بلاول بھٹو صلائے عام آخری حصہ
سندھ میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا کوئی بھی نوٹس نہیں لے پایا ہے
بھٹو نے عوام کو بھکاری بنانے کی بجائے انھیں روزگار کے وسائل دیے آپ بھی معذور لوگوں کو بھی روزگار کے لیے وسائل فراہم کریں جیسا کہ کسی کو دکان کھلوا دیں، کسی کو ریڑھی دلوا دیں، اس طرح سے وہ بھکاری بننے سے بچ جائیں گے۔ تعلیم، صحت، آبپاشی، فاریسٹ وغیرہ کے لیے وہ وزرا رکھیں جو یہ کام کرنا جانتے ہوں۔
ایسا نہ ہو جیسے تھر کے سلسلے میں ہوا کہ وہاں پر افسران اور elected لوگوں نے بجائے قحط زدہ لوگوں کی خدمت اور مدد کرنے کے خود ڈٹ کر کھا رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ تفریح کے لیے گئے ہیں جس کی ویڈیو جب سوشل میڈیا کے ذریعے تمام چینلز پر دکھائی گئی تو بہت افسوس ہوا مگر اس حوالے سے پارٹی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
سندھ میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا کوئی بھی نوٹس نہیں لے پایا ہے اور خاص طور پر سندھ تو عورتوں کے لیے جہنم بن گیا ہے جہاں پر ان کی عزت محفوظ نہیں رہی جس میں نابالغ معصوم چھوٹی بچیوں کے ساتھ بھی اجتماعی زیادتی کی گئی، آپ کو چاہیے کہ جو بھی سندھ اسمبلی میں بل پاس ہو کر ایکٹ، قانون یا آرڈیننس بن چکے ہیں ان پر سختی سے عمل کروائیں جس کے لیے آپ کو ملکی معاملوں کے بارے میں خود معلومات رکھنی پڑیں گی۔
آپ پورا سندھ گھومیں اور پھر پنجاب میں، وہ بھی کار میں بیٹھ کر تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سندھ کیا ہے اور پنجاب کیا ہے، پنجاب لگتا ہے جیسے بیرون ملک کا ترقی یافتہ صوبہ ہے، یہ فرق کیوں ہے، یہاں ہمارے وزرا، حکومت اور افسران کیا کر رہے ہیں جنھیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں accountability شروع کروائیں اور صرف یہ دیکھیں جو لوگ کچھ بھی نہیں تھے اب کروڑ پتی کیسے بنے جس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ ہندو کمیونٹی سندھ چھوڑ کر ہندوستان کیوں جا رہی ہے اس کے جانے سے سب سے بڑا نقصان پی پی پی کو ہوا ہے۔
اس لیے اس پر غور کریں اور عمل کریں صرف میٹنگز سے کچھ نہیں ہوتا اس کا follow-up پر عمل کروائیں۔ آپ ایسے پڑھے لکھے اور وفادار آدمی کو تلاش کریں جو آپ کا پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرے اور آپ کو کام میں عمل کروانے کے لیے یاد دلاتے رہیں، مگر پھر بھی اس پر اتنا انحصار نہ کریں اور خود چیزوں کو یاد رکھیں جیسے بھٹو کرتے تھے۔ کراچی میں لیاری اور ملیر جو پی پی کے گڑھ تھے وہاں جا کر انھیں واپس لے آئیں ، سندھ کا چیف منسٹر قائم علی شاہ جیسا نہیں بلکہ سکندر میندھرو یا پھر مراد علی شاہ جیسا ہو جو کام کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پورے ملک کی پارٹی ہے اس لیے عوام کے مسائل بھی اس لیول پر حل ہونے چاہیے تھے جس میں سندھ کے اندر ریلوے نظام تباہ ہو چکا ہے جس کو درست نہیں کیا گیا۔
اب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالتے ہی پنجاب کے اندر ریلوے نظام صحیح کر دیا ہے جس کے برعکس پی پی پی سندھ نے کوئی آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی ریلوے کے وزیر سے رابطہ کیا ہے، پورے سندھ میں بجلی 18 سے 20 گھنٹے نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کئی لوگ حال ہی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نہ صرف یہ بلکہ سندھ کا پورا کاروبار اور ترقی بجلی نہ ہونے سے تباہ ہے۔
پی پی اپنے دور میں رینٹل پاور جیسا منصوبہ پورا نہیں کر سکی بلکہ اربوں روپے تباہ ہو گئے اور پارٹی کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے جنگلات تباہ کر دیے گئے جس پر بااثر لوگوں نے قبضہ کر کے وہاں پر کیا کچھ نہ بنوا ڈالا جس سے ہمارے صوبے کا ماحولیاتی نظام تباہ ہو گیا۔ بھٹو تو ملک کے اندر درخت لگانے کی مہم کے لیے ملک سے باہر جا کر بھی درختوں کے نئے species لا کر لگواتے۔ ہمارے wetlands جو پوری دنیا میں مشہور ہیں، بے دھیانی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہمارے لوگ اس خوبصورت ورثے سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
تاریخی ورثے میں موئن جو دڑو، کوٹ ڈیجی، عمرکوٹ، رنی کوٹ اور گورکھ ہل اسٹیشن کئی سالوں سے انتظار میں ہیں کہ کوئی انھیں اس قابل بنائے جہاں عام آدمی جا کر دیکھ سکے کیونکہ ابھی تک ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ منچھر، کینجھر جھیلیں جو ہمارا سرمایہ ہیں تباہ ہو چکی ہیں جس کے سنبھالنے کے لیے محکمے تو بنائے گئے ہیں مگر ان کے افسران نے کبھی وہاں جا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ ٹھٹھہ میں دنیا کے دوسرے نمبر پر مکلی کا قبرستان جہاں ایک تاریخ مدفن ہے تباہ ہو رہا ہے۔
دریائے سندھ کا کیا حال ہے، ساحلی علاقوں سے لوگ کیوں نقل مکانی کر گئے ہیں ان کے مال مویشی، مچھلی، زرعی زمینیں سمندر کے پانی کی نظر ہو گئی ہیں ان کے مکان منہدم ہو گئے ہیں، روزگار نہیں رہا مگر اب بھٹو کہاں سے آئے جو ان سوالوں کا جواب دے اور ان مسائل کو حل کرے۔
سندھ کی تعلیم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں اور کچھ میں وڈیروں نے اپنی اوطاقیں بنائی ہوئی ہیں اور جو چل رہے ہیں وہ بجٹ اور دوسری سہولتوں کے فقدان سے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں پھر ہمارے وہ اساتذہ جو بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں مگر پڑھانے کے بجائے سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر گاؤں میں نوکری نہیں کرنا چاہتے اور بڑے بڑے شہروں میں اپنے کلینک اور میڈیکل چلا کر صرف پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو Shelter ہمارے منتخب نمایندے دے رہے ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر پی پی سے ہے۔
جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو عوام نے ایم آر ڈی کی تحریک میں خاص طور پر سندھ میں بھرپور حصہ لیا اور اپنی جانیں قربان کیں، جس میں سرفہرست ضلع دادو میں تعلقہ خیر پور ناتھن شاہ کے متعدد گاؤں میں دفن ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے وارثوں سے ملنے کے لیے کوئی نہیں جاتا، ان کی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے، سالانہ تقریب کے موقعے پر پی پی کی طرف سے کوئی نہیں جاتا، ان شہیدوں کی قربانیوں کو بھلایا گیا ہے، آپ وہاں جائیں، لوگوں سے ملیں تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ لاوارث ہیں۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر آپ یہ یاد رکھیں کہ دولت کچھ بھی نہیں وہ مرنے کے بعد یہیں رہ جاتی ہے مگر عوام، ملک اور جمہوریت کے لیے کیے کام ہمیشہ ہمیں امر کر دیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن آپ کے کیے ہوئے کام اور خدمت آپ کو تاریخ میں اور عوام کے دل و دماغ میں یاد رکھیں گے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ بھٹو اور بے نظیر آج بھی یاد ہیں اور بھٹو کی پھانسی کا سن کر 27 افراد نے خود سوزی کی تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے سامنے ایران کے شہنشاہ رضا پہلوی کی مثال بھی موجود ہے جس کو آخر میں نہ تو کوئی ملک رہنے کے لیے پناہ دے رہا تھا اور مرنے کے بعد اسے کہیں تدفین کے لیے دو گز زمین بھی نہیں مل رہی تھی۔ انسان کو ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔
پی پی پی کی آخری امید آپ ہیں اس لیے آپ پارٹی کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور پارٹی میں جتنے بھی بدعنوان لوگ ہیں انھیں سیدھے راستے پر لے آئیں، رشوت خور افسران کے خلاف بھرپور ایکشن لیں اور پورے پاکستان کا دورہ کریں اور عوام سے خود رابطہ رکھیں ورنہ پارٹی ختم ہو جائے گی۔
اس وقت بھی لوگ اس پارٹی سے اس لیے تھوڑا بہت چمٹے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اور پارٹی میں اور کوئی قیادت نہیں ہے اور اگر ابھی بھی آنکھ نہیں کھولی گئی اور کوئی قیادت آ گئی تو پھر آپ کی پارٹی کو سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ عوام سے ڈائریکٹ رابطہ ہی پارٹی کے لیے اہم اور ضروری ہے جس میں سچے، اصلی، وفادار اور قربانی دینے والوں کو اکٹھا کیا جائے۔ بتانے کو تو اتنا کچھ ہے کہ وقت کم ہو جائے گا مگر باتیں ختم نہیں ہوں گی۔ یہ سب کچھ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ مجھے بھی بھٹو سے انسیت تھی جس کی محبت اور محنت ختم ہوتے ہوئے میں نہیں دیکھ سکتا۔
ایسا نہ ہو جیسے تھر کے سلسلے میں ہوا کہ وہاں پر افسران اور elected لوگوں نے بجائے قحط زدہ لوگوں کی خدمت اور مدد کرنے کے خود ڈٹ کر کھا رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ تفریح کے لیے گئے ہیں جس کی ویڈیو جب سوشل میڈیا کے ذریعے تمام چینلز پر دکھائی گئی تو بہت افسوس ہوا مگر اس حوالے سے پارٹی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
سندھ میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا کوئی بھی نوٹس نہیں لے پایا ہے اور خاص طور پر سندھ تو عورتوں کے لیے جہنم بن گیا ہے جہاں پر ان کی عزت محفوظ نہیں رہی جس میں نابالغ معصوم چھوٹی بچیوں کے ساتھ بھی اجتماعی زیادتی کی گئی، آپ کو چاہیے کہ جو بھی سندھ اسمبلی میں بل پاس ہو کر ایکٹ، قانون یا آرڈیننس بن چکے ہیں ان پر سختی سے عمل کروائیں جس کے لیے آپ کو ملکی معاملوں کے بارے میں خود معلومات رکھنی پڑیں گی۔
آپ پورا سندھ گھومیں اور پھر پنجاب میں، وہ بھی کار میں بیٹھ کر تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سندھ کیا ہے اور پنجاب کیا ہے، پنجاب لگتا ہے جیسے بیرون ملک کا ترقی یافتہ صوبہ ہے، یہ فرق کیوں ہے، یہاں ہمارے وزرا، حکومت اور افسران کیا کر رہے ہیں جنھیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں accountability شروع کروائیں اور صرف یہ دیکھیں جو لوگ کچھ بھی نہیں تھے اب کروڑ پتی کیسے بنے جس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ ہندو کمیونٹی سندھ چھوڑ کر ہندوستان کیوں جا رہی ہے اس کے جانے سے سب سے بڑا نقصان پی پی پی کو ہوا ہے۔
اس لیے اس پر غور کریں اور عمل کریں صرف میٹنگز سے کچھ نہیں ہوتا اس کا follow-up پر عمل کروائیں۔ آپ ایسے پڑھے لکھے اور وفادار آدمی کو تلاش کریں جو آپ کا پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرے اور آپ کو کام میں عمل کروانے کے لیے یاد دلاتے رہیں، مگر پھر بھی اس پر اتنا انحصار نہ کریں اور خود چیزوں کو یاد رکھیں جیسے بھٹو کرتے تھے۔ کراچی میں لیاری اور ملیر جو پی پی کے گڑھ تھے وہاں جا کر انھیں واپس لے آئیں ، سندھ کا چیف منسٹر قائم علی شاہ جیسا نہیں بلکہ سکندر میندھرو یا پھر مراد علی شاہ جیسا ہو جو کام کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پورے ملک کی پارٹی ہے اس لیے عوام کے مسائل بھی اس لیول پر حل ہونے چاہیے تھے جس میں سندھ کے اندر ریلوے نظام تباہ ہو چکا ہے جس کو درست نہیں کیا گیا۔
اب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالتے ہی پنجاب کے اندر ریلوے نظام صحیح کر دیا ہے جس کے برعکس پی پی پی سندھ نے کوئی آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی ریلوے کے وزیر سے رابطہ کیا ہے، پورے سندھ میں بجلی 18 سے 20 گھنٹے نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کئی لوگ حال ہی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نہ صرف یہ بلکہ سندھ کا پورا کاروبار اور ترقی بجلی نہ ہونے سے تباہ ہے۔
پی پی اپنے دور میں رینٹل پاور جیسا منصوبہ پورا نہیں کر سکی بلکہ اربوں روپے تباہ ہو گئے اور پارٹی کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے جنگلات تباہ کر دیے گئے جس پر بااثر لوگوں نے قبضہ کر کے وہاں پر کیا کچھ نہ بنوا ڈالا جس سے ہمارے صوبے کا ماحولیاتی نظام تباہ ہو گیا۔ بھٹو تو ملک کے اندر درخت لگانے کی مہم کے لیے ملک سے باہر جا کر بھی درختوں کے نئے species لا کر لگواتے۔ ہمارے wetlands جو پوری دنیا میں مشہور ہیں، بے دھیانی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہمارے لوگ اس خوبصورت ورثے سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
تاریخی ورثے میں موئن جو دڑو، کوٹ ڈیجی، عمرکوٹ، رنی کوٹ اور گورکھ ہل اسٹیشن کئی سالوں سے انتظار میں ہیں کہ کوئی انھیں اس قابل بنائے جہاں عام آدمی جا کر دیکھ سکے کیونکہ ابھی تک ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ منچھر، کینجھر جھیلیں جو ہمارا سرمایہ ہیں تباہ ہو چکی ہیں جس کے سنبھالنے کے لیے محکمے تو بنائے گئے ہیں مگر ان کے افسران نے کبھی وہاں جا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ ٹھٹھہ میں دنیا کے دوسرے نمبر پر مکلی کا قبرستان جہاں ایک تاریخ مدفن ہے تباہ ہو رہا ہے۔
دریائے سندھ کا کیا حال ہے، ساحلی علاقوں سے لوگ کیوں نقل مکانی کر گئے ہیں ان کے مال مویشی، مچھلی، زرعی زمینیں سمندر کے پانی کی نظر ہو گئی ہیں ان کے مکان منہدم ہو گئے ہیں، روزگار نہیں رہا مگر اب بھٹو کہاں سے آئے جو ان سوالوں کا جواب دے اور ان مسائل کو حل کرے۔
سندھ کی تعلیم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں اور کچھ میں وڈیروں نے اپنی اوطاقیں بنائی ہوئی ہیں اور جو چل رہے ہیں وہ بجٹ اور دوسری سہولتوں کے فقدان سے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں پھر ہمارے وہ اساتذہ جو بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں مگر پڑھانے کے بجائے سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر گاؤں میں نوکری نہیں کرنا چاہتے اور بڑے بڑے شہروں میں اپنے کلینک اور میڈیکل چلا کر صرف پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو Shelter ہمارے منتخب نمایندے دے رہے ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر پی پی سے ہے۔
جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو عوام نے ایم آر ڈی کی تحریک میں خاص طور پر سندھ میں بھرپور حصہ لیا اور اپنی جانیں قربان کیں، جس میں سرفہرست ضلع دادو میں تعلقہ خیر پور ناتھن شاہ کے متعدد گاؤں میں دفن ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے وارثوں سے ملنے کے لیے کوئی نہیں جاتا، ان کی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے، سالانہ تقریب کے موقعے پر پی پی کی طرف سے کوئی نہیں جاتا، ان شہیدوں کی قربانیوں کو بھلایا گیا ہے، آپ وہاں جائیں، لوگوں سے ملیں تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ لاوارث ہیں۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر آپ یہ یاد رکھیں کہ دولت کچھ بھی نہیں وہ مرنے کے بعد یہیں رہ جاتی ہے مگر عوام، ملک اور جمہوریت کے لیے کیے کام ہمیشہ ہمیں امر کر دیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن آپ کے کیے ہوئے کام اور خدمت آپ کو تاریخ میں اور عوام کے دل و دماغ میں یاد رکھیں گے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ بھٹو اور بے نظیر آج بھی یاد ہیں اور بھٹو کی پھانسی کا سن کر 27 افراد نے خود سوزی کی تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے سامنے ایران کے شہنشاہ رضا پہلوی کی مثال بھی موجود ہے جس کو آخر میں نہ تو کوئی ملک رہنے کے لیے پناہ دے رہا تھا اور مرنے کے بعد اسے کہیں تدفین کے لیے دو گز زمین بھی نہیں مل رہی تھی۔ انسان کو ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔
پی پی پی کی آخری امید آپ ہیں اس لیے آپ پارٹی کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور پارٹی میں جتنے بھی بدعنوان لوگ ہیں انھیں سیدھے راستے پر لے آئیں، رشوت خور افسران کے خلاف بھرپور ایکشن لیں اور پورے پاکستان کا دورہ کریں اور عوام سے خود رابطہ رکھیں ورنہ پارٹی ختم ہو جائے گی۔
اس وقت بھی لوگ اس پارٹی سے اس لیے تھوڑا بہت چمٹے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اور پارٹی میں اور کوئی قیادت نہیں ہے اور اگر ابھی بھی آنکھ نہیں کھولی گئی اور کوئی قیادت آ گئی تو پھر آپ کی پارٹی کو سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ عوام سے ڈائریکٹ رابطہ ہی پارٹی کے لیے اہم اور ضروری ہے جس میں سچے، اصلی، وفادار اور قربانی دینے والوں کو اکٹھا کیا جائے۔ بتانے کو تو اتنا کچھ ہے کہ وقت کم ہو جائے گا مگر باتیں ختم نہیں ہوں گی۔ یہ سب کچھ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ مجھے بھی بھٹو سے انسیت تھی جس کی محبت اور محنت ختم ہوتے ہوئے میں نہیں دیکھ سکتا۔