جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ انھیں منظورہے۔


Editorial July 24, 2015
پولنگ کے لیے بائیو میٹرک سسٹم اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ فوٹو: وزارت قانون

مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے گزشتہ روز اپنی حتمی رپورٹ حکومت کو ارسال کر دی ہے۔حکومت نے یہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر رکھ دی ہے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں عام انتخابات میں منظم دھاندلی' الیکشن شفاف اور قانون کے مطابق نہ ہونے اور عوام کا مینڈیٹ چرانے کے الزامات مسترد کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا۔انھوں نے اپنے خطاب میں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کی توثیق ہے اور اس رپورٹ کے بعد پاکستان نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا چاہیے' انھوں نے کہا کہ اب تک جو کچھ ہوا' ہم اسے فراموش کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئیے اب پرامن اور پرعزم سفر کا آغاز کریں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ انھیں منظورہے۔

مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی یا غیر شفافیت کی باتیں' الیکشن نتائج کے فوراً بعد ہی سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں' آہستہ آہستہ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا' تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اسلام آباد میں دھرنا دے دیا' دونوں جماعتوں کا یہ دھرنا پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا' پھر یہ دھرنے ختم ہو گئے لیکن الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ چلتا رہا' بالآخر حکومت اور پاکستان تحریک انصاف باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کے جوڈیشل کمیشن پر متفق ہو گئیں۔

وفاقی حکومت نے رواں برس یکم اپریل کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کا آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے اجراء کے بعد 6 اپریل 2015ء کو چیف جسٹس پاکستان ناصر الملک نے کمیشن تشکیل دیا۔ اس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک تھے جب کہ جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان اس کے رکن تھے۔ یوںیہ تین رکنی جوڈیشل کمیشن تھا۔ اس اعلیٰ سطح کے جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس 9اپریل کو منعقد ہوا۔

جس کے بعد 85دن تک جوڈیشل کمیشن نے اپنی کارروائی جاری رکھی۔اس دوران الیکشن کمیشن' پاکستان تحریک انصاف' مسلم لیگ ق' ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی طرف سے تقریباً 58 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے تھے۔ یوں ایک طویل انتظار کے بعد فیصلہ سامنے آ گیا ہے' جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعدانتخابی دھاندلی کے حوالے سے منظر نامہ واضح ہو گیا ہے' اس رپورٹ کو تمام سیاسی جماعتوں کو مثبت پیرائے میں لینا چاہیے اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش سے اجتناب کرنا چاہیے۔کمیشن کی رپورٹ کوکسی کی فتح یا شکست سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے اور تلخ نوعیت کی بیان بازی سے بچنا چاہیے بلکہ اسے یوں دیکھنا چاہیے کہ فریقین نے آئین و قانون کا راستہ اختیار کیا اور کمیشن کی رپورٹ یا فیصلے کو تسلیم کیا۔

یوں اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے' تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ مئی 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کی بات سب نے کی تھی لیکن اس معاملے کو صرف تحریک انصاف نے اٹھایا۔ پاکستان میں یہ روایت پختہ ہو گئی ہے کہ ہارنے والا فریق اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا اور جیتنے والے کو دھاندلی سے جیتنے کا الزام لگاتا ہے' جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد اب اس کلچر کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ اس فیصلے سے مستقبل میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ الیکشن میں دھاندلی یا بے ضابطگی ہوتی رہتی ہے' اس کے ازالے کے لیے قانون موجود ہے۔

اصولی طور پر اس راستے کو اختیار کیا جانا چاہیے۔ محض الزامات کی بنیاد پر جلسے جلوس نکلنا جمہوری طرز عمل نہیں ہے تاہم یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی یا بے ضابطگی کے معاملات کو حل کرنے کے لیے طریقہ کار خاصا پیچیدہ اور طویل ہے۔ اسے سہل بنایا جانا چاہیے تاکہ فیصلہ جلد از جلد سامنے آ سکے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی تقریر میں بردبار لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ انھوں نے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کا بھی ذکر کیا ہے۔

بلاشبہ انتخابی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مستقبل میں جو انتخابات ہوں 'ان میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے جس سے انفرادی دھاندلی اور بے ضابطگیوں کا امکان مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ پولنگ کے لیے بائیو میٹرک سسٹم اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس سسٹم کو اختیار کر کے الیکشن نتائج کو غیر متنازعہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں مستقبل کے الیکشن کو بہتر بنانے کی راہیں کھول دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں