بلاول بھٹو صلائے عام حصہ اول

سندھ کے اندر ڈاکوؤں کا راج تھا، کوئی بھی شخص گھروں میں اور گھر سے باہر محفوظ نہیں تھا،


لیاقت راجپر July 23, 2015

ISLAMABAD: کسی بھی عمارت کو بنانے میں بڑی محنت لگتی ہے، مگر اسے گرانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کو بنتے دیکھا، اس کی مقبولیت دیکھی اور اب اسے پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں کمی بھی دیکھ رہے ہیں جس سے نہ صرف میں بلکہ کروڑوں چاہنے والے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو جس نے اپنے کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی جس کے نتیجے میں پی پی وجود میں آئی۔ اس پارٹی کو بنانے میں ملک کے مایہ ناز اور اہم لوگ شامل تھے جو چاہتے تھے کہ پاکستان کے اندر ایک ایسی پارٹی اور رہنما آئے جو صرف عوام، ملک، قوم کے لیے کام کرے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے دن رات ایک کر کے اپنے دوستوں کے ساتھ وہ کچھ کر کے دکھایا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں اپنی شناخت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بھٹو نے اپنی جدوجہد کا مرکز عوام کی خوشحالی، جمہوریت، ملک کی سالمیت اور اس کی ترقی اور بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نظر میں رکھتے محنت کی۔ اس کام میں آخر کار اپنی جان بھی قربان کر دی اور نہ صرف یہ یہاں تک محدود رہا بلکہ اس محبت میں جمہوریت اور عوام کی خاطر دو نوجوان بیٹوں کی، محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی قربانی اور محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی میں اذیتیں شامل ہیں۔

ان قربانیوں کے بدلے عوام نے جمہوریت کی خاطر پی پی پی کو ایک بار پھر شہید بی بی کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا تا کہ انھیں مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافیوں اور دہشت گردی اور ڈاکوؤں سے نجات ملے۔ انھیں بڑی مایوسی ہوئی کہ جب پی پی پی نے اپنے سچے، اصلی اور قربانی دینے والے کارکنوں اور لیڈروں کو پیچھے دھکیل دیا اور ان لوگوں کو سامنے لے آئے جنھیں عوام سے کم مگر دولت اور اقتدار سے زیادہ محبت تھی ۔

جس کی وجہ سے پی پی پی عوام سے دور ہوتی گئی اور ان لوگوں کے زیادہ قریب ہو گئی جنھوں نے پارٹی کو سارے ریکارڈ قائم کرنے کا موقعہ دیا جس کا فائدہ عوام اور جمہوریت کو نہیں ملا اور آپ دیکھیں جو لوگ پارٹی کے لیڈروں کے ایک اشارے پر اپنی جان قربان کر دیتے تھے وہ پارٹی کے لیے برا بھلا کہنے لگے کیونکہ سندھ کے پورے اضلاع میں صفائی کا کام، اسٹریٹ لائٹ اور قانون گم ہو گیا۔ لوگ نوکریوں کی درخواستیں ہاتھ میں لے کر کبھی اپنے شہر میں کبھی قرضہ لے کر اپنے مال مویشی بیچ کر کراچی اور اسلام آباد کے دھکے کھا کر واپس آ جاتے تھے۔ نوکریوں کے ریٹ اتنے زیادہ تھے کہ غریب آدمی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

سندھ کے اندر ڈاکوؤں کا راج تھا، کوئی بھی شخص گھروں میں اور گھر سے باہر محفوظ نہیں تھا، پتھاریدار ڈاکوؤں کو پناہ دیتے تھے اور اغوا کی رقم پتھاریدار، ڈاکو اور پولیس کی کالی بھیڑوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ سندھ میں سرکاری افسران نے رشوت کا بازار گرم کر دیا تھا کہ کھلم کھلا رشوت مانگی جاتی تھی۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ لاقانونیت عروج پر تھی، ان افسران کو تعینات کیا جاتا تھا جو کرپٹ اور نااہل تھے جن کا کام صرف یہ تھا کہ وہ رشوت لے کر سرکار میں جو بیٹھے ہیں انھیں پہنچائیں۔

پی پی پی بھٹو خاندان سے وابستہ ہے جن کی قربانیاں ابھی تک یاد ہیں، لوگ اب بھی بھٹو اور بے نظیر کی دستاویزی فلمیں دیکھ کر، ان کے مزار پر جا کر روتے ہیں جب کہ یہ لوگ اپنے ماں باپ اور دوسرے اپنے مرحوم رشتے داروں کے لیے نہیں روتے کیونکہ بھٹو اور بی بی نے اپنا پیار، وقت، زندگی اور جائیداد عوام اور جمہوریت کے لیے وقف کر دیا تھا۔

جب بھٹو صاحب سے جیل میں آخری ملاقات ہو رہی تھی جس میں بیگم نصرت اور بی بی تھیں بھٹو نے بے نظیر کو کہا تھا کہ وہ اسے ورثے میں سب سے زیادہ اہم اور پیاری چیز عوام دے رہے ہیں۔ جس کا خیال رکھنا۔ بے نظیر صاحبہ نے اپنی جان دے کر عوام کے لیے ثابت کر دیا کہ وہ ان کا اثاثہ ہیں۔ بی بی نے آپ کو کہا ہے یا نہیں لیکن آج بھی اس کی روح تمہیں کہہ رہی ہے کہ عوام یتیم ہو گئے ہیں اس کے سر پر ہاتھ رکھو ان کے زخموں پر مرہم رکھو، ان کے دکھ درد اور تکالیف دور کرنے کے لیے کام کرو۔ اگر پارٹی عوام کو خوش نہیں رکھ سکی ہے تو یہ اس کی ناکامی ہے۔

بلاول صاحب جذباتی تقریر سے کچھ نہیں ہوتا، عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے ان کے پاس جاؤ، بھٹو کی طرح ملک کے کونے کونے میں لوگوں کے درمیان جا کر کھلی کچہریاں منعقد کرو تا کہ عوام اپنے دکھ درد سامنے سنا سکیں اور آپ کو سچی باتیں معلوم ہوں اور آپ درباری لوگوں سے بچ سکیں۔

آپ جو بھی وعدہ کریں اسے پورا کریں۔ مثال کے طور پر آپ نے سندھی کلچر کے لیے موئن جو دڑو پر کروڑوں روپے خرچہ کروا دیا جس کا فائدہ صرف پروگرام کرنے والوں کو ہوا جنھوں نے کمایا مگر موئن جو دڑو پر اب بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ آپ نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگایا، ہوشو شہید کی قبر پر گئے، مگر اس پھر کیا ہوا، نہ تو وہاں مزار پر کام ہوا نہ تو اس کے مزار پر جو میلہ لگتا تھا وہ بحال ہوا اور مزار کھلا رکھنے کے لیے کوئی اقدامات ہوئے۔

آپ نے فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے فلمی وفد سے ملاقات کی مگر پھر اس پر کوئی بیان یا کام نہیں ہوا، بھٹو اور بے نظیر کی تقریبوں پر ہر سال اعلان ہوتے رہے ہیں مگر وقت گزرنے کے بعد بات ختم اور پھر دوسری تقریب پر یہ سننے کو آتا تھا کہ صدر صاحب نے نوٹس لے لیا ہے جو نوٹس اب تک جاری ہے مگر عمل کچھ نہیں ہے۔ یہ خصوصیت صرف بھٹو میں تھی جو حکم دینے کے بعد دوبارہ کچھ بتائے بغیر خود پہنچ جاتے تھے جس کی وجہ سے سرکاری افسران اور پارٹی کے لوگ ڈرتے تھے کہ انھیں کام کرنا ہے کیونکہ بھٹو کسی وقت بھی آ کر دیکھ سکتے ہیں۔

بھٹو عوام کے پاس اور پارٹی ورکرز کے پاس خود چلے جاتے تھے، ہر سال ہر عید پر لاڑکانہ آتے تھے، لوگوں سے عید ملتے، ان کے مسائل حل کرتے تھے اور یہ روایت بے نظیر نے بھی قائم رکھی۔ لاڑکانہ اس وقت کس حال میں ہے، آپ خود جا کر دیکھیں، آپ کو لگے گا کہ گلیاں گندے پانی سے بھری ہوئی ہیں اسٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، روڈ پر کتنے تجاوزات بھرے ہیں۔ مگر کسی کو نہ بتائیں ورنہ آپ کی وزٹ کی وجہ سے صفائی بھی ہو جائے گی۔

سیاستدانوں کو گھوم پھر کر عوام کے پاس آنا ہے، اس لیے بھٹو ہمیشہ عوام سے ملتے رہتے تھے۔ آپ دیکھیں پنجاب میں نواز شریف نے کیسے اپنے آپ کو عوام کے ساتھ رکھا ہوا ہے چاہے وہ اقتدار میں ہو یا نہ ہو مگر وہ جلسے کرتا رہتا ہے۔ پی پی پی نے پنجاب میں نہ جا کر پی ٹی آئی کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا ہے جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

یہ کہہ کر چپ ہو جانا کہ کچھ لیڈروں کا پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانا کچھ بھی نہیں ہے، یہ وہ مثال ہے جیسے شتر مرغ اپنا سر مٹی میں دبا دیتا ہے۔ اگر آپ کو پارٹی میں تبدیلی کا پاور نہیں ہے تو کم از کم آپ پورے پنجاب اور سندھ کے طوفانی اور عوامی دورے شروع کریں تا کہ پارٹی ورکرز میں مایوسی ختم ہو اور وہ یہ سمجھیں کہ ان کے لیڈر ان کے پاس ہیں۔

مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے پی پی پی کا میڈیا سیل کتنا کمزور ہے جو کسی بھی بین الاقوامی، قومی، مقامی سیاسی واقعات پر تیز اور آگہی والا بیان نہیں دے پاتا۔ اس سلسلے میں پوری سیاسی پارٹیوں میں واحد ایم کیو ایم ایسی پارٹی ہے جو چند منٹوں کے اندر پارٹی کا موقف یا انفارمیشن دے دیتے ہیں۔

آپ اپنے میڈیا سیل کو فعال بنائیں اور اس میں ایسے experts اور سچے لوگ رکھیں جو آپ کو پل پل کی خبر سے آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ وہ آپ کو اخباروں میں آنے والی خبروں، مضمون، تجزیے، ایڈیٹوریلز سے آگاہ کریں، اس کی سمری بنا کر بھیجیں، بلکہ آپ خود بھی اخبارات پڑھیں جیسے بھٹو صبح سویرے ریڈیو، ٹی وی دیکھ کر اور اخبارات پڑھ کر آتے تھے جس کی وجہ سے وہ ملک اور بین الاقوامی ہونے والے واقعات سے واقف رہتے تھے۔

آپ رشوت اور کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کریں اور جو پارٹی کے لیڈر یا ورکر یا پھر سرکاری افسران ہیں ان کے خلاف کیس رجسٹر کروائیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پی پی پی پر جو کرپشن کرنے کا دھبہ لگ رہا ہے اسے مٹانے کے لیے پارٹی خود کرپٹ لوگوں کو سزا دلوائے۔ آنے والے لوکل باڈیز الیکشن کے لیے ایماندار، سچے، وفادار پارٹی کے لوگوں کو ٹکٹ دیا جائے۔

یہ کامیابی نہیں ہے کہ آپ نے مخالفوں کو اپنی صفوں میں لائے ہیں اور اپنے وفاداروں کو دھکیل دیا ہے جس سے پارٹی کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ آپ ایم این ایز، ایم پی ایز اور وزرا کو ہدایت دیں کہ وہ ایک مہینے میں دو مرتبہ اپنی Constituency میں جا کر لوگوں سے ملیں ان کے مسائل حل کریں جس کی رپورٹ آپ اخباروں، چینلز اور عوام سے لیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں