بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی
اس وقت ملک میں جوسیلاب ہےیابارشیں ہو رہی ہیں، یہ غیرمعمولی نہیں ہیں اورنہ ہی انھیں ناگہانی آفت سےتعبیر کیا جا سکتا ہے
پاکستان میں مون سون سیزن شروع ہوتے ہی سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں تباہی اور ہلاکتوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں' ملک کے شمالی علاقوں میں شدید بارشیں جاری ہیں' شمالی علاقوں میں چترال سیلاب سے بری طرح متاثر ہے' پنجاب بھی زبردست بارشوں اور سیلاب کی زد میں آیا ہوا ہے۔
کئی بستیاں زیر آب ہیں' گزشتہ روز تک ملک بھرمیں بارشوں اور سیلاب سے تقریباً 15افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق دریائے سندھ میں بھی طغیانی ہے۔جنوبی پنجاب کے کئی علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں' شمالی علاقہ جات' کشمیر اور پنجاب میں جس بڑے پیمانے پر بارشیں ہو رہی ہیں' اس سے آنے والے دنوں میں دریاؤں میں سیلاب کی سطح زیادہ بلند ہو سکتی ہے۔ دریائے سندھ میں سیلابی پانی سندھ میں داخل ہو گا تو وہاںبھی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔
مون سون سیزن ہر سال آتا ہے اور ہر سال بارشیں اور سیلاب بھی آتا ہے' اگر صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلاب ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں' یہ غیر معمولی نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے' اس وقت بارشوں یا سیلاب سے جو نقصان ہو رہا ہے' ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے اپنے اصل کام پر توجہ نہیں دی اور ان کا سارا زور سیاسی جوڑ توڑ پر رہا ہے یا پھر کرپشن اور بدعنوانی کا کلچر پروان چڑھا ہے' جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوامی فلاح کے ادارے زوال پذیر ہیں ۔جب کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل کہ وہ فوری حرکت کر کے مصیبت زدگان کو ریلیف پہنچا سکیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور سمندری طوفان آتے ہیں لیکن وہاں جانی اور مالی نقصانات کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے ۔یورپ میں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی چھتیں گرتی ہیں۔
سڑکیں اور گلیاں بھی کئی کئی روز تک پانی میں ڈوبی نہیں رہتیں' تھوڑے وقت کے لیے پانی کھڑا ہوتا ہے اور پھر طاقتور سیوریج سسٹم کی بدولت پانی سڑکوں اور گلیوں سے غائب ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ راولپنڈی کا نالہ لئی ہر سال برسات میں تباہی پھیلاتا ہے'سیالکوٹ کا نالہ ڈیک اور نالہ ایک بھی ہر سال تباہی پھیلاتے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس تباہی سے نبٹنے کا انتظام نہیں کیا اور یہ آج بھی سیلابی کیفیت سے دو چار ہیں اور تباہی پھیلا رہے ہیں۔موسموں کی جانچ کرنے والی ٹیکنالوجی اب بہت زیادہ عام ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے ۔
اب بآسانی پتہ چل جاتا ہے کہ رواں سیزن میں بارشوں اور سیلاب کی شدت کتنی ہو گی۔ ماضی کا ریکارڈ بھی موجود ہوتا ہے ۔یہ پتہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دس سال یا بیس سال میں زیادہ سے زیادہ بارشیں کتنی ہوئیں اور سیلاب کی شرح کیا رہی۔ ان اعدادوشمار کو مد نظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ متعلقہ ادارے اگر فعال ہوں اور اپنی پوری صلاحیت اور وسائل سے کام کریں تو دریاؤں میں آنے والے سیلابی پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ندی نالوں کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے شہروں میں سیوریج سسٹم درست ہو تو بارشوں کا پانی نظام زندگی مفلوج نہیں کرتا' اب تو صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ روز لاہور میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی شدید بارش نے سب کو اتھل پتھل کر دیا اور پورا شہر ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگا۔
انڈر پاسوں میں گھٹنوں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہو گیا۔یہ سب کیا ہے، یہ سسٹم کی خرابی ہے۔ لاہور ہی نہیں کراچی میں بھی اگر معمول سے زیادہ بارش ہو جائے تو پورا نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے ۔ٹریفک جام ہو جاتی ہے،سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اوپر سے بجلی بھی بند ہو جاتی ہے۔ برسوں سے جاری نااہلی اور لاپرواہی کا نتیجہ اب یوں سامنے آ رہا ہے کہ ہر ادارہ زوال کا شکار ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کی کیفیت یہ ہے کہ زیادہ تر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بے حسی کو ظاہر کرتی ہے ۔موجودہ صورت حال کو ابھی بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
آج سے اگر کام شروع کیا جائے تو کم از کم اگلے سال کے مون سون کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت سے وسائل ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہے ہیں،جن کا بہت کم لوگوں کو فائدہ ہو گا ۔اگر کچھ وسائل ناگہانی آفات،بارشوں اور سیلاب سے بچنے کے نظام کو بہتر بنانے،عوام کو ریلیف فراہم کرنے والے اداروں کو بہتر بنانے پر خرچ کیے جائیں تو صورت حال کو خاصی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
کئی بستیاں زیر آب ہیں' گزشتہ روز تک ملک بھرمیں بارشوں اور سیلاب سے تقریباً 15افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق دریائے سندھ میں بھی طغیانی ہے۔جنوبی پنجاب کے کئی علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں' شمالی علاقہ جات' کشمیر اور پنجاب میں جس بڑے پیمانے پر بارشیں ہو رہی ہیں' اس سے آنے والے دنوں میں دریاؤں میں سیلاب کی سطح زیادہ بلند ہو سکتی ہے۔ دریائے سندھ میں سیلابی پانی سندھ میں داخل ہو گا تو وہاںبھی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔
مون سون سیزن ہر سال آتا ہے اور ہر سال بارشیں اور سیلاب بھی آتا ہے' اگر صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلاب ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں' یہ غیر معمولی نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے' اس وقت بارشوں یا سیلاب سے جو نقصان ہو رہا ہے' ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے اپنے اصل کام پر توجہ نہیں دی اور ان کا سارا زور سیاسی جوڑ توڑ پر رہا ہے یا پھر کرپشن اور بدعنوانی کا کلچر پروان چڑھا ہے' جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوامی فلاح کے ادارے زوال پذیر ہیں ۔جب کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل کہ وہ فوری حرکت کر کے مصیبت زدگان کو ریلیف پہنچا سکیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور سمندری طوفان آتے ہیں لیکن وہاں جانی اور مالی نقصانات کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے ۔یورپ میں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی چھتیں گرتی ہیں۔
سڑکیں اور گلیاں بھی کئی کئی روز تک پانی میں ڈوبی نہیں رہتیں' تھوڑے وقت کے لیے پانی کھڑا ہوتا ہے اور پھر طاقتور سیوریج سسٹم کی بدولت پانی سڑکوں اور گلیوں سے غائب ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ راولپنڈی کا نالہ لئی ہر سال برسات میں تباہی پھیلاتا ہے'سیالکوٹ کا نالہ ڈیک اور نالہ ایک بھی ہر سال تباہی پھیلاتے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس تباہی سے نبٹنے کا انتظام نہیں کیا اور یہ آج بھی سیلابی کیفیت سے دو چار ہیں اور تباہی پھیلا رہے ہیں۔موسموں کی جانچ کرنے والی ٹیکنالوجی اب بہت زیادہ عام ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے ۔
اب بآسانی پتہ چل جاتا ہے کہ رواں سیزن میں بارشوں اور سیلاب کی شدت کتنی ہو گی۔ ماضی کا ریکارڈ بھی موجود ہوتا ہے ۔یہ پتہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دس سال یا بیس سال میں زیادہ سے زیادہ بارشیں کتنی ہوئیں اور سیلاب کی شرح کیا رہی۔ ان اعدادوشمار کو مد نظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ متعلقہ ادارے اگر فعال ہوں اور اپنی پوری صلاحیت اور وسائل سے کام کریں تو دریاؤں میں آنے والے سیلابی پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ندی نالوں کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے شہروں میں سیوریج سسٹم درست ہو تو بارشوں کا پانی نظام زندگی مفلوج نہیں کرتا' اب تو صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ روز لاہور میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی شدید بارش نے سب کو اتھل پتھل کر دیا اور پورا شہر ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگا۔
انڈر پاسوں میں گھٹنوں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہو گیا۔یہ سب کیا ہے، یہ سسٹم کی خرابی ہے۔ لاہور ہی نہیں کراچی میں بھی اگر معمول سے زیادہ بارش ہو جائے تو پورا نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے ۔ٹریفک جام ہو جاتی ہے،سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اوپر سے بجلی بھی بند ہو جاتی ہے۔ برسوں سے جاری نااہلی اور لاپرواہی کا نتیجہ اب یوں سامنے آ رہا ہے کہ ہر ادارہ زوال کا شکار ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کی کیفیت یہ ہے کہ زیادہ تر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بے حسی کو ظاہر کرتی ہے ۔موجودہ صورت حال کو ابھی بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
آج سے اگر کام شروع کیا جائے تو کم از کم اگلے سال کے مون سون کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت سے وسائل ایسے منصوبوں پر خرچ کر رہے ہیں،جن کا بہت کم لوگوں کو فائدہ ہو گا ۔اگر کچھ وسائل ناگہانی آفات،بارشوں اور سیلاب سے بچنے کے نظام کو بہتر بنانے،عوام کو ریلیف فراہم کرنے والے اداروں کو بہتر بنانے پر خرچ کیے جائیں تو صورت حال کو خاصی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔