بلوچستان اسمبلی کا ’مردانہ پن‘
لینن نے باورچی خانے کو عورتوں کا اولین قیدخانہ اور ان کے شعوری ارتقا میں بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا۔
استحصال کی جو صورتیں انسانی معاشروں میں رائج ہیں، اس کی بدترین صورتوں میں سے ایک صنفی استحصال ہے۔ بہ طور مرد جس کا استعمال، ہم سبھی کہیں نہ کہیں کسی، نہ کسی صورت میں کر رہے ہوتے ہیں۔ لینن نے باورچی خانے کو عورتوں کا اولین قیدخانہ اور ان کے شعوری ارتقا میں بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا۔
اس قید خانے اور رکاوٹ کو قائم رکھنے میں ہم سب کہیں نہ کہیں شامل ہوتے ہیں، بلکہ اکثر پیش پیش ہوتے ہیں۔ گو کہ انسانوں کی سب سے بڑی آزادی، معاشی آزادی ہے، لیکن عورت صدیوں سے جس صنفی استحصال کا شکار رہی ہے، اس تناظر میں اس کی سب سے بڑی آزادی دانش ورانہ سرگرمیوں میں اس کی شمولیت ہے اور سیاست سے بڑھ کر شعوری سرگرمی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے! سو، خواتین کی سیاسی عمل میں بامعنی شرکت ہی انھیں حقیقی معنوں میں مردوں کے ہمقدم لا سکتی ہے۔
دوسری جانب، مردانہ اجارہ داری، یوں تو آج کے جدید معاشروں میں بھی ایک حساس مسئلے کے طور پر موجود ہے، لیکن ایک قابلِ اطمینان امر یہ ہے کہ وہاں اس پہ بات کی جا سکتی ہے، مباحث ہوتے ہیں حتیٰ کہ قانون سازی بھی ہوتی ہے۔ تیسری دنیا میں اس پہ گفتگو، مباحث اور قانون سازی کا مرحلہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
اس لیے یہاں اس معاملے کو چھیڑ کر آپ اپنے لیے تحقیر اور استہزا کا سامان پیدا کر لیتے ہیں۔ جب کہ نیم قبائلی اور جاگیرداری والے معاشرے میں تو عورت کا نام ہی ازخود تحقیر اور استہزا کو کافی ہے۔ سو، یہاں کسی قسم کی صنفی برابری تو سرے سے ناپید ہے ہی، خواتین کے حقوق کی ارفع جدوجہد کو بھی ایک عرصہ ہوا کہ این جی اوز نامی دیو اغوا کر کے لے گیا۔ پھر اہلِ ہوس مدعی بھی بنے اور منصف بھی، انقلاب کے نام پہ سیاست چمکانے والوں نے جب عورتوں کو بہ طور شو پیس استعمال کرنا شروع کیا، تو عورتوں کی سماج میں رہی سہی عزت بھی تارتار ہوئی۔
بلوچستان، ابھی اپنی سیاسی و سماجی جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں ہے، وہاں خواتین کے حقوق کی جدید شہریت والی تحریک کا ابھی ناپید ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ دوسری طرف، ہم اپنی ثقافتی عصبیت کے زعم میں لاکھ کہہ ڈالیں کہ ہمارے سماج میں عورت سات قرآن کے برابر سمجھی جاتی ہے، یا زیادہ سے زیادہ یہ مثال کہ عورت جنگ کے درمیان آ جائے تو جنگیں رک جاتی ہیں، لیکن ہم اپنے گھروں میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
اسے ہمارا بڑے سے بڑا انقلابی بھی 'معروضیت' کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے۔ باہر سے پڑھی لکھی خواتین ہماری جانب آئیں، تو انھیں خوش آمدید کہنے کو ہم چشم براہ ہوتے ہیں، لیکن خود ہماری خواتین کب پڑھ لکھ کر اس ہمسری کو پہنچیں گی، اس موضوع پہ اول تو ہم بات کرنے کو تیار نہیں، اور اگر بات ہو بھی جائے تو سطحی جذباتیت یا سستی نعرہ بازی اور ثقافتی عصبیت کی نذر ہو جائے گی۔
بلوچستان میں ووٹ کے نتیجے میں پہلا سیاسی ایوان قائم ہوا تو خواتین کی مخصوص نشست کا جھنجھٹ آ پڑا۔ ہمارے قدآور سیاسی رہنما، بلوچستان کے سیاسی حقوق کی جدوجہد میں اس قدر مگن رہے کہ انھیں کبھی احساس نہ ہوا کہ سیاسی جماعت کی ایک خواتین ونگ بھی بنا لینی چاہیے، جو 'بوقتِ ضرورت' کام آ سکے۔
ہمارے اولین سیاسی اکابرین میں سے چونکہ اکثر سردار اور نواب تھے، اس لیے ممکن نہ تھا کہ ایسی قربانی وہ اپنے گھرانے سے ہی دیتے، کہ اُس زمانے میں ابھی سیاست کاروبار کا ذریعہ نہ بنی تھی۔ یوں پورے بلوچستان سے کوئی مقامی تعلیم یافتہ خاتون ہماری اولین اسمبلی کو میسر نہ آ سکی۔ نتیجتاً ایک یورپین نژاد خاتون (جنیفر موسیٰ قاضی) کے نام قرعہ فال نکلا۔ یہ رویہ کچھ ایسی روایت بن گیا کہ نہ صرف بعدازاں اس کا تتبع کیا گیا، بلکہ بلوچستان سے خواتین کی سیاسی نمایندگی میں غیرمقامی خواتین کا حصہ مختلف صورتوں میں آج بھی برقرار ہے۔
گو کہ ہمارے ہاں چند ایک ایسی خواتین کے نام موجود ہیں جو براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں آئیں، لیکن ان میں اکثریت ان کی رہی ہے جو اپنے نام یا کام کی بجائے اپنے گھرانے اور مردوں کے نام کے سبب منتخب ہوئیں۔ موجودہ اسمبلی میں بھی ایسی ایک خاتون موجود ہیں جنھیں یہ 'اعزاز' حاصل ہے کہ وہ پورے بلوچستان سے واحد منتخب خاتون رکن ہیں، لیکن ایک ایسی رکن جو نہ تو دورانِ انتخابات عوام سے کبھی مخاطب ہوئیں، نہ ووٹ کے لیے کوئی در کھٹکھٹایا، نہ اسمبلی اجلاس میں کبھی ایک لفظ بولا۔ اسمبلی میں ووٹ دینے کے لیے بھی ان کے تجربہ کار سیاست دان بھائی، انگلی پکڑ کر باپردہ انھیں اسمبلی میں لائے اور الٹے پاؤں واپس لے گئے۔
دوسری جانب وہ قلیل خواتین رکن اسمبلی ہیں جو برسوں سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں سیاست کا حصہ بنی رہیں، بلوچستان میں خواتین کی جدوجہد کے ہر کارواں کسی نہ کسی صورت میں شامل رہیں۔ گھر سے لے کر سماج تک کے طعنے سہے، کتنی انگلیاں ان کے کردار پہ اٹھیں، کیا کیا کیچڑ نہ ان کے نام پہ اچھالا گیا، کیسے الزام' کیسے دشنام سہے، کس کس طرح سے انھیں استعمال کرنے کی کوششیں نہ کی گئیں۔
باوجود ان تمام مصائب کے وہ صنفی جدوجہد کے قافلے سے جڑی رہیں۔ کوئی اور راہ نہ پا کر انھیں مجبوراً بورژوا سیاسی جماعتوں کا ہی سہارا لینا پڑا اور ان جماعتوں کو آئینی مجبوری کے تحت انھیں اسمبلی کے لیے منتخب کرنا پڑا۔ یہ کڑوا گھونٹ انھوں نے کس بے دلی سے بھرا ہو گا، اس کا اظہار گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں کھل کر ہوا۔
گو کہ بات ایک وزیر کے اس طعنے سے شروع ہوئی کہ جب انھوں نے خواتین اراکین اسمبلی کا تذکرہ نہایت تحقیر آمیز انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ، 'خواتین انتخابات میں مٹھائی کا ایک ڈبہ بھی خرچ نہیں کرتیں، مفت میں ہم انھیں اسمبلی میں لاتے ہیں، اوپر سے وہ مختلف کمیٹیوں کی چیئرمین شپ مانگتی ہیں۔' یہ درحقیقت 'بھولپن' میں اس حقیقت کا اظہار بھی تھا کہ مرد اراکینِ اسمبلی لاکھوں روپے خرچ کر کے اسمبلی میں آتے ہیں، اس لیے انھیں کروڑوں کمانے کا حق حاصل ہے۔ خواتین 'ایک ڈبہ' بھی خرچ نہیں کرتیں، اس لیے انھیں مفت میں کیوں کچھ حصہ دیا جائے! دوسری جانب یہ خواتین کے لیے مردانہ تحقیر کا حقیقی نمونہ تھا۔
مذکورہ وزیر کے اس بیان کے دوران بعض احباب کی زیر مونچھ مسکراہٹ، ان کے جعلی مردانہ پن کی چغلی کھا رہی تھی۔ گو کہ بعدازاں بعض اراکین سمیت وزیر اعلیٰ کی جانب سے اس پہ معذرت کا اظہار کیا گیا، لیکن عوامی ایوان میں جس طرح خواتین کا استحقاق مجروح کیا گیا، وہ ایک رسمی معذرت کا معاملہ نہ تھا۔ ثقافت اور تمدن کی دُہائی دینے والے مونچھوں کو تاؤ دیتے وزرا سمیت، ہمارے مدبر وزیر اعلیٰ میں سے کسی کو یہ اخلاقی جرأت نہ ہوئی کہ آگے بڑھ کر کسی ایک خاتون رکن اسمبلی کے سر پہ ہاتھ رکھ دیتا، کسی کا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے سر پہ رکھ دیتا (بلوچ سماج میں یہ عمل خواتین کی عزت کی علامت کی انتہا ہوتا ہے)۔
یہ ڈرامہ دراصل اس پس منظر میں رچایا گیا کہ بلوچستان میں پہلی بار اسمبلی کی اسپیکر شپ کے لیے ایک خاتون رکن کا نام سامنے آیا، جس پر وسیع پیمانے پہ اتفاق پایا جاتا ہے، لیکن قبائلی انا والے ہمارے بعض وزرا اور سیاست پہ نسلوں سے قابض اجارہ داروں کو یہ گوارا نہیں کہ انھیں اسمبلی میں ایک عورت سے اجازت لے کر بات کرنی پڑی۔ عورت، جسے انھوں نے گھر سے سماج تک پیروں تلے رکھا، اور اسمبلی جسے وہ اپنی جاگیر سمجھتے رہے ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ بظاہر سیاست کرنے والے ہمارے موروثی جاگیردار، نسلی سردار ، قبائلی نواب اور مڈل کلاس کہلوانے والے بورژوازی، سبھی اس بات سے نالاں ہیں کہ وہ خواتین جنھیں وہ محض 'پتھر کی مورت 'سمجھ کر بہ طور شو پیس اسمبلیوں میں لائے تھے، وہ بے جان مخلوق اب بول پڑی ہے۔ جو ثابت کر رہی ہے کہ وہ محض پتھر کی مورت نہیں، اس کے نین نقش کے سوا اس کا ایک ذہن بھی ہے ،جو سوچتا بھی ہے، اور اس کا دہن بھی ہے، جو بولتا بھی ہے اور سوچنے والے ذہن جب بولنا شروع کر دیں، سماجی تبدیلی کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے۔