زراعت کی ترقی اور اٹھارہویں ترمیم کے مضر اثرات

بھارت یا کسی بھی ملک سے زرعی اجناس یا پولٹری درآمد کرنا سنگین جرم قرار پانا چاہیے۔

اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ ہم اپنے زرعی شعبے کو کو ترقی دے کر اپنے تمام بیرونی قرضے اتار سکتے ہیں ۔

خیبر پختونخوا ،بلوچستان ، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں دنیا کے بہترین پھل یعنی سیب ،خوبانی ،آڑواورآلو بخارا پیدا ہوتے ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب اعلیٰ کوالٹی کے آم، کیلے اور ڈی آئی خان ،سکھر اور خیر پور اعلیٰ کھجور کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔اگر حکومت ڈی ہائیڈریشن پلانٹ (جو اب ایک عام سی ٹیکنالوجی ہے) لگا دے تو ان پھلوں کی شیلف لائف بڑھ جائے گی ۔اس کے علاوہ ویلیو ایڈیشن سے ان پھلوں کی قدرو قیمت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔

جس سے کسانوں اور ملک کی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہو گا ۔قدرت نے ہمیں کھاریاں سے کراچی تک ہموار اور زرخیز زمین کا اتنا بڑا خطہ عطا کیا ہے جو پورے ایشیاء کو اناج فراہم کر سکتا ہے۔ ملک کے13کروڑ افراد زراعت سے وابستہ ہیں اس کے باوجود جب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اربوں روپے کے ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھارت سے درآمد کی ہیں تو دل پر گہرا زخم لگتا ہے۔

بھارت یا کسی بھی ملک سے زرعی اجناس یا پولٹری درآمد کرنا سنگین جرم قرار پانا چاہیے۔بھارت اپنے ملک میں زرعی اجناس کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جب کہ ہم نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔وہاں چاول اور مکئی درآمد کرنے کی ڈیوٹی 80%ہے جب کہ ہمارے ہاں صرف 10% ہے۔ بھارت میں آلو ٹماٹر اور سبزیاں درآمد کرنے کی ڈیوٹی 30% جب کہ ہمارے ہاں 0%ہے ۔

افغانستان کی پولٹری کی ضروریات کا 80%پاکستان پوری کر رہا ہے اور یہ صرف افغانستان تک محدود نہیں سینٹرل ایشیاء بھی پاکستان ہی کی مارکیٹ ہے۔ہمارے پوٹھوہار کے علاقے میں اعلیٰ معیار کی مونگ پھلی پیدا ہوتی ہے ،مناسب منصوبہ بندی ہو تو افغانستان اور سینٹرل ایشیاء ہماری پولٹری، گوشت اور مونگ پھلی کی مستقل منڈیاں بن سکتی ہیں۔ زراعت کی بہتری اور ترقی کے لیے آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کاشتکاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔

حکومت اپنے ہمدرددانہ رویے سے ان کا یہ تاثر دور کرے کہ کاشتکاروں کا کوئی والی وارث نہیں اور ان کی آواز کہیں نہیں سنی جاتی ۔ زراعت کو صنعت کے برابر اہمیت دی جائے ،وزیراعظم صاحب اور وزرائے اعلیٰ اس اہم ترین شعبے کی ترقی میں ذاتی دلچسپی لیں ۔ اور اس کے مسائل کے حل کے لیے جو ٹاسک فورس بنائی جائے اس میں زراعت سے تعلق رکھنے والے ممبران اور کاشتکاروں کے نمایندے شامل ہوں ۔

ٌٌٌٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍَََِاس وقت زرعی شعبہ least subsidizedشعبہ ہے جب کہ یہ سب سے زیادہ سبسڈی کا حقدار ہے ۔پیداواری اخراجات ) cost of production) کم کرنے کے لیے کاشتکاروں کو دل کھول کر سبسڈی دی جائے ۔بجلی اور کھاد کے نرخ انڈیا کے برابر کیے جائیں ۔نیز کھاد کی بوری پر قیمت درج کی جائے تا کہ اگر ایک ایکڑ کے مالک چھوٹے کسان نے دو بوری کھاد خریدنی ہے تو اسے بھی صحیح نرخوں پر دستیاب ہو ۔

بڑی زرعی اجناس یعنی کپاس ،چاول ،گندم اور آلو کی support priceمقرر کی جائے تا کہ کسانوں کو یقین ہو کہ ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملے گا ۔اس یقین دہانی پر کسان چار گنا محنت کرے گا اور فی ایکڑ پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔

کو آپریٹوفارمنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کاشتکاروں کو ٹریکٹر ارزاں نرخوں اور آسان قسطوں پر مہیا کیے جائیں ۔

تصدیق شدہ معیاری بیجوں کی تیاری اور فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس میں کوالٹی کا سختی سے نفاذ کیا جائے۔

اصلی اور موثر زرعی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور جعلی pesticidesبنانے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں ،مستند بیج اور ادویات زرعی مرکز (تین سے چار یونین کونسلوں کو ملا کر ایک زرعی مرکز بنایا جائے ) پر دستیاب ہوں ۔

ہمارے کاشتکار کھیت کی مٹی کا لیبارٹری ٹیسٹ (soil test) کرانے ،زمین کی لیزر لیولنگ کرانے ،معیاری بیج استعمال کرنے یا بیجائی کے سائنسی طریقوں سے پوری طرح آشناء نہیں ہیں ۔انھیں آگاہ کیا جائے کہ وہ جدید طریقے استعمال کرنے سے دُگنی پیداوار لے سکتے ہیں۔ نیز ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریاں اور لیزر لیولنگ کی مشینری ضلع کے بجائے تحصیل ہیڈ کوارٹر پر ہی دستیاب ہو ۔

زرعی اجناس کی برآمدات کے لیے منڈیاں تلاش کرنے کا ٹاسک وزارت تجارت اور سفارتخانوں میں تعینات کمرشل اتاشیوں کو سونپا جائے ۔اس سلسلے میں ان کی کارکردگی کی سخت مانیٹرنگ کی جائے اور جو شخص برآمدات کے فروغ میں اپنے ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے اس کا کڑا احتساب کیا جائے ۔

زراعت سے متعلق تحقیقی اداروں کا بجٹ بڑھایا جائے اور ان کی ضرویات کے مطابق انھیں فنڈ فراہم کیے جائے ،مگر ساتھ ہی ان کی کارکردگی کو سختی سے monitorکیا جائے۔ چاول کے تحقیقاتی ادارے پچھلے 31سالوں میں کوئی نیا بیج تیار نہیں کر سکے جب کہ بھارت کے زرعی تحقیقاتی ادارے کئی نئے بیج تیار کر چکے ہیں ۔پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ ایک سال میں چاول کپاس اور گندم کے ہائبرڈ بیج (جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کم از کم 30%اضافہ ہو)تیار کر کے کاشتکاروں کو فراہم کریں ۔ہدف حاصل کرنے والے ماہرین کو انعامات اور ترقیاں دی جائیں اور نا اہلوں اور کام چوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے ۔


value additionکے ذریعے زرعی پراڈکٹس کی قدرو قیمت میں کئی گناہ اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔اس سلسلے میں حکومتی سرپرستی میں دیہاتوں میں milk and meat parlourقائم کیے جائیں ۔اس ضمن میں چھوٹے مذبح خانے (abitor)بنائے جائیں جو حفظان صحت کے عالمی معیار کے مطابق ہوں ۔

زرعی ترقیاتی بینک کو اس طرح فعال اور کارآمد بنایا جائے کہ کسان اور کاشتکار صحیح معنوں میں اس کی خدمات سے مستفیض ہوسکیں ۔

تمام صوبوں میں زراعت کے محکمے کو متحرک کیا جائے اور زراعت کے فیلڈ اسسٹنٹ کا کسان کے ساتھ دوبارہ تعلق استوار ہو۔کسان ،محکمہ زراعت اور زرعی بینک کے درمیان موجودہ disconnectختم کر کے ان کے درمیان قریبی ،مفید اور مستقل رابطہ استوار کیا جائے ۔

چھوٹے کاشتکار کو آڑھتی ( middle man)کے استحصال سے بچایا جائے ۔آڑھتی کا مناسب کمیشن حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے ۔

زرعی مزدور کی کم از کم تنخواہ 13ہزار روپے مقرر ہونی چاہیے اور اسے اولڈ ایج بینیفٹ کے فوائد بھی حاصل ہونے چاہیے ۔

سیم اور تھور کے خاتمے کے لیے بڑے زور شور سے مہم چلا کرتی تھی ۔ہر دو لعنتوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائی ہونی چاہیے ۔

کسی زمانے میں نہروں اور راجباہوں کی بھل صفائی بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی وہ بھی قصہ پارینہ بن گئی ہے ۔صوبائی حکومتیں اس طرف توجہ دیں اور نہروں کو پختہ کرنے کے طویل مدتی منصوبوں پر بھی عملدرآمد کریں نیز سیلاب کی روک تھام کے لیے طویل مدتی منصوبے بنائیں۔

سندھ میں بُری گورننس کی وجہ سے نہری پانی کی چوری بڑے دھڑلے سے ہو رہی ہے اس لیے ٹیل پر پانی دستیاب نہیں ہو تا ،خاص طور پر بدین ،تھرپارکر اور میر پور خاص میں پانی کی عدم دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ،صوبائی حکومت اس کا تدارک کرے۔

آم کے باغات مہلک مکھی (fruit fly) کے باعث سوکھنے سے چند ہفتوں میںموت (sudden death) کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتیں زرعی ماہرین کو پابند کریں کہ وہ کھیتوں میں جا کر اس بیماری کا علاج کریں ۔

ملک کے کئی علاقوں میں انگور کی کاشت بڑی کامیابی سے ہو رہی ہے اور کاشتکار تین سے چار لاکھ فی ایکڑ کما رہے ہیں ۔انگور کی کاشت بڑھائی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں PARCکے ماہرین کاشتکاروں کے پاس جا کر انھیں انگور اور چائے کی کاشت کے بارے میں تکنیکی مشورے دیں اور ان کی رہنمائی کریں ۔

انگریز اپنی رعایا کو آبپاشی کا بہترین نہری نظام تحفے میں دے گیا جسے ہم نے برباد کر دیا ہے۔ نہروں اور راجباہوں کے نہ کنارے محفوظ ہیں اور نہ کناروں پر لگے ہوئے سایہ دار درخت جن کی محکمہ نہر کے بیلدار پوری تن دہی سے حفاظت کیا کرتے تھے اب وہ خوشگوار یادیں تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔

مجھے یاد ہے ایک بار مغربی پاکستان ( آج کا پورا پاکستان ) کے سربراہ نواب امیر محمد خان اپنی اچکن ،پگڑی اور ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ہمارے گاؤں کے قریب خانکی ہیڈ ورکس کے ریسٹ ہاؤس میں بیٹھ کرکئی گھنٹے آبپاشی کے متعلقہ افسران سے بریفنگ لیتے رہے اور ان کی سرزنش بھی کرتے رہے اور کسی نہر کے کنارے پر شیشم کے دو درخت چوری ہونے پر متعلقہ افسر کی اتنی سخت سرکوبی کی گئی کہ اس کے بعد ان سرکاری شیشم کے درختوں کی طرف بُری نظر سے دیکھنے کی کسی میں جرآت نہ ہوئی ،شیشم کی بیماری پر قابو پا کر کروڑوںکی تعداد میں شیشم کے درخت لگائے جائیں ۔اس کی لکڑی سے اعلیٰ پائے کا فرنیچر تیار کیا جاتا ہے ۔اس لکڑی سے ہی ہم اربوں روپے کا زر مبادلہ کما سکتے ہیں ۔

اٹھارویں ترمیم کے مضر اثرات
آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے محرک اور حامی غالباً اس وقت اس کے مضر اثرات کا اندازہ نہ کر سکے ۔صوبوں کی خود مختاری بجا مگر خود مختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمے داریوں سے دست بردار ہی ہوجائے ایسا کہیں نہیں ہوتا ۔دنیا کے تمام ممالک میں انرجی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کاکنٹرول ہوتا ہے،مگر اٹھارہویں ترمیم میںانرجی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے جس سے آئے روز مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔

دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کے لیے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے اسی طرح فوڈسیکیورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ )فیڈرل سبجیکٹ) ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے حامیوں نے اس کے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے ۔صوبوں میں ان محکموں کی ذمے داریاں نبھانے کی نہ استعداد ہے اور نہ خواہش ۔چند سال قبل اسٹاف کالج میں اس ترمیم کے بانی اور سب سے بڑے وکیل رضا ربانی صاحب تشریف لائے تو کورس کے شرکاء نے اُن سے یہی باتیں پوچھیں کہ فوڈ سیکیورٹی ریاست یعنی مرکزی حکومت کا مسئلہ ہے اور تعلیمی نصاب ایک قوم بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے آپ نے ریاست پاکستان کو ان سے کیوں محروم کر دیا ہے ؟

موصوف نے اس کا جواب دلائل سے دینے کے بجائے سامعین کو اپنے جذباتی خطاب سے نوازا۔ جس پر ایک کولیگ نے کہہ دیا کہ آپ اپنے جذباتی خطاب سے ہمیں مرعوب تو کر سکتے ہیں مگر قائل نہیں کر سکتے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے ۔امریکا جیسے ملک میں بھی محکمہ زراعت مرکزی حکومت کے پاس ہے جو ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر زراعت سے متعلق پالیسیاں بناتی ہے۔ لہٰذااس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم ،زراعت اور انرجی کے شعبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے شکنجے سے آزاد کرایا جائے اوران اہم شعبوں پر مرکز کی نگرانی بحال کی جائے ۔
Load Next Story