دبئی اجلاس پیپلز پارٹی کرپٹ وزرا کے خلاف کارروائی سے گریزاں
سندھ میں اس وقت سیلابی صورت حال ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزرا منظر عام سے غائب ہیں
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے دبئی میں طویل سیاسی بحث کے بعد سندھ کابینہ میں بظاہر تبدیلیاں تو کردیں لیکن جن وزرا پر مبینہ طور پر کرپشن اور عوامی امور سے متعلق شکایات موصول ہورہی تھیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث کئی وزرا کے قلمدانوں میں معمولی تبدیلی کرکے انھیں کئی اہم محکمے تفویض کردیے گئے ہیں جس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سندھ کی سرکار نے کرپشن کے خلاف موثر کارروائی کیلیے فی الحال جامع حکمت عملی مرتب نہیں کی ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دبئی میں ہونے والے اجلاس میں سندھ کی سیاسی صورت حال، طرز حکمرانی میں تبدیلی، کرپشن کے خلاف کارروائی اور دیگر امور سے متعلق طویل مشاورت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ طے کیا ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے پیپلز پارٹی پرالزامات کا جواب سیاسی اور جمہوری انداز میں دیا جائے گا اور فی الحال ایم کیو ایم کے ساتھ کسی بھی سطح پر اتحاد نہیں کیا جائے گا۔
بلدیاتی انتخابات میں جہاں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوگی وہاں پیپلز پارٹی انفرادی حیثیت میں حصہ لے گی اور جہاں پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوگی وہاں دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر ہر ضلع میں الگ الگ سیاسی اتحاد قائم کیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں کرپشن کے خاتمے کیلیے مختلف اقدام پر غوربھی کیا گیا اور اس سلسلے میں بیورو کریسی اور کابینہ میں بھی مرحلہ وار تبدیلیاں کی جائیں گی تاہم اجلاس کے ایک روز بعد سندھ کابینہ میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
انھیںدیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کابینہ میں موجود بعض وزرا کے قلمدان تو تبدیل کردیے گئے ہیں تاہم جن وزراکے خلاف کرپشن کی شکایات تھیں ان کو فارغ نہیں کیا گیا اور ان کے محکموں میں معمولی ردوبدل کرکے انھیں مزید اہم محکمے دے دیے گئے ہیں۔ سیاسی حلقوںکا کہناہے کہ اس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کرپشن میں ملوث وزرا کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی کے بجائے اہم محکمے دیے جائیں گے تو اس سے طرز حکمرانی میں اصلاح نہیں ہوگی بلکہ کرپشن بڑھے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اور اہم اداروں کی نشاندہی کے بعد طرز حکمرانی میں بہتری لانے کی نشاندہی کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت کے معاملات پر توجہ دینی شروع کردی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت دبئی میں بیٹھ کر سندھ کی قسمت کے فیصلے کررہی ہے اور سندھ حکومت کے معاملات کو د بئی سے چلایاجارہا ہے۔
سندھ میں اس وقت سیلابی صورت حال ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزرا منظر عام سے غائب ہیں صرف پریس ریلیز کی حد تک بیانات دیے جارہے ہیں تاہم عملی طور پر اقدام نظر نہیں آرہے۔ 2010میں سندھ میں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی۔
جس میں بے پناہ نقصان ہوا تھا، اس کے بعد سندھ حکومت کو تھر میں قحط کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی سندھ حکومت کے دعووں کے باوجود تھر میں صورت حال خراب ہے اور سائیں سرکار سندھ کے عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے دبئی میں اجلاس میں مصروف ہے اور وہاں سے سندھ حکومت کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے مالی امور اور قدرتی وسائل سمیت دیگر معاملات جو وفاقی حکومت سے متعلق ہیں وہ وزیراعظم کے سامنے بھرپور طریقے سے اٹھائے جائیں گے۔
سندھ حکومت وزیراعظم سے مطالبہ کرے گی کہ سندھ کی شکایات فوری طورپر دور کی جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ اگر وفاقی اداروں کی جانب سے سندھ حکومت کی مجاز اتھارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر کرپشن میں ملوث اہم شخصیات اور افسران کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو اس معاملے پر بھرپور احتجاج کیا جائے گااور پارلیمنٹ میں اٹھانے کے علاوہ عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت کرپشن کے خاتمے اور ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل کیلیے جامع پالیسی بنائے گی۔
انتہائی باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دبئی میں ہونے والے اجلاس میں سندھ کی سیاسی صورت حال، طرز حکمرانی میں تبدیلی، کرپشن کے خلاف کارروائی اور دیگر امور سے متعلق طویل مشاورت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ طے کیا ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے پیپلز پارٹی پرالزامات کا جواب سیاسی اور جمہوری انداز میں دیا جائے گا اور فی الحال ایم کیو ایم کے ساتھ کسی بھی سطح پر اتحاد نہیں کیا جائے گا۔
بلدیاتی انتخابات میں جہاں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوگی وہاں پیپلز پارٹی انفرادی حیثیت میں حصہ لے گی اور جہاں پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوگی وہاں دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر ہر ضلع میں الگ الگ سیاسی اتحاد قائم کیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں کرپشن کے خاتمے کیلیے مختلف اقدام پر غوربھی کیا گیا اور اس سلسلے میں بیورو کریسی اور کابینہ میں بھی مرحلہ وار تبدیلیاں کی جائیں گی تاہم اجلاس کے ایک روز بعد سندھ کابینہ میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
انھیںدیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کابینہ میں موجود بعض وزرا کے قلمدان تو تبدیل کردیے گئے ہیں تاہم جن وزراکے خلاف کرپشن کی شکایات تھیں ان کو فارغ نہیں کیا گیا اور ان کے محکموں میں معمولی ردوبدل کرکے انھیں مزید اہم محکمے دے دیے گئے ہیں۔ سیاسی حلقوںکا کہناہے کہ اس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کرپشن میں ملوث وزرا کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی کے بجائے اہم محکمے دیے جائیں گے تو اس سے طرز حکمرانی میں اصلاح نہیں ہوگی بلکہ کرپشن بڑھے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اور اہم اداروں کی نشاندہی کے بعد طرز حکمرانی میں بہتری لانے کی نشاندہی کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت کے معاملات پر توجہ دینی شروع کردی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت دبئی میں بیٹھ کر سندھ کی قسمت کے فیصلے کررہی ہے اور سندھ حکومت کے معاملات کو د بئی سے چلایاجارہا ہے۔
سندھ میں اس وقت سیلابی صورت حال ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزرا منظر عام سے غائب ہیں صرف پریس ریلیز کی حد تک بیانات دیے جارہے ہیں تاہم عملی طور پر اقدام نظر نہیں آرہے۔ 2010میں سندھ میں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی۔
جس میں بے پناہ نقصان ہوا تھا، اس کے بعد سندھ حکومت کو تھر میں قحط کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی سندھ حکومت کے دعووں کے باوجود تھر میں صورت حال خراب ہے اور سائیں سرکار سندھ کے عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے دبئی میں اجلاس میں مصروف ہے اور وہاں سے سندھ حکومت کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے مالی امور اور قدرتی وسائل سمیت دیگر معاملات جو وفاقی حکومت سے متعلق ہیں وہ وزیراعظم کے سامنے بھرپور طریقے سے اٹھائے جائیں گے۔
سندھ حکومت وزیراعظم سے مطالبہ کرے گی کہ سندھ کی شکایات فوری طورپر دور کی جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ اگر وفاقی اداروں کی جانب سے سندھ حکومت کی مجاز اتھارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر کرپشن میں ملوث اہم شخصیات اور افسران کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو اس معاملے پر بھرپور احتجاج کیا جائے گااور پارلیمنٹ میں اٹھانے کے علاوہ عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت کرپشن کے خاتمے اور ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل کیلیے جامع پالیسی بنائے گی۔