متاعِ شاعری
شاکرنظام کےمجموعہ کلام ’’آئینہ عقیدت‘‘ میں حمدباری تعالیٰ، نعت رسول مقبولؐ اور مناقاب صحابہ و اولیائے کرام شامل ہیں۔
پروفیسر ہارون الرشید تبسم نے اپنی کتاب ''متاعِ شاعری'' میں دور حاضر کے کچھ شاعروں کے کلام کا جائزہ لیا ہے، انھوں نے ان کی شخصیت اور شعر دونوں پر اظہار خیال کیا ہے اور اپنی روانیٔ طبع سے دونوں کی خوبیوں کو وسعت قلبی سے بیان کیا ہے، جن شعرا کے کلام پر انھوں نے تبصرہ کیا ہے ان میں وہ نعت گو شعرا شامل ہیں جن کے مجموعہ کلام حال ہی میں شایع ہوئے ہیں۔
شاکر نظام کے مجموعہ کلام ''آئینہ عقیدت'' میں حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبولؐ اور مناقاب صحابہ و اولیائے کرام شامل ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''شاکر نظامی نعت رسول ؐ عشق نبیؐ پر ڈوب کر کہتے ہیں، ان کی نعت میں والہانہ جذبہ عقیدت اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے، انھوں نے چونکہ دیار حبیبؐ کی زیارت کی سعادت کئی بار حاصل کی ہے اس لیے وہ وہاں کے دروبام، وہاں کی یاد دل میں بسائے ہوئے نعت کہتے ہیں تو ان کے جذبے کی سچائی امڈ کر چلی آتی ہے، ان کا ایک شعر ہے:
جب گنبد خضریٰ پہ پڑتی ہے نظر پہلی
آنکھوں کے دریچوں میں انوار سماتے ہیں
''خلعت توقیر'' شاکر کنڈان کا مجموعہ کلام ہے، پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''شاکر کنڈان نعت کے مفہوم سے آگاہ ہیں یعنی جتنا من کا اجلا ہو گا نعت اتنی ہی عمدہ اور لازوال ہو گی، کنڈان کیوں کہ من کے بہت صاف آدمی ہیں اس لیے عشق نبیؐ میں ڈوبے رہتے ہیں اور الفاظ خود بخود قلم سے نکل کر نعت کا روپ دھارتے چلے جاتے ہیں'' ان کا شعر ہے:
خاکِ طیبہ سے رقم کرتا ہوں عنوانِ حیات
ذکر آقاؐ سے سجا لیتا ہوں ایوانِ حیات
انجم نیازی کے مجموعہ نعت ''حرا کی خوشبو'' پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارون الرشید لکھتے ہیں ''انجم نیازی اشعری سفر غزلوں سے شروع ہوا لیکن جلد ہی غزلوں نے لب و رخسار اور ہجر و وصال کا لبادہ اتارنا شروع کر دیا۔ وہ اپنی ذات کے غار حرا میں بیٹھ کر حرا کی خوشبو محسوس کرنے لگا۔ حرا کی ہی خوشبو جب قرطاس پر بکھیری تو پڑھنے والے بھی اس خوشبو کو محسوس کرنے لگے''
تعلق جوڑ لینا اور پھر محو ثنا رہنا
مجھے منظور ہے برسوں ترے در پرکھڑا رہنا
ظہیر الدین ظہیر شاعر، ادیب، آرٹسٹ اور خطاط ہیں، ان کی شاعری سادگی، سلاست تنوع اور جذبوں کی آئینہ دار ہے، پروفیسر تبسم لکھتے ہیں ''انھوں نے نعت گوئی کا راستہ اختیار کر کے اپنے لیے توشۂ آخر تیار کر لیا ہے۔ وہ اپنی اس سعادت پر جتنا فخر کریں کم ہے۔''
نہ مال و زر پہ نہ شہرت پر ناز کرتے ہیں
درِ رسولؐ کی نسبت پہ ناز کرتے ہیں
''خورشید بطحا'' حنیف ساجد کا مجموعہ نعت ہے، ہارون الرشید لکھتے ہیں ''حنیف ساجد کے من میں عشق نبویؐ کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور اس سمندر کی ہر موج ان کے دل کے ساحل پر بار بار دستک دیتی ہے تو ان کی آنکھوں سے بہنے والے اشک ستارے بن کر حضور سرور دو عالمؐ کے قدموں میں گرنے کو تڑپ اٹھتے ہیں۔''
مرزا شمس الحسن کے شعری مجموعہ ''حمد و نعت'' کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں اپنے فن و فکر سے اپنے خالق کے حضور نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا ہے، مرزا شمس الحسن کا انداز بہت سادہ سلیس، رواں اور لطیف ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکثر اشعار میں اﷲ سے مخاطب ہیں۔
کہاں کہاں نہیں چھانی ہے خاک تیرے لیے
مگر ملا تو رگِ جاں سے بھی قریب ملا
یہ بھی ہے کہ نعت کہنے کے لیے جس جذبۂ شوق وارفتگی اور من کی پاکیزگی کی ضرورت ہے وہ شمس الحسن کے ہر شعر سے ظاہر ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ عبدالغنی تائب کے شعری مجموعہ ''ارمغان نیاز'' میں شامل ہر نعت سے سرکار دوجہاںؐ سے محبت اور عقیدت کا بے پناہ اظہار ہوتا ہے وہ جب حبِ رسول کے پھولوں سے ذہن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو لفظ ان کے شعور کی پہنائیوں سے لبوں کی دہلیز پر دست بستہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا شعر ہے:
جو لفظ بھی توصیف کے قابل ہے بیاں میں
سرکارؐ مدینہ کے لیے ہی تو رقم ہے
حاجی گل بخشالوی نے اپنی کتاب ''منظر نامۂ حیات طیبہؐ منظوم'' میں حضورؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام واقعات کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''گل بخشالوی من کے سچے اور کھرے انسان ہیں، ان کا دل آئینے کی طرح صاف ہے اسی لیے ان کے دل میں حبِ رسولؐ بدرجہ اتم موجود ہے، ان کے اشعار دل سے نکلتے ہیں''
علامہ رشک ترابی کے قصیدے ''سیدنا کریمؐ'' کے بارے میں پروفیسر تبسم لکھتے ہیں کہ یہ آغاز سے اختتام تک ایک ہی ردھم میں لکھا گیا ہے، اس کے اشعار تہجد کے وقت ایک خاص نوعیت کی آمد کا فیض ہیں یہ قصیدہ جو مسدس کی شکل میں لکھا گیا ہے حضورؐ سے رشک ترابی کی گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے۔''
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ صوفی محمد فقیر بھی ان خوش قسمت انسانوں میں سے ہیں جنھوں نے آقائے دو جہاںؐ کے حضور ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے انھوں نے اپنے کلام سے جو ''آدابِ نعت'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے نہ صرف حضورؐ سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا ہے بلکہ فنی تقاضوں کو بھی احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ صوفی صاحب کا یہ نعتیہ کلام حضورؐ سے ان کی محبت کا عکاس ہے۔
ان کا نام آئے تو ہو جائے تشفی دل کی
ان کا نام آئے تو زائل میرا غم ہو جائے
''گلشن میں بہار آئی'' ڈاکٹر مشرف حسین انجم کا مجموعہ نعت ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے ہارون الرشید لکھتے ہیں ''محمد مشرف حسین انجم اپنے دل میں پیارے نبیؐ سے عقیدت و احترام کا ایک سمندر لیے ہوئے ہیں۔ اس سمندر کی ہر موج جب ان کے ذہن سے ٹکراتی ہے تو ان کے دل میں حضورؐ سے قرب کی تڑپ پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ تڑپ نعت بن جاتی ہے'' ان کا ایک شعر ہے:
سلام اس پر کہ جس کی رحیق چھَم چھَم برستی ہیں
سلام اس پر کہ جس کی دید کو آنکھیں ترستی ہیں
تفاخر گوندل کے مجموعہ کلام ''غمزۂ خوباں'' میں جذبوں کا ایک انمول جہاں آباد ہے جس کے بارے میں پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ ''اس سے دین اسلام سے محبت کی خوشبو ہر طرف پھیلتی ہے اور پھر مدینہ کی خوشبو سے مل کر تفاخر محمود کی نعت بن جاتی ہے۔''
شاکر نظام کے مجموعہ کلام ''آئینہ عقیدت'' میں حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبولؐ اور مناقاب صحابہ و اولیائے کرام شامل ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''شاکر نظامی نعت رسول ؐ عشق نبیؐ پر ڈوب کر کہتے ہیں، ان کی نعت میں والہانہ جذبہ عقیدت اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے، انھوں نے چونکہ دیار حبیبؐ کی زیارت کی سعادت کئی بار حاصل کی ہے اس لیے وہ وہاں کے دروبام، وہاں کی یاد دل میں بسائے ہوئے نعت کہتے ہیں تو ان کے جذبے کی سچائی امڈ کر چلی آتی ہے، ان کا ایک شعر ہے:
جب گنبد خضریٰ پہ پڑتی ہے نظر پہلی
آنکھوں کے دریچوں میں انوار سماتے ہیں
''خلعت توقیر'' شاکر کنڈان کا مجموعہ کلام ہے، پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''شاکر کنڈان نعت کے مفہوم سے آگاہ ہیں یعنی جتنا من کا اجلا ہو گا نعت اتنی ہی عمدہ اور لازوال ہو گی، کنڈان کیوں کہ من کے بہت صاف آدمی ہیں اس لیے عشق نبیؐ میں ڈوبے رہتے ہیں اور الفاظ خود بخود قلم سے نکل کر نعت کا روپ دھارتے چلے جاتے ہیں'' ان کا شعر ہے:
خاکِ طیبہ سے رقم کرتا ہوں عنوانِ حیات
ذکر آقاؐ سے سجا لیتا ہوں ایوانِ حیات
انجم نیازی کے مجموعہ نعت ''حرا کی خوشبو'' پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارون الرشید لکھتے ہیں ''انجم نیازی اشعری سفر غزلوں سے شروع ہوا لیکن جلد ہی غزلوں نے لب و رخسار اور ہجر و وصال کا لبادہ اتارنا شروع کر دیا۔ وہ اپنی ذات کے غار حرا میں بیٹھ کر حرا کی خوشبو محسوس کرنے لگا۔ حرا کی ہی خوشبو جب قرطاس پر بکھیری تو پڑھنے والے بھی اس خوشبو کو محسوس کرنے لگے''
تعلق جوڑ لینا اور پھر محو ثنا رہنا
مجھے منظور ہے برسوں ترے در پرکھڑا رہنا
ظہیر الدین ظہیر شاعر، ادیب، آرٹسٹ اور خطاط ہیں، ان کی شاعری سادگی، سلاست تنوع اور جذبوں کی آئینہ دار ہے، پروفیسر تبسم لکھتے ہیں ''انھوں نے نعت گوئی کا راستہ اختیار کر کے اپنے لیے توشۂ آخر تیار کر لیا ہے۔ وہ اپنی اس سعادت پر جتنا فخر کریں کم ہے۔''
نہ مال و زر پہ نہ شہرت پر ناز کرتے ہیں
درِ رسولؐ کی نسبت پہ ناز کرتے ہیں
''خورشید بطحا'' حنیف ساجد کا مجموعہ نعت ہے، ہارون الرشید لکھتے ہیں ''حنیف ساجد کے من میں عشق نبویؐ کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور اس سمندر کی ہر موج ان کے دل کے ساحل پر بار بار دستک دیتی ہے تو ان کی آنکھوں سے بہنے والے اشک ستارے بن کر حضور سرور دو عالمؐ کے قدموں میں گرنے کو تڑپ اٹھتے ہیں۔''
مرزا شمس الحسن کے شعری مجموعہ ''حمد و نعت'' کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں اپنے فن و فکر سے اپنے خالق کے حضور نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا ہے، مرزا شمس الحسن کا انداز بہت سادہ سلیس، رواں اور لطیف ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکثر اشعار میں اﷲ سے مخاطب ہیں۔
کہاں کہاں نہیں چھانی ہے خاک تیرے لیے
مگر ملا تو رگِ جاں سے بھی قریب ملا
یہ بھی ہے کہ نعت کہنے کے لیے جس جذبۂ شوق وارفتگی اور من کی پاکیزگی کی ضرورت ہے وہ شمس الحسن کے ہر شعر سے ظاہر ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ عبدالغنی تائب کے شعری مجموعہ ''ارمغان نیاز'' میں شامل ہر نعت سے سرکار دوجہاںؐ سے محبت اور عقیدت کا بے پناہ اظہار ہوتا ہے وہ جب حبِ رسول کے پھولوں سے ذہن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو لفظ ان کے شعور کی پہنائیوں سے لبوں کی دہلیز پر دست بستہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا شعر ہے:
جو لفظ بھی توصیف کے قابل ہے بیاں میں
سرکارؐ مدینہ کے لیے ہی تو رقم ہے
حاجی گل بخشالوی نے اپنی کتاب ''منظر نامۂ حیات طیبہؐ منظوم'' میں حضورؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام واقعات کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''گل بخشالوی من کے سچے اور کھرے انسان ہیں، ان کا دل آئینے کی طرح صاف ہے اسی لیے ان کے دل میں حبِ رسولؐ بدرجہ اتم موجود ہے، ان کے اشعار دل سے نکلتے ہیں''
علامہ رشک ترابی کے قصیدے ''سیدنا کریمؐ'' کے بارے میں پروفیسر تبسم لکھتے ہیں کہ یہ آغاز سے اختتام تک ایک ہی ردھم میں لکھا گیا ہے، اس کے اشعار تہجد کے وقت ایک خاص نوعیت کی آمد کا فیض ہیں یہ قصیدہ جو مسدس کی شکل میں لکھا گیا ہے حضورؐ سے رشک ترابی کی گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے۔''
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ صوفی محمد فقیر بھی ان خوش قسمت انسانوں میں سے ہیں جنھوں نے آقائے دو جہاںؐ کے حضور ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے انھوں نے اپنے کلام سے جو ''آدابِ نعت'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے نہ صرف حضورؐ سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا ہے بلکہ فنی تقاضوں کو بھی احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ صوفی صاحب کا یہ نعتیہ کلام حضورؐ سے ان کی محبت کا عکاس ہے۔
ان کا نام آئے تو ہو جائے تشفی دل کی
ان کا نام آئے تو زائل میرا غم ہو جائے
''گلشن میں بہار آئی'' ڈاکٹر مشرف حسین انجم کا مجموعہ نعت ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے ہارون الرشید لکھتے ہیں ''محمد مشرف حسین انجم اپنے دل میں پیارے نبیؐ سے عقیدت و احترام کا ایک سمندر لیے ہوئے ہیں۔ اس سمندر کی ہر موج جب ان کے ذہن سے ٹکراتی ہے تو ان کے دل میں حضورؐ سے قرب کی تڑپ پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ تڑپ نعت بن جاتی ہے'' ان کا ایک شعر ہے:
سلام اس پر کہ جس کی رحیق چھَم چھَم برستی ہیں
سلام اس پر کہ جس کی دید کو آنکھیں ترستی ہیں
تفاخر گوندل کے مجموعہ کلام ''غمزۂ خوباں'' میں جذبوں کا ایک انمول جہاں آباد ہے جس کے بارے میں پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ ''اس سے دین اسلام سے محبت کی خوشبو ہر طرف پھیلتی ہے اور پھر مدینہ کی خوشبو سے مل کر تفاخر محمود کی نعت بن جاتی ہے۔''