صدرکاتاریخی فیصلہ
عوام کو اپنے نمایندوں کی کارکردگی کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے
صدرممنون حسین نے عوام کے جاننے کے حق کی توثیق کردی۔ صدر نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اراکینِ اسمبلی کی حاضری کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کو غیر قانونی اقدام قرار دے دیا۔ ایوانِ صدرکے قانونی شعبے کے ڈائریکٹر نے اپنے فیصلے میں تحریرکیا کہ اراکینِ اسمبلی کا حاضری کا ریکارڈ کوئی غیر سرکاری یا نجی معاملہ نہیں ہے۔
عوام کو اپنے نمایندوں کی کارکردگی کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے، اس طرح اطلاعات کے حصول کے قانون 2002ء کی عملی تفسیر واضح ہوگئی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) بنام Pakistan Institute of Legislative Development and Tranparency کے سربراہ احمد بلال صوفی نے 2013 میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو ایک عرض داشت پیش کی تھی کہ اطلاعات کے حصول کے قانون کے تحت قومی اسمبلی کے اراکین کی حاضری کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے یہ ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ پلڈاٹ کے سربراہ نے اس فیصلے کے خلاف وفاقی محتسب کے سامنے اپیل دائر کردی۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اسپیکر کی ہدایت پر یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اراکینِ اسمبلی کے حاضری ریکارڈ کو فراہم کرنا اراکین کے استحقاق کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگا۔ قومی محتسب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اطلاعات کے حصول کے قانون کے تحت شہری اراکین اسمبلی کی حاضری کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکرکی ہدایت پر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے وفاقی محتسب کے فیصلے کو صدرِ پاکستان کے سامنے چیلنج کیا۔
ایوانِ صدر سیکریٹریٹ قانون کے شعبہ کے ڈائریکٹر نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ غیر جمہوری رویہ ہوگا کہ عوام کو اطلاعات کے حصول سے روکا جائے۔ عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کرنے کی تحریک میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو ان کے فرائض کی ادائیگی کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ تنخواہ سرکاری خزانے سے ادا ہوتی ہے۔
سرکاری خزانے کی آمدنی کا ذریعہ عوام کے ادا کردہ ٹیکس ہیں۔ شفافیت کے اصول کے تحت عوام کو اپنے نمایندوں کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی کرنے والے صحافی اراکینِ اسمبلی کی اکثریت کی کارروائی کے بارے میں عدم دلچسپی کا ذ کر کرتے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اراکین کی اکثریت محض حاضری لگانے ایوان میں آتی ہے۔ ہر جماعت کے صرف چیدہ چیدہ اراکین ہی بحث میں حصہ لیتے ہیں۔
اسی طرح اراکین کی اکثریت کوئی قانون کا مسودہ ایوان میں پیش نہیں کرتی۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ برسرِ اقتدار جماعت کے اراکین کی جانب سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ وقت وزراء سے درخواستوں پر دستخط کرانے میں صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرے دن ایوان میں کورم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ صرف کسی قانون کی منظوری، بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر، صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب، وزیر اعظم کے ایوان میں آمد اور کسی اہم معاملے پر تقریر کے وقت اراکین کی اکثریت ایوان میں موجود ہوتی ہے۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ خود وزیر اعظم نواز شریف اور وزیرداخلہ چوہدری نثار بھی ایوان میں کم آتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے اراکین 14 اگست 2014 کو اسلام آباد کے دھرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ڈی چوک اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے چند ہزار لوگوں کو جمع کر کے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے، وہ پارلیمنٹ کو جعلی قرار دے رہے تھے۔ اسی بناء پر تحریکِ انصاف کے اراکین 6 ماہ تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں گئے اور ان اراکین نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں۔ ان اراکین نے اپنے استعفیٰ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دیے تھے مگر سوائے جاوید ہاشمی کے کسی رکن نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے اپنے استعفیٰ کی تصدیق نہیں کی۔
حتیٰ کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک وفد ان اراکین اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آیا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی زور دار تقریر میں دھرنے کی وجوہات بیان کیں اور استعفیٰ کی منظوری کے لیے قانونی ضرورت پوری کیے بغیر ایوان سے چلے گئے۔ جب اس سال حکومت اور تحریکِ انصاف میں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن پر اتفاق ہوا تو ان یہ اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے تحریکِ انصاف کے اراکین کے اسمبلی سے استعفیٰ مسترد کردیے تھے۔ ہر رکن نے قومی اسمبلی سے ملنے والی تنخواہوں کے لاکھوں روپے وصول کیے۔ یہ رقم کروڑوں روپوں تک پہنچ گئی، اب عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ رقم اپنی والدہ کے نام سے بننے والے شوکت خانم کینسر اسپتال کو دیدیں گے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ تحریکِ انصاف کے اراکین نے اپنا آئینی فرض پورا نہیں کیا۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سب سے زیادہ اجلاسوں میں شرکت کی مگر میاں صاحب سابق وزیر اعظم کی اس مثبت روایت کی پیروی نہ کرسکے۔ کونسل آف نیوز پیپرز اینڈ ایڈیٹرز (CPNE) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک جو جاننے کے حق کی آگہی کے لیے کوشاں ہیں کہتے ہیں کہ جاننے کا حق عوام کا حق ہے۔ اطلاعات کی فراہمی ذریعہ ابلاغ کا بنیادی فرض ہے۔ عوام اطلاعات حاصل کر کے اپنے منتخب نمایندوں کے احتساب کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ یہ فریضہ ذریعہ ابلاغ کے اطلاعات کی فراہمی کے حق سے منسلک ہے۔
پاکستان میں ریاستی اداروں نے اس حق کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔ جب پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط ہوئے تو میثاقِ جمہوریت میں عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ دینے پر اتفاقِ رائے ہوا تھا۔ میثاقِ جمہوریت کی بناء پر 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 19 A شامل ہوا اور اس آرٹیکل سے عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔
مگر اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف نے جاننے کے حق میں رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے 2002 میں اطلاعات کے حصول کا جو قانون نافذ کیا تھا اس میں خاصی پیچیدگیاں تھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قانون میں ترمیم کے لیے ہوم ورک کیا تھا۔ سابق صدر آصف زرداری کے ترجمان فرحت اﷲ بابر نے اس ضمن میں خاصی معقول تجاویز تیار کی تھیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت ان تجاویز کو قانونی شکل نہ دے سکی۔
مسلم لیگ کی حکومت گزشتہ دو برسوں سے اطلاعات کے حصول کے قانون کو زیادہ آسان بنانے کے عزم کا اظہار کررہی ہے۔ اسی دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قانون سازی ہوئی۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابرکی قیادت میں سینیٹ کی ایک کمیٹی نے ایک ترمیمی آرڈیننس بھی تیار کیا ہوا ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس قانون کو بہت زیادہ مؤثر بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ایوان کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے سے انکار کیا مگر صدر ممنون حسین نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی عرضداشت مسترد کرکے ایک تاریخی کام کیا اور اپنی ان تقاریر کو سچ ثابت کردیا کہ شفافیت کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وفاقی حکومت اپنے صدر کی اس روایت کی پاسداری کرے گی، مگر مسئلے کا حل وفاق کی سطح پر ایک مؤثر قانون میں مضمر ہے۔