آبادی میں اضافہ روکنے کی حکومتی کوشش
وفاقی حکومت بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ اس ملک کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے
باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کو تقویت پہنچانے کے لیے ایک قانون بنانے پر غورکر رہی ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمتوں میں ایسے خاندانوں کو ترجیح دی جائے گی جو صرف میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو سرکاری ملازمت فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہوگی۔
اس سلسلے میں ایک سرکاری ترجمان نے اپنی شناخت کا انکشاف نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نئے قانون سے (تاکہ عام لوگ خوفزدہ اور پریشان نہ ہوں) میرٹ اور سفارش پر سرکاری بھرتی کا پروگرام متاثر نہ ہوگا اور دو بچوں کی فیملی کو ترجیح دینے کے نئے قانون پر عملدرآمد کرنے کے لیے نئی ملازمتیں تخلیق کی جائیں گی۔
یہ قانون سرکاری تھنک ٹینک نے کافی غوروخوض کے بعد تیار کیا ہے اور خود وزیراعظم نے اس قانون کو آخری شکل دینے میں ذاتی طور پر دلچسپی لی ہے۔ سب سے پہلے اس قانون کے لیے عدلیہ، قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام اسٹاک ہولڈرز کی حمایت حاصل کی گئی ہے اور اس پر صوبوں کے جذبات معلوم کرنے کے لیے اسے صوبائی حکومتوں کو بھیجا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ اس ملک کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جو آگے چل کر ملک میں مہیا تمام قدرتی وسائل ہڑپ کر جائے گی اور جس کے سامنے عوام کو مہیا کی جانے والی پانی، بجلی، گیس ،تعلیم وصحت سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں ناکافی ہوجائیں گی، اسی لیے دنیا کی تمام سمجھدار اقوام اور ممالک جن میں چین اورکئی اسلامی ممالک شامل ہیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کامیاب کوششیں کر رہے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے اس کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر کام فی الحال نہیں کر رہے ہیں۔اگرچہ ہمارے یہاں مختلف طریقوں سے لوگوں کو مارنے کی کوششیں بھی جاری ہیں مگر وہ آبادی میں اضافے کی شرح کے سامنے بڑی حد تک ناکافی ہیں۔
ہمارے یہاں ٹریفک کا نظام خراب رکھا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ حادثوں کا شکار ہوں۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بد سے بدتر ہوجانے کے حوالے سے تسلی بخش ہے صحت کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے اورسینی ٹیشن کی خراب صورتحال کی وجہ سے بھی اچھے خاصے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر مر جاتے ہیں، پہلے کبھی صرف ناقابل برداشت سردی سے لوگ مرتے تھے اب گرمی سے بھی مرنے لگے ہیں، پہلے صرف بجلی کے کرنٹ سے لوگ مرتے تھے اور اب گیس میں دم گھٹنے کی وجہ سے بھی خاصے لوگ مر جاتے ہیں، اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق مرنے اور پیدا ہونے کا باہمی تناسب ایک اور دس کا ہے یعنی دس پیدا ہوتے ہیں تو ایک مرتا ہے۔
اسی لیے وفاقی حکومت نے بہت سوچ بچارکے بعد یہ نیا قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو خود ان کے مفاد میں بچے کم پیدا کرنے کی ترغیب دی جاسکے طویل معیاد میں یہ اقدام اول ایک فیملی کو خوشحال گھرانے میں تبدیل کرنے میں مدد دے گا اور دوئم پورے ملک و قوم کو خوشحال بنائے گا۔ خاندان کا سربراہ اپنے بچوں کے لیے تعلیم اورصحت کی بہتر سہولتوں کا اہتمام کرسکے گا اسی طرح ریاست بھی اگر ملک کی آبادی کم ہوگی، اپنے عوام کو زندگی کی بہتر سہولتیں فراہم کرسکے گی۔
ہمارے ملک میں بجلی، پانی، تیل اورگیس کی صورت میں جو وسائل موجود ہیں وہ بھی اگر آبادی کم ہوتی جائے تو آنے والی کئی نسلوں کے کام آسکیں گے ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں ہی برا بھلا کہیں گی۔
نئے قانون کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں دو والدین اور دو بچوں کے ان خاندانوں کو ترجیح دی جائے گی جو دو لڑکیوں یا کم ازکم ایک لڑکی پر مشتمل ہوگا ہاں یہ بھی واضح رہے پہلے ہم اپنا جو حشر کرنا تھا کرچکے یہ قانون آیندہ کے لیے ہے۔ اس قسم کے جو خاندان اس وقت موجود ہیں جن کے بچے سرکاری ملازمتوں کے اہل ہیں یا اہل ہوسکتے ہیں اس پیشکش سے مستفید ہوسکیں گے تاہم ان پر کم ازکم گریجویٹ ہونے کی شرط عائد کی جائے گی۔
اس قانون کے تحت دو میں سے ایک لڑکا یا لڑکی کو اس کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق جیسی ہے جہاں ہے کی بنیاد پر ملازمت فراہم کی جائے گی اور اسے پیشکش قبول یا مسترد کرنے کا اختیار ہوگا۔
اگرچہ اپنے تمام شہریوں کو ملازمتیں فراہم کرنا خاص طور پر ویلفیئر اسٹیٹ ہونے کے دعویدار ملکوں میں ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے تاہم حکومت کی طرف سے نجی شعبے کو بھی اس اسکیم میں شامل ہونے کی پیشکش کی جائے گی تاکہ اسے زیادہ مفید بنایا جاسکے۔
کیونکہ پہلے ہی خاصی دیر ہوچکی ہے اور پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے اس لیے وفاقی حکومت اس قانون پر فوری عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے دو بچوں پر مشتمل گھرانوں کا سروے کرنے کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ایسے گھرانوں کو اس اسکیم کے دائرہ کار میں لانے کے لیے کتنی سرکاری و نجی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر ضرورت پڑی تو اسکیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت ایک اسپیشل ٹیکس بھی متعارف کرکے لوگوں سے بہتر مستقبل کی خاطر یہ ٹیکس ادا کرنے کی درخواست بھی کرسکتی ہے۔