک عالم دین کے بارے میں سُنا کہ مسجد میں وضو کرتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ کسی نمازی نے بھڑ کو مار دیا۔ یہ عالم دین سخت ناراض ہوئے کہ جب بھڑ نے کسی کو کاٹا نہیں تو تم نے اسے ناحق کیوں مار دیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ایک طرف ترقی پسندوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈرون حملوں پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گنوار قبائلی مرتے ہیں تو دوسری طرف علما دین میں بھی ایسے لوگ آپ کو مل جائیں گے جو بے حجابی، داڑھی منڈوانے اور فلمیں دیکھنے کے ''جرائم'' کو سزائے موت کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔
فرقہ وارانہ مذہبی تنازعات بھارت سمیت کئی اور ممالک میں بھی ہیں۔ اسی طرح ترقی پسندی، لبرل ازم، قدامت پرستی، مذہبی انتہا پسندی بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہے لیکن پاکستان کے سوا کسی بھی ملک میں ایسے میدان جنگ سجتے نظر نہیں آتے۔ ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی مزاحمت کی جاتی ہے لیکن دائرے میں رہ کر۔ اس کی جہاں دوسری وجوہات ہوں گی وہاں شاید سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کو ایسے حالات نہیں ملے جیسے پاکستان کے نصیب میں آئے ہیں اور ''ایسے'' حالات میں ایک حالت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اپنا الّو سیدھا کرنے کے لیے ملک اور قوم کی کسی بھی شے کو دائو پر لگانے سے نہیں ہچکچاتے اور تازہ ترین متاثرہ شے قوم کا اتحاد ہے۔ ان کی مہربانی سے اب یہ قوم اتنے زیادہ تنازعات اور جھگڑوں اور فسادوں میں غرق ہوچکی ہے کہ اب کسی دشمن کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ چلیے، اس کا ایک ضمنی فائدہ تو ہوا کہ دشمن کے حملے کا ڈر نہیں رہا۔