ایک تاریخ ساز معاہدہ
یوں 20ماہ تک مذاکرات کی تھکادینے والی مشق بالآخر اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہوکی ہرزہ سرائی اورچندخلیجی ممالک کے سلاطین کی مخالفت کے باوجود منگل 14جولائی2015ء کو ویاناکے مقام پر امریکا کی قیادت میں دیگرپانچ جوہری طاقتوں کے ایران کے ساتھ ایک تاریخ ساز معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کی رو سے ایران فوری طورپر یورینیم کی افزودگی روک کر اپنے جوہری پروگرام کو سویلین مقاصد تک محدود کرلے گا۔
یوں 20ماہ تک مذاکرات کی تھکادینے والی مشق بالآخر اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔اس دوران ایسے کئی موڑ آئے جب یہ محسوس ہونے لگا تھاکہ شاید یہ مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوکر کسی نتیجے پرپہنچے بغیر ختم ہوجائیں گے۔مگر دونوں طرف سے جس عزم، حوصلہ اور گفت وشنید پر یقین کااظہار کیاگیا، اس نے ان مذاکرات کی کامیابی میں اہم کرداراداکیا۔
یہ معاہدہ جوہری طاقتوں (امریکا،برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس )کے علاوہ ایران کی سفارت کاری کی بھی بے مثال کامیابی ہے۔اگرجوہری طاقتوں نے اس معاہدے کے ذریعے ایک طرف جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکو روکنے میں مستعد کردار اداکیاہے۔دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو مزید بگڑنے سے روک دیا ہے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو اس نے مناسب لچک دکھا کر سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے ۔جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے عائد مختلف نوعیت کی پابندیاں ختم ہوئیں۔
عرصہ دراز سے منجمد بینک اکاوئنٹ کھل گئے اور تیل کی فروخت پر عائدپابندیوں کے خاتمے کے باعث عالمی تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔یوں 36برس بعد ایک نئے عز م وولولے کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کا حصہ لینے کے لیے تیار ہوکر عالمی منظر نامے میں اپنی سابقہ سیاسی ومعاشی حیثیت بحال کرانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس نئی پیش رفت کے نتیجے میں ایران کو عالمی سیاسی منظرنامے میں زیادہ فعالیت کے ساتھ کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے گا۔
خاص طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اسے ایک بار پھر خلیج میں شاہ کے دور والاپولیس مین کا کردار مل جائے گا۔خطے میں ایران کے اس سابقہ کردارکی بحالی سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن بالخصوص شام، عراق اور یمن کے معاملات کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ اس طرح خلیج میںطاقت کا توازن قائم کرنا زیادہ آسان ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ 1979 میںابھر کر سامنے آنے والے مذہبیت (Religiosity) کے ان رجحانات میں کمی کے بھی امکانات پیدا ہوئے ہیں،جن کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے مظاہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
مسلم دنیا اس وقت عقیدے کی بنیاد پرشدید تقسیم کا شکار ہے۔اس تقسیم کے اسباب کو سمجھے بغیر اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔یہ سمجھنا ہوگا کہ1979 میں دو اہم واقعات رونماء ہوئے۔اول، مسلم دنیا کی تاریخ میں پہلی بارکسی مسلم ملک(ایران) میں مذہبی اشرافیہ کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔جس نے دیگرعقائد اور مسالک کے مسلمانوں کی مذہبی اشرافیہ کو سیاسی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے کا حوصلہ دیا۔اس رجحان کوآج کل سیاسی اصطلاح میں سیاسی اسلام یا Political Islam کانام دیا جاتاہے۔
دوئم،اسی سال کے آخر میں جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں،تو امریکاکو یہ موقع ملا کہ وہ سوویت یونین کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے اسلام کے تصور جہادکا مخصوص استعمال کرے۔یوں ایران کے مذہبی انقلاب نے شیعہ عسکریت اور افغانستان کی جنگ نے سنی عسکریت پسندی کو فروغ دیا۔گوکہ روایتی طور پر دونوں رجحانات کے فکری مآخذ مختلف ہونے کی تاریخ ڈیڑھ ہزار برس پر محیط ہے۔ مگر دور جدید میں ان فکری رجحانات کے درمیان تصادم کاسبب انقلاب کے بعد ایران میں رائج ہونے والا نظام حکمرانی) (System of Governanceبنا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ شاہ کے دور میں شیعہ اور سنی اسلام کے درمیان سیاسی اختلافات کی وہ نوعیت نہیں تھی، جو انقلاب ایران کے بعد سامنے آناشروع ہوئی۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ایرانی مذہبیت کی فکری آبیاری چونکہ ڈاکٹر علی شریعتی جیسے ماہرعمرانیات نے کی تھی۔جب کہ انقلاب کی قیادت جن مذہبی رہنماؤں نے کی تھی،ان کی اکثریت اربن معاشرت سے تعلق رکھتی تھی۔ اس لیے ان کا نظم حکمرانی کے بارے میں نقطہ نظر (Perception) القائدہ، طالبان اور داعش کے تصورحکمرانی سے قطعی مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے بعد ایران نے جو نظام حکمرانی متعارف کرایا، وہ تمام تر اسقام اور کمزوریوں کے باوجود جدید جمہوری نظام سے خاصی حد تک قریب تر ہے۔
وہاں ایک منتخب پارلیمان قانون سازی کرتی ہے اور منتخب صدر نظام حکمرانی چلاتا ہے ،لیکن ایرانی جمہوریت پر جو بنیادی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، ان میںعلماء سپریم کونسل کی پارلیمان پر بالادستی ہے۔ یہ ادارہ جو نامزد کردہ ہوتاہے، منتخب پارلیمان کی آزادی، خودمختاری اور بااختیاریت کو محدود کرنے کا باعث بنا ہے۔اسی طرح خواتین اورمذہبی اقلیتوں کے بارے میں بعض آئینی شقیںبھی ایک حقیقی جمہوری عمل کے تسلسل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امید ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے روابط ان کمزوریوں کو دور کرنے کا سبب بن جائیں گے۔
اس کے برعکس بقیہ مسلم دنیا بالخصوص خلیج کے بیشتر ممالک میں پشتینی بادشاہتیں، شخصی اور فوجی آمریتیں قائم ہیں۔ایران میں آنے والے انقلاب نے ان حکمرانوںکی نیندیں اڑا دی تھیں اور انھیں اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہونے لگا تھا اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔اس لیے اپنے اپنے ممالک میں ایرانی طرز کے انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے انھوں نے عقیدے اور مسلک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔جب مشرق وسطیٰ میں عرب بہارکے نام سے تبدیلی کی لہر اٹھی،تو مغرب نے اس کے مختلف پہلوؤں اور متوقع اثرات کا جائزہ لیے بغیر اس کی حمایت شروع کردی۔
جس نے مسلم دنیا میں جنم لینے والے دونوں رجحانات میں مزید دوری پیدا کردی۔اس معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا دیگر مسلم بنیاد پرستیوں کے مقابلے میں جدیدطرز حیات سے قدرے قریب ایرانی نظم حکمرانی کوکس حد تک قبول کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آزاد خیال اور سیکولر حلقے ایران میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے سے دست بردار ہوگئے ہیں۔
اس معاہدے کے بعد امریکا اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں ایران کا راستہ روکنے کے بجائے اس کے حکمرانی میں تجربات اور سیاسی کردار سے استفادہ کرنا چاہیں گے۔کیونکہ یہ بات مغرب کی سمجھ میں آرہی ہے کہ کسی سماج کی نفسیات اوراس کی سیاسی وسماجی تاریخ کو سمجھے بغیر جمہوری عمل کے نفاذ کی حمایت داعش جیسی متشدد تنظیموں کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔انھیں یہ بھی سمجھ آیا ہے کہ جس طرح امریکا اور یورپ کے سیاسی،سماجی اور ثقافتی ارتقاء کی اپنی تاریخ ہے، اسی طرح دنیا کے دیگر خطوں کی اپنی روایات ہیں۔
ضروری نہیں کہ جو طریقہ کار انھوں نے اختیار کیا بقیہ دنیا بھی وہ راہ اختیار کرے۔ ہر ملک اور معاشرے کی اپنی تاریخ، اپنا معاشرتی ڈھانچہ اور ثقافتی اقدار ہوتی ہیں،جس کے اندر رہتے ہوئے وہ فطری اندازمیں تبدیلی کی طرف بڑھتا ہے۔لہٰذا مغرب کے اہل دانش اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ ایران کی سخت گیر بادشاہت سے منتخب حکومت کی طرف منتقلی ایک ایساارتقائی عمل ہے، جو مسلم معاشروں کے سیاسی و سماجی ڈھانچوں میں تبدیلیوں کے لیے رہنمائی کا سبب بن سکتا ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ پابندیاں ہٹ جانے کے بعد پاکستان کے لیے یہ نادر موقع ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی حکمت عملیاں تیارکرے۔دو طرفہ آزادتجارت وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ کئی برسوں سے کٹھائی میں پڑے گیس پائپ لائن منصوبے کو فعال بنانے کی بھی کوشش کی جائے۔کسی زمانے میں علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD)کے تحت پاکستان، ایران اورترکی مل کر ترقی کے کئی منصوبوں پر عمل کررہے تھے۔جن میںکراچی سے استنبول تک ریلوے ٹریک اورمختلف راستوں پر سڑکوں کی تعمیرجیسے منصوبے شامل تھے۔
اگرایوب خان کے دور میںبننے والے منصوبوں کو دوبارہ فعال کرلیا جائے، تو معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی کی نئی راہیں کھلنے کے روشن امکانات ہیں۔ آج جس طرح چین اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی راہداری بنانے کی بات ہورہی ہے۔اسی طرز پر ایران کے ساتھ بھی تجارتی راہداری بنائی جاسکتی ہے،جو پاکستان کی معاشی ترقی کو مزید مہمیز لگانے کا سبب بن سکتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ سرد جنگ کی محدود نفسیات سے نکل کر عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پربہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے۔ عوام کی خوشحالی کی خاطرماضی کے ان ابہام(Myths)سے باہر نکلے جو مسائل کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ایران پر سے پابندیوں کا ہٹنا بلاشبہ اس کے عوام کے لیے خوشحالی کی ایک نئی راہ کھولنے کا سبب ہے، لیکن پاکستان بھی اس موقعے سے بے پناہ فوائد حاصل کرسکتا ہے،بشرطیکہ حکمران تبدیل ہوتی دنیا کے رجحانات کا صحیح معنی میں ادراک کرلیں۔