اِس بار کراچی کی عید کچھ مختلف تھی
اشرف کی چہرے پر بے انتہا خوشی دیکھ کر مجھے احساس ہوز کہ واقعی اب کراچی کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔
لاہور:
آجکل یہ مناظر عام ہوتے جارہے ہیں کہ آپ اکثر نوجوانوں کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آئے گی۔ جب سوال کیا جائے کہ بھائی کیوں پی رہے ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ دوستوں سے عادت پڑ گئی یا پھر فلموں اور ڈراموں کے اثر نے اس قدر مجبور کیا کہ ہم سگریٹ پینے لگے، خیر میں کوئی سگریٹ پینے والوں کو تنبیہہ نہیں کر رہا، اللہ کے کرم سے ہم ان چیزوں سے دور ہیں لیکن کبھی کبھار پان کھا لیتے ہیں وہ بھی بس اس لئے کہ اپنے بڑوں کی روایت قائم و دائم رہے۔ آپس کی بات ہے یہ تو ایک بہانہ ہے دراصل رات کھانے کے بعد ایک پان نہ چبائیں تو نیند ہی نہیں آتی۔
کل رات میں پان لینے گیا تو دکان پر بہت رش تھا، چونکہ ہم صحافت کے بہت ہی معمولی سے طالب علم ہیں تو اشرف بھائی پان والے کے ساتھ اکثر و بیشتر ملکی حالات سمیت دیگر امور پر تجزیہ و تبصرہ کرتے تھے۔ لیکن کل تو میرے جاتے ہی ان کے چہرے پر ایک رونق آگئی کہنے لگے کہ ارے عون میاں کہاں غائب تھے پورے رمضان؟ میں نے کہا بھئی ہمارے ایک قریبی دوست پورے رمضان سگریٹ نہیں پیتے تو اس بار ہم نے سوچا کہ ہم پان نہ کھائیں گے تو بس۔
خیر اشرف بھائی نے کہا آج آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے، جس پر میں سمجھا کہ یہ بولیں گے کہ انمول کریم کرانتی کا پان 2 روپے مہنگا ہوگیا، لیکن پھر سوچا جو بھی ہو پان تو یہیں سے کھاؤں گا کیونکہ بے چارے اشرف بھائی کھوکے ہی سے اپنا پورا گھرانہ چلاتے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے، المختصر ابھی لوگوں کا رش کم ہی ہوا تھا کہ اشرف صاحب کہنے لگے عون میاں پہلی بار پہلی بار۔۔۔۔ اور خوب ہنسنے لگے میں یہ سمجھا کہ موصوف کو کسی پروگرام میں عمرے کا ٹکٹ مل گیا۔ میں نے کہا ارے کیا ہوا پہلی بار جس پر وہ بولے 14 سال بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ یہ عید میں نے بھرپور طریقے سے گزاری۔ میں نے کہا کیوں آپ کی بیگم عید پر اپنی امی یہاں چلی گئیں جس پر اتنا خوش ہیں؟ ارے اس سے بھی بڑی خبر ہے اشرف بھائی گویا ہوئے، میں نے کہا کیا ہے بتا بھی دیں؟ کہنے لگے اس بار مجھے دکان کی عیدی نہیں دینی پڑی! دکان کی عیدی کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں! اشرف صاحب نے کہا ارے بھئی ہر سال لوگ کبھی فطرہ کے نام پر اور کبھی زبردستی عیدی اور فلاحی کاموں کے لئے زکوۃ وغیرہ طلب کرتے تھے۔ لیکن اس سال ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر میں بہت خوش ہوں، میں نے پوچھا کون لوگ مانگتے تھے؟ جس پر موصوف فرمانے لگے وہی نامعلوم افراد اور کون!
اشرف بھائی حد ہوگئی یعنی رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کے بعد آپ چند پیسے بھی غریبوں کو نہیں دے سکتے؟ میں نے کچھ برہمی سے اشرف بھائی سے کہا، جس پر اشرف صاحب نے میری طرف دیکھا اور ان کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں کہنے لگے عون میاں جب آپ لوگ سحری اور افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہو ناں، اس وقت ہم بہت مشکل سے سوکھی روٹی، ایک کھجور اور فقط ایک گلاس پانی سے افطار کرتے ہیں کیونکہ آجکل کی مہنگائی اور اس پر وسائل نہ ہونے کے سبب ہم وہ سب بھی نہیں کھا پی سکتے جو لوگ اپنے کھانوں کی میزوں پر ضائع کردیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ہم سے ہر سال رمضان میں زبردستی غریبوں کے نام پر پیسے لینے آجاتے تھے، جو اللہ کے فضل و کرم سے اس بار نہیں لئے گئے اور الحمداللہ میں نے بچوں کو نئے کپڑے بھی دلوائے اور اچھے طریقے سے عید منائی۔
میں نے اشرف بھائی کی باتوں کو غور سے سنا اور پان منہ میں رکھ کر چل دیا۔ میں سوچنے لگا کہ کوئی تو وجہ ہے کہ وہی کراچی جہاں بارش کی پیش گوئیاں تو ہوتی تھیں لیکن قیامت خیز گرمی ہی پڑتی تھی، امن و امان کی باتیں تو ہوتی تھیں لیکن درجنوں کے حساب سے لاشیں گرتیں، اور ظاہر ہے جب خونِ ناحق زمین پر گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اس زمین پر نہیں آتی ہے۔
اشرف کی چہرے پر بے انتہا خوشی دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ واقعی اب کراچی کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، اس شہر کی بہاریں واپس آرہی ہیں، یہاں کی خوشیاں لوٹ رہی ہیں، تب ہی تو اس سال اہلیان کراچی نے عید کے موقع پر 7 ارب کی خریداری کرکے گزشتہ دس سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ارے ارے ارے! آپ اسے فضول خرچی میں شمار نہیں کیجئے گا، اس بات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے سالوں میں عوام شاپنگ ہی کیا کرتی؟ کہ جب وہ اپنے پیسوں کو چوروں، ڈکیتوں اور لٹیروں کے ہاتھوں ہی سے نہ بچا پاتے تھے لیکن اس سال ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ عوام مطمئن تھے، سب کے چہرے کھلکھلا رہے تھے، کیونکہ اس دفعہ کراچی میں امن و امن کی صورتحال بہتر تھی اور جب حکومت نے امن و امان قائم کرنے کو اپنا پہلا ٹاسک بنایا تو پھر سب کچھ بہتر ہونا شروع ہوگیا۔
[poll id="555"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آجکل یہ مناظر عام ہوتے جارہے ہیں کہ آپ اکثر نوجوانوں کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آئے گی۔ جب سوال کیا جائے کہ بھائی کیوں پی رہے ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ دوستوں سے عادت پڑ گئی یا پھر فلموں اور ڈراموں کے اثر نے اس قدر مجبور کیا کہ ہم سگریٹ پینے لگے، خیر میں کوئی سگریٹ پینے والوں کو تنبیہہ نہیں کر رہا، اللہ کے کرم سے ہم ان چیزوں سے دور ہیں لیکن کبھی کبھار پان کھا لیتے ہیں وہ بھی بس اس لئے کہ اپنے بڑوں کی روایت قائم و دائم رہے۔ آپس کی بات ہے یہ تو ایک بہانہ ہے دراصل رات کھانے کے بعد ایک پان نہ چبائیں تو نیند ہی نہیں آتی۔
کل رات میں پان لینے گیا تو دکان پر بہت رش تھا، چونکہ ہم صحافت کے بہت ہی معمولی سے طالب علم ہیں تو اشرف بھائی پان والے کے ساتھ اکثر و بیشتر ملکی حالات سمیت دیگر امور پر تجزیہ و تبصرہ کرتے تھے۔ لیکن کل تو میرے جاتے ہی ان کے چہرے پر ایک رونق آگئی کہنے لگے کہ ارے عون میاں کہاں غائب تھے پورے رمضان؟ میں نے کہا بھئی ہمارے ایک قریبی دوست پورے رمضان سگریٹ نہیں پیتے تو اس بار ہم نے سوچا کہ ہم پان نہ کھائیں گے تو بس۔
خیر اشرف بھائی نے کہا آج آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے، جس پر میں سمجھا کہ یہ بولیں گے کہ انمول کریم کرانتی کا پان 2 روپے مہنگا ہوگیا، لیکن پھر سوچا جو بھی ہو پان تو یہیں سے کھاؤں گا کیونکہ بے چارے اشرف بھائی کھوکے ہی سے اپنا پورا گھرانہ چلاتے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے، المختصر ابھی لوگوں کا رش کم ہی ہوا تھا کہ اشرف صاحب کہنے لگے عون میاں پہلی بار پہلی بار۔۔۔۔ اور خوب ہنسنے لگے میں یہ سمجھا کہ موصوف کو کسی پروگرام میں عمرے کا ٹکٹ مل گیا۔ میں نے کہا ارے کیا ہوا پہلی بار جس پر وہ بولے 14 سال بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ یہ عید میں نے بھرپور طریقے سے گزاری۔ میں نے کہا کیوں آپ کی بیگم عید پر اپنی امی یہاں چلی گئیں جس پر اتنا خوش ہیں؟ ارے اس سے بھی بڑی خبر ہے اشرف بھائی گویا ہوئے، میں نے کہا کیا ہے بتا بھی دیں؟ کہنے لگے اس بار مجھے دکان کی عیدی نہیں دینی پڑی! دکان کی عیدی کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں! اشرف صاحب نے کہا ارے بھئی ہر سال لوگ کبھی فطرہ کے نام پر اور کبھی زبردستی عیدی اور فلاحی کاموں کے لئے زکوۃ وغیرہ طلب کرتے تھے۔ لیکن اس سال ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر میں بہت خوش ہوں، میں نے پوچھا کون لوگ مانگتے تھے؟ جس پر موصوف فرمانے لگے وہی نامعلوم افراد اور کون!
اشرف بھائی حد ہوگئی یعنی رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کے بعد آپ چند پیسے بھی غریبوں کو نہیں دے سکتے؟ میں نے کچھ برہمی سے اشرف بھائی سے کہا، جس پر اشرف صاحب نے میری طرف دیکھا اور ان کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں کہنے لگے عون میاں جب آپ لوگ سحری اور افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہو ناں، اس وقت ہم بہت مشکل سے سوکھی روٹی، ایک کھجور اور فقط ایک گلاس پانی سے افطار کرتے ہیں کیونکہ آجکل کی مہنگائی اور اس پر وسائل نہ ہونے کے سبب ہم وہ سب بھی نہیں کھا پی سکتے جو لوگ اپنے کھانوں کی میزوں پر ضائع کردیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ہم سے ہر سال رمضان میں زبردستی غریبوں کے نام پر پیسے لینے آجاتے تھے، جو اللہ کے فضل و کرم سے اس بار نہیں لئے گئے اور الحمداللہ میں نے بچوں کو نئے کپڑے بھی دلوائے اور اچھے طریقے سے عید منائی۔
میں نے اشرف بھائی کی باتوں کو غور سے سنا اور پان منہ میں رکھ کر چل دیا۔ میں سوچنے لگا کہ کوئی تو وجہ ہے کہ وہی کراچی جہاں بارش کی پیش گوئیاں تو ہوتی تھیں لیکن قیامت خیز گرمی ہی پڑتی تھی، امن و امان کی باتیں تو ہوتی تھیں لیکن درجنوں کے حساب سے لاشیں گرتیں، اور ظاہر ہے جب خونِ ناحق زمین پر گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اس زمین پر نہیں آتی ہے۔
اشرف کی چہرے پر بے انتہا خوشی دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ واقعی اب کراچی کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، اس شہر کی بہاریں واپس آرہی ہیں، یہاں کی خوشیاں لوٹ رہی ہیں، تب ہی تو اس سال اہلیان کراچی نے عید کے موقع پر 7 ارب کی خریداری کرکے گزشتہ دس سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ارے ارے ارے! آپ اسے فضول خرچی میں شمار نہیں کیجئے گا، اس بات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے سالوں میں عوام شاپنگ ہی کیا کرتی؟ کہ جب وہ اپنے پیسوں کو چوروں، ڈکیتوں اور لٹیروں کے ہاتھوں ہی سے نہ بچا پاتے تھے لیکن اس سال ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ عوام مطمئن تھے، سب کے چہرے کھلکھلا رہے تھے، کیونکہ اس دفعہ کراچی میں امن و امن کی صورتحال بہتر تھی اور جب حکومت نے امن و امان قائم کرنے کو اپنا پہلا ٹاسک بنایا تو پھر سب کچھ بہتر ہونا شروع ہوگیا۔
[poll id="555"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس