مثبت سوچ کا کرشمہ
پاک فوج نے قوم کی امیدوں پر لبیک کہا، اچھے اور برے کی تمیز ختم کر کے دہشتگردوں کو ایک صف میں شامل کیا
قطب شمالی میں ایٹمی میزائلوں کے امریکی اڈے پر ایک سارجنٹ نے ریڈار کی اسکرین کو غور سے دیکھا اور پھر پریشان ہو کر اپنے کیپٹن سے کہا، لگتا ہے کہ شمال کی طرف سے کئی میزائل ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیپٹن تیزی سے آگے بڑھا، اسکرین پر ایک نگاہ ڈالی، پھر اپنے کمانڈنگ آفیسر کو اطلاع دی، بہت سے اعلیٰ افسران اسکرین کے گرد جمع ہو گئے۔ ان میں سے کسی نے ٹیلی فون پر ہیڈ کوارٹرز سے رابطہ کرنا چاہے، رابطہ نہ ہوا تو اس کا رنگ اڑ گیا ''سر کال نہیں مل رہی''۔
کیا رابطہ اس لیے نہیں ہو رہا تھا کہ واشنگٹن پہلے ہی ایٹمی حملے کی زد میں آ چکا تھا؟ کیا ریڈار اسکرین پر نظر آنیوالے متحرک نقطوں کا مطلب یہ تھا کہ ایٹمی میزائل اس اڈے اور دوسرے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے چلے آ رہے تھے؟ اس دور افتادہ اڈے پر موجود چند افراد، کیا وہ بٹن دبانے کی خوفناک ذمے داری قبول کر سکتے تھے جن کے ذریعے سوویت اڈوں اور شہروں پر جوابی حملہ شروع ہو سکتا تھا؟ فرض کیجیے وہ غلط فہمی میں بٹن دبا دیتے تو کیا ہوتا؟ اس طرح تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی۔ لاکھوں کروڑوں افراد موت کا لقمہ بن جاتے۔ ایک لمحے کے لیے ہماری دنیا کا مقدر ان چند افراد کی صحیح سوچنے کی صلاحیت میں سمٹ آیا تھا۔
کمانڈنگ آفیسر نے اچانک تین سادہ سے الفاظ کہے۔ جنہوں نے یہ معمہ حل کر دیا۔
''(سوویت وزیر اعظم) خروشیف کہاں ہے؟ کمانڈنگ آفیسر نے پوچھا۔
جناب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہیں۔ جواب ملا۔
اس نئی اطلاع نے بلا ٹال دی۔ دنیا تباہی سے بچ گئی۔ سب نے جان لیا کہ روسی اس وقت امریکا پر حملہ کرنے کی حماقت نہیں کریں گے جب خود ان کا وزیر اعظم امریکا میں موجود ہو۔
یہ منطقی نتیجہ انسانی حافظے میں محفوظ حقائق سے استدلال کے ذریعے اخذ کیا گیا تھا۔ منطقی سوچ کی صلاحیت نے دور دراز امریکی اڈے پر موجود افسروں کو حقیقت کے قریب پہنچا دیا۔ وہ جان گئے کہ اسکرین پر دکھائی دینے والے نقطے میزائلوں کی نشاندہی نہیں کر رہے تھے، ان کا مطلب کچھ اور تھا۔
بعد ازاں ان واقعات کی چھان بین ہوئی۔ تب یہ بھید کھلا کہ اسکرین پر نظر آنیوالے نقطے غالباً چاند پر ریڈار لہروں کے انعکاس سے پیدا ہوئے تھے اور ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے کی وجہ کمیونیکیشن نظام میں وقتی خرابی تھی۔ یہ غیر معمولی واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بسا اوقات ایک غلط فیصلہ کس قدر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے ہم صحیح سوچ کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
ملک کی موجودہ صورتحال اور کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے برسوں پہلے پڑھا ہوا واقعہ یاد آیا۔ مذکورہ واقعہ میں 2 عنصر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اول منطقی سوچ، دوئم اتفاق۔
منطقی سوچ کی بات کی جائے تو سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے متحد ہوئی، پاک فوج نے قوم کی امیدوں پر لبیک کہا، اچھے اور برے کی تمیز ختم کر کے دہشتگردوں کو ایک صف میں شامل کیا اور پوری قوت سے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عمل شروع ہوا۔ دہشت گردی کا درخت جس کی جڑیں ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھی اسے ختم کرنیکا عمل بدستور کامیابی سے جاری ہے۔
فوج کی ابہام سے پاک دو ٹوک پالیسی کے نتیجے میں شہر قائد میں بھی جرائم پیشہ، شدت پسند اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی۔ جس کے بہتر نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں اور قوم کے دلوں میں پاک فوج کی عزت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ فوج مشکل کی ہر گھڑی میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ زلزلہ ہو، سیلاب یا پھر کسی بھی قسم کی ناگہانی آفات فوج آگے بڑھ کر عوام کی داد رسی کرتی ہے۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر 2013ء میں شروع کیا گیا، سیاسی جماعتوں نے آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے مکمل تعاون کیا اور یہ کوشش کی کہ آپریشن کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے اور اسے متنازع نہ بنایا جائے۔ رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کراچی میں سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے ان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی جو ان کی دانست میں دہشتگردی یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان جماعتوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد ایک فریق نے رینجرز کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرنا شروع کیا اور اب اس کی جانب سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ سے کراچی کے حالات گزشتہ کچھ عرصے سے بہتر ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی بہت حد تک کم ہو گئی ہیں، دہشتگردی کے واقعات نہیں ہو رہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ کے معاملات کو بڑی خاموشی سے کسی اور پٹڑی پر ڈالا جا رہا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں دہشتگردی اور دیگر جرائم کے خلاف ہونیوالے ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ اچانک موڑ کر اسے سیاست زدہ کیا جا رہا ہے۔
قیادت کے فیصلے پر عمل کرنیوالے اہلکاروں میں شعور کی کمی ہے اور ان کی جانب سے چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے اہل خانہ سے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہ رویہ دلوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے جو کہ درست نہیں۔
خدارا، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے، ہوش کے ناخن لے کر مثبت سوچ اپنائی جائے، ہماری یہ ہی حماقتیں 71ء میں ملک کو دولخت کر چکی ہے، فریقین کو چاہیے کہ وہ آپریشن کی سنگینی کا خیال کر کے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کریں، درمیان کا راستہ نکالا جائے، اعتدال کی راہ اپنائی جائے، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن کو غیر متنازع انداز میں جاری رکھ کر اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے کیونکہ اگر یہ آپریشن سیاست زدہ ہو گیا جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے تو بہت زیادہ نقصان ہو گا اور پھر کراچی کے حالات کو سنبھالنا آسان نہیں رہے گا۔
مخصوص فریق بھی ریاستی اداروں کے خلاف بیانات سے اجتناب کرے، اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ فوج ہے تو ملک ہے، فوج ہماری بقاء و سالمیت کی ضامن ہے، فوج ہمارا فخر اور ہمارا غرور ہے، جس پر انگشت نمائی کوئی بھی محب وطن ہر گز ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔