زندگی اجیرن کیسے بن گئی
انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ عید سے قبل کراچی کی حیدری مارکیٹ میں گئے
ISLAMABAD:
جیرڈ ڈائمنڈ ایک معروف امریکی تاریخ دان جس کا کہنا ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کے خاتمے کی چند اہم وجوہات میں اسراف کی ثقافت اور وسائل کا بے تحاشا استعمال رہا ہے۔ راقم کے گزشتہ کالم کا بنیادی خیال اسی بات کے گرد گھومتا تھا، جس میں ہم نے اپنی زمین پر بڑھتی گرمی اور اس کی وجوہات کا جائزہ لیا تھا۔
ہمارے ایک شاگرد جو جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں، ہمارے کالم کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انھوں نے جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب تفصیل سے پڑھی ہے اور واقعی یہ حقیقت ہے کہ آج ہماری تباہی میں بطور صارف ضرورت سے زیادہ اشیا کا استعمال کرنا ہے، ہم صرف اپنا معیار زندگی اچھا ظاہر کرنے کے لیے بلاضرورت نہ جانے کیا کیا استعمال کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ عید سے قبل کراچی کی حیدری مارکیٹ میں گئے وہاں انھوں نے کچھ خواتین کی گفتگو سنی، ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ ''بس ایک سینڈل کی جوڑی اور خرید لوں پھر گھر چلتے ہیں۔'' دوسری خاتون کہتی ہیں کہ ''تمہارے پاس تو پہلے ہی پانچ جوڑی پڑی ہے اور منگنی پر ابھی دو مہینے پہلے ہی ایک نئی جوڑی تحفے میں ملی ہے، عید پر سسرال سے عیدی کے ساتھ سینڈل بھی آئے گی تم اتنی ساری سینڈلوں کا کیا اچار ڈالو گی؟'' تیسری عورت کہنے لگی ''ارے اسے خریدنے دو بھئی! عید پر سب نئی سینڈلیں پہنیں گی تو کیا یہ پرانی سینڈل پہنتے ہوئے اچھی لگے گی؟''
بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کیا، دنیا بھر میں اشیا کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا کلچر چل نکلا ہے، جس سے پروڈکشن والوں یعنی مال تیار کرنے والے سرمایہ داروں کو تو خوب فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ان کی مشینیں دن رات مال تیار کرتی ہیں اور انھیں زیادہ مال فروخت ہونے پر زیادہ منافع ہوتا ہے مگر زمین پر آلودگی بڑھتی جاتی ہے۔
زیادہ منافع کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی شے زیادہ عرصے قابل استعمال نہ رہے تا کہ ضرورت کے تحت وقفے وقفے سے نئی اشیا خریدی جائیں۔ پہلے اشیا تیار کرنے والے معیاری اور دیرپا اشیا استعمال کرتے تھے مثلاً راقم کے گھر میں بھٹو کے دور کا ایک پیڈسٹل فین ہے اور ایک سلائی مشین جو والدہ کو غالباً 1960ء میں جہیز میں ملی تھی موجود ہے اور ایک وال کلاک جو 1985ء میں خریدی گئی تھی آج بھی موجود ہیں اور بہترین طریقے سے استعمال میں ہیں جب کہ آج کل غیر معیاری اشیا بازار میں بھری پڑی ہیں، اسی طرح ڈسپوزایبل اشیا کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے جس سے دنیا بھر میں کچرے کے ڈھیر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن ایک مسئلہ تو ہمارے اپنے ذہن کا ہے کہ آخر ہم سوچتے کیوں نہیں؟ اپنے مسائل کی وجوہات اور ان کے حل کے لیے غور کیوں نہیں کرتے؟ گھریلو اشیا درست کرا کے گھر میں رکھنے کے بجائے پیسے آتے ہی نئے ڈیزائن و ماڈل کی اشیا گھر میں کیوں سجاتے ہیں؟ ٹی وی پہلے بلیک اینڈ وائٹ تھا تو رنگین کا سوچ کر نیا لیا پھر LCD آیا تو اچھا خاصا ٹی وی بھی گھر سے باہر پھینک دیا۔ موبائل فون کی تو کیا بات! ہر مہینے بعد بدلتا ہے، بس چلے تو صبح و شام بھی کپڑوں کی طرح موبائل فون بدلیں۔ حالانکہ اس کا کام کیا ہے؟ بس پیغام وصول کرنا اور بھیجنا جو ہر فون سے ہو سکتا ہے۔
اپنے اردگرد دودھ والے اور سونار والے کی دکان ہی کو دیکھ لیں وہاں کتنے واٹ کے اور کتنے بلب روشن ہوتے ہیں۔ جس قدر تعداد میں یہ بلب روشن کرتے ہیں اس سے آدھی سے بھی آدھی تعداد بلب کی کم کر کے بھی مال فروخت کیا جا سکتا ہے جس سے بجلی کی بچت اچھی خاصی ہو سکتی ہے۔ اسلام تو شاید ہمیں مخصوص معاملات ہی میں یاد آتا ہے ورنہ تو اسلام میں صرف سادگی کا درس یہ تمام مسائل حل کر دیتا ہے۔ راقم کے ایک قاری نے گزشتہ کالم کو پسند کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بہت سی باتیں لکھ کر دیں کہ آپ نے ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا، اسلام میں کس قدر اچھی تعلیمات ہیں کہ جن پر عمل کر کے اپنی دنیا کو جنت بنایا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو صد فی صد درست ہے کہ اسلام جس قسم کی سادگی کا درس دیتا ہے اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو آلودگی جیسے مسائل تو سرے سے پیدا ہی نہ ہوں اور معاشرے سے حرص و حسد کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ مثلاً ہمارے ایک قاری نے لکھا کہ حضرت عائشہؓ سے ان کا عروسی جوڑا دیگر خواتین اپنی شادی کے موقع پر مستعار لے جاتی تھیں گویا ایک جوڑے سے بے شمار شادیاں نمٹ جاتی تھیں۔
آج غور کیجیے جس کے پاس جتنے پیسے ہیں وہ اتنا ہی قیمتی جوڑا خریدتا ہے، کوئی 25 ہزار تو کوئی 50 ہزار سے بھی زائد کا۔ جس کی تنخواہ دس ہزار ہو اس کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے زائد مالیت کا جوڑا بھی خریدے اور قیمتی مرسڈیز کرائے پر لے کر شادی ہال تک کا سفر کرے۔ہم یہ بھی نہیں سوچتے ہماری رول ماڈل اسلامی شخصیات کا کردار کیا تھا؟ حضرت علیؓ تک تمام سربراہ مملکت نے پیوند لگے کپڑے پہنے، حضرت عمر بن عبدالعزیز بے پناہ دولت کے مالک، مگر لوگوں کو رول ماڈل کے طور پر سادگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، ایک ہی جوڑا پہنتے وہی دھوتے دوبارہ وہی پہنتے، سنت بھی یہی کہ پرانا کپڑا استعمال کیا جائے، بے شک پیوند ہی کیوں نہ لگا ہو۔ کوئی شے ضایع نہ ہو نہ ہی کوئی سامان ضرورت سے زیادہ ہو، اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا جائے۔
اب آئیے آپ اور میں اپنا اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ مثلاً میرے پاس کپڑوں کے کتنے جوڑے ہیں؟ اور کتنے کتنے قیمتی ہیں؟ میں کتنے جوڑے جوتوں کے رکھتا ہوں اور ہر سال مزید کتنے نئے جوڑے خریدتا ہوں؟ میں اپنے دفتر یا گھر میں اے سی کا استعمال ضرورت سے کس قدر زیادہ کرتا ہوں؟ میری سواری کی ضرورت موٹرسائیکل ہے یا کار؟ اگر کار ہے تو کتنے سی سی کی؟ پھر کار کا استعمال بلا ضرورت کتنا کرتا ہوں؟ خواتین خاص کر اپنا جائزہ لیں ان کے پاس سینڈلوں کے کتنے جوڑے ہیں اور ایک انسان جس کے صرف دو پاؤں ہوتے ہیں اس کی ضروریات کیا ہو سکتی ہیں؟ پرس جو ہر خاتون کی ضرورت ہوتی ہے کتنے قیمتی اور کتنی تعداد میں ہونے چاہئیں؟ ہمارا شادی کا قیمتی ترین جوڑا کتنے کا ہوتا ہے اور ہم اسے کتنے دن استعمال کرتے ہیں؟
ذرا ایک نظر اپنے آج سے 30، 40 سال قبل کل اور آج پر بھی ڈالیے! کل ہمارے پورے محلے میں بمشکل کسی ایک کے گھر فون ہوتا تھا، آج گھر کے تقریباً ہر فرد کے ہاتھوں میں وہ بھی بدلتے ماڈل کے ساتھ، کل شادی کے وقت دلہن گھر پر تیار ہوتی، کھانا محلے کی سڑک یا گلی میں دن کے وقت وہ بھی صرف دو ڈشوں کے ساتھ، کل گھر میں پینے کا پانی صراحی یا مٹکے میں ہوتا تھا آج کچن کا فریج بھی الگ ہوتا ہے۔ کل محلے میں ایک آدھا موٹرسائیکل اور چند ایک کے پاس سائیکل، آج تنگ گلیوں میں بھی فور ویل گھومتی ہیں، کل شہر کے دور دراز مقامات پر میڈیکل اسٹور تھے آج ہر گلی کے کونے پر، کل ہر گھر میں صحن ہوتا تھا، آج صحن والے گھر نظر نہیں آتے، کل چند ایک محلوں میں بجلی ہوا کرتی تھی سب بغیر بجلی کے زندگی بسر کرتے تھے آج دو گھنٹے کے لیے بجلی بند ہو تو زندگی کے معاملات بھی بند ہو جاتے ہیں۔
کل کی آسان زندگی آج کی اجیرن زندگی کیسے بن گئی؟ اس میں ہمارا انفرادی کردار کیا ہے؟ حضرت علیؓ کا قول ہے۔ ضرورتیں فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہیں خواہشیں بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں! آئیے غور کریں میں بھی اور آپ بھی!
جیرڈ ڈائمنڈ ایک معروف امریکی تاریخ دان جس کا کہنا ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کے خاتمے کی چند اہم وجوہات میں اسراف کی ثقافت اور وسائل کا بے تحاشا استعمال رہا ہے۔ راقم کے گزشتہ کالم کا بنیادی خیال اسی بات کے گرد گھومتا تھا، جس میں ہم نے اپنی زمین پر بڑھتی گرمی اور اس کی وجوہات کا جائزہ لیا تھا۔
ہمارے ایک شاگرد جو جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں، ہمارے کالم کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انھوں نے جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب تفصیل سے پڑھی ہے اور واقعی یہ حقیقت ہے کہ آج ہماری تباہی میں بطور صارف ضرورت سے زیادہ اشیا کا استعمال کرنا ہے، ہم صرف اپنا معیار زندگی اچھا ظاہر کرنے کے لیے بلاضرورت نہ جانے کیا کیا استعمال کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ عید سے قبل کراچی کی حیدری مارکیٹ میں گئے وہاں انھوں نے کچھ خواتین کی گفتگو سنی، ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ ''بس ایک سینڈل کی جوڑی اور خرید لوں پھر گھر چلتے ہیں۔'' دوسری خاتون کہتی ہیں کہ ''تمہارے پاس تو پہلے ہی پانچ جوڑی پڑی ہے اور منگنی پر ابھی دو مہینے پہلے ہی ایک نئی جوڑی تحفے میں ملی ہے، عید پر سسرال سے عیدی کے ساتھ سینڈل بھی آئے گی تم اتنی ساری سینڈلوں کا کیا اچار ڈالو گی؟'' تیسری عورت کہنے لگی ''ارے اسے خریدنے دو بھئی! عید پر سب نئی سینڈلیں پہنیں گی تو کیا یہ پرانی سینڈل پہنتے ہوئے اچھی لگے گی؟''
بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کیا، دنیا بھر میں اشیا کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا کلچر چل نکلا ہے، جس سے پروڈکشن والوں یعنی مال تیار کرنے والے سرمایہ داروں کو تو خوب فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ان کی مشینیں دن رات مال تیار کرتی ہیں اور انھیں زیادہ مال فروخت ہونے پر زیادہ منافع ہوتا ہے مگر زمین پر آلودگی بڑھتی جاتی ہے۔
زیادہ منافع کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی شے زیادہ عرصے قابل استعمال نہ رہے تا کہ ضرورت کے تحت وقفے وقفے سے نئی اشیا خریدی جائیں۔ پہلے اشیا تیار کرنے والے معیاری اور دیرپا اشیا استعمال کرتے تھے مثلاً راقم کے گھر میں بھٹو کے دور کا ایک پیڈسٹل فین ہے اور ایک سلائی مشین جو والدہ کو غالباً 1960ء میں جہیز میں ملی تھی موجود ہے اور ایک وال کلاک جو 1985ء میں خریدی گئی تھی آج بھی موجود ہیں اور بہترین طریقے سے استعمال میں ہیں جب کہ آج کل غیر معیاری اشیا بازار میں بھری پڑی ہیں، اسی طرح ڈسپوزایبل اشیا کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے جس سے دنیا بھر میں کچرے کے ڈھیر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن ایک مسئلہ تو ہمارے اپنے ذہن کا ہے کہ آخر ہم سوچتے کیوں نہیں؟ اپنے مسائل کی وجوہات اور ان کے حل کے لیے غور کیوں نہیں کرتے؟ گھریلو اشیا درست کرا کے گھر میں رکھنے کے بجائے پیسے آتے ہی نئے ڈیزائن و ماڈل کی اشیا گھر میں کیوں سجاتے ہیں؟ ٹی وی پہلے بلیک اینڈ وائٹ تھا تو رنگین کا سوچ کر نیا لیا پھر LCD آیا تو اچھا خاصا ٹی وی بھی گھر سے باہر پھینک دیا۔ موبائل فون کی تو کیا بات! ہر مہینے بعد بدلتا ہے، بس چلے تو صبح و شام بھی کپڑوں کی طرح موبائل فون بدلیں۔ حالانکہ اس کا کام کیا ہے؟ بس پیغام وصول کرنا اور بھیجنا جو ہر فون سے ہو سکتا ہے۔
اپنے اردگرد دودھ والے اور سونار والے کی دکان ہی کو دیکھ لیں وہاں کتنے واٹ کے اور کتنے بلب روشن ہوتے ہیں۔ جس قدر تعداد میں یہ بلب روشن کرتے ہیں اس سے آدھی سے بھی آدھی تعداد بلب کی کم کر کے بھی مال فروخت کیا جا سکتا ہے جس سے بجلی کی بچت اچھی خاصی ہو سکتی ہے۔ اسلام تو شاید ہمیں مخصوص معاملات ہی میں یاد آتا ہے ورنہ تو اسلام میں صرف سادگی کا درس یہ تمام مسائل حل کر دیتا ہے۔ راقم کے ایک قاری نے گزشتہ کالم کو پسند کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بہت سی باتیں لکھ کر دیں کہ آپ نے ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا، اسلام میں کس قدر اچھی تعلیمات ہیں کہ جن پر عمل کر کے اپنی دنیا کو جنت بنایا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو صد فی صد درست ہے کہ اسلام جس قسم کی سادگی کا درس دیتا ہے اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو آلودگی جیسے مسائل تو سرے سے پیدا ہی نہ ہوں اور معاشرے سے حرص و حسد کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ مثلاً ہمارے ایک قاری نے لکھا کہ حضرت عائشہؓ سے ان کا عروسی جوڑا دیگر خواتین اپنی شادی کے موقع پر مستعار لے جاتی تھیں گویا ایک جوڑے سے بے شمار شادیاں نمٹ جاتی تھیں۔
آج غور کیجیے جس کے پاس جتنے پیسے ہیں وہ اتنا ہی قیمتی جوڑا خریدتا ہے، کوئی 25 ہزار تو کوئی 50 ہزار سے بھی زائد کا۔ جس کی تنخواہ دس ہزار ہو اس کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے زائد مالیت کا جوڑا بھی خریدے اور قیمتی مرسڈیز کرائے پر لے کر شادی ہال تک کا سفر کرے۔ہم یہ بھی نہیں سوچتے ہماری رول ماڈل اسلامی شخصیات کا کردار کیا تھا؟ حضرت علیؓ تک تمام سربراہ مملکت نے پیوند لگے کپڑے پہنے، حضرت عمر بن عبدالعزیز بے پناہ دولت کے مالک، مگر لوگوں کو رول ماڈل کے طور پر سادگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، ایک ہی جوڑا پہنتے وہی دھوتے دوبارہ وہی پہنتے، سنت بھی یہی کہ پرانا کپڑا استعمال کیا جائے، بے شک پیوند ہی کیوں نہ لگا ہو۔ کوئی شے ضایع نہ ہو نہ ہی کوئی سامان ضرورت سے زیادہ ہو، اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا جائے۔
اب آئیے آپ اور میں اپنا اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ مثلاً میرے پاس کپڑوں کے کتنے جوڑے ہیں؟ اور کتنے کتنے قیمتی ہیں؟ میں کتنے جوڑے جوتوں کے رکھتا ہوں اور ہر سال مزید کتنے نئے جوڑے خریدتا ہوں؟ میں اپنے دفتر یا گھر میں اے سی کا استعمال ضرورت سے کس قدر زیادہ کرتا ہوں؟ میری سواری کی ضرورت موٹرسائیکل ہے یا کار؟ اگر کار ہے تو کتنے سی سی کی؟ پھر کار کا استعمال بلا ضرورت کتنا کرتا ہوں؟ خواتین خاص کر اپنا جائزہ لیں ان کے پاس سینڈلوں کے کتنے جوڑے ہیں اور ایک انسان جس کے صرف دو پاؤں ہوتے ہیں اس کی ضروریات کیا ہو سکتی ہیں؟ پرس جو ہر خاتون کی ضرورت ہوتی ہے کتنے قیمتی اور کتنی تعداد میں ہونے چاہئیں؟ ہمارا شادی کا قیمتی ترین جوڑا کتنے کا ہوتا ہے اور ہم اسے کتنے دن استعمال کرتے ہیں؟
ذرا ایک نظر اپنے آج سے 30، 40 سال قبل کل اور آج پر بھی ڈالیے! کل ہمارے پورے محلے میں بمشکل کسی ایک کے گھر فون ہوتا تھا، آج گھر کے تقریباً ہر فرد کے ہاتھوں میں وہ بھی بدلتے ماڈل کے ساتھ، کل شادی کے وقت دلہن گھر پر تیار ہوتی، کھانا محلے کی سڑک یا گلی میں دن کے وقت وہ بھی صرف دو ڈشوں کے ساتھ، کل گھر میں پینے کا پانی صراحی یا مٹکے میں ہوتا تھا آج کچن کا فریج بھی الگ ہوتا ہے۔ کل محلے میں ایک آدھا موٹرسائیکل اور چند ایک کے پاس سائیکل، آج تنگ گلیوں میں بھی فور ویل گھومتی ہیں، کل شہر کے دور دراز مقامات پر میڈیکل اسٹور تھے آج ہر گلی کے کونے پر، کل ہر گھر میں صحن ہوتا تھا، آج صحن والے گھر نظر نہیں آتے، کل چند ایک محلوں میں بجلی ہوا کرتی تھی سب بغیر بجلی کے زندگی بسر کرتے تھے آج دو گھنٹے کے لیے بجلی بند ہو تو زندگی کے معاملات بھی بند ہو جاتے ہیں۔
کل کی آسان زندگی آج کی اجیرن زندگی کیسے بن گئی؟ اس میں ہمارا انفرادی کردار کیا ہے؟ حضرت علیؓ کا قول ہے۔ ضرورتیں فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہیں خواہشیں بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں! آئیے غور کریں میں بھی اور آپ بھی!