دھاندلی کا سونامی …مکرر گزارشات
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والے شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں
دھاندلی 2013 کے عام انتخابات میں ہوئی تھی یا نہیں؟ عمران خان کو کس طرح اس کے حقیقی دوستوں نے چائے کی پیالی میں دھاندلی کا طوفان برپا کرنے والوں سے بچانے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کالم نگار نے سب سے پہلے دھاندلی کے بے بنیاد دعوؤں کو چیلنج کیا تھا اور اپنے ذاتی تعلقات کو داؤ پر لگا کرعمران خان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ عام انتخابات کے فوراً بعد آپ کی اپنی چوپال میں اس طرح کے قصے کہانیاں بیان ہوئے ملاحظہ فرمائیں۔
چائے کی پیالی : دَھاندلی کا سونامی
18 مئی 2013
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والے شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں ۔ عام انتخابات 2013کے حیران کن نتائج نے جیتنے اور ہارنے والوں کو تو ششدر کرہی رکھا ہے لیکن ان سے بھی بڑی مشکل اپنے آپ کوعقل کل سمجھنے والے قلم کاروں اور سر شام جادوئی اسکرینوں پر ''لائیو''تماشا دکھانے والے نیم خواندہ اینکرز پر آن پڑی ہے جو اپنے کہے سنے کو غلط ہوتا دیکھ کراپنی اَنا کی تسکین کے لیے بے بنیاد سہارے ڈھونڈرہے ہیںاوردلیلیں تراش رہے ہیں، ویسے یہ نتائج اتنے غیر متوقع بھی نہیں تھے، یہ ہمیں تھے جو اپنی خوش رنگ ،خیالی دنیا سے باہر آنے پر آمادہ نہ ہوئے ۔
نیوز ویک نے پاکستان کے عام انتخابات سے صرف ایک روز پہلے 10مئی کو شایع ہونے والے شمارے کی کور اسٹوری ،نواز شریف کا نیا جنم(Reinvention of Nawaz Sharif)میں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ وہ 11مئی کو الیکشن جیت کر تیسر ی بار پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اُٹھائیں گے۔ نیوز ویک پاکستان کے ایڈیٹر فصیح احمد ملاقات کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں ایک یکسر بدلے ہوئے شخص سے مل رہا تھا جس میں اَنا، انتقام اور غصے کے بجائے عاجزی اور انکساری تھی۔
4مارچ کو عام انتخابات سے ایک ماہ پہلے گیلپ پاکستان اور پلڈاٹ نے سائنسی بنیادوں پر کیے گئے سروے کی بنیاد پر نتائج کی پیش گوئی کی تھی کہ جناب نواز شریف کی نون لیگ کو قومی سطح پر37فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جب کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی شرح 16فیصد ہے جب کہ ق لیگ کی مقبولیت کی شرح صرف 3فیصد تھی ۔اسی سروے میں بتایا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کی مقبولیت قومی سطح پر زیر زمین چلی گئی ہے۔
اس ر پورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سارے ملک کے 11انتخابی بلاکس میں سے خیبر پی کے اور بلوچستان میں تبدیلی کے آثار واضح ہورہے ہیں جب کہ پنجاب اور سندھ میں رائے عامہ میں کسی قسم کی کوئی واضح تبدیلی دکھائی نہیں دیتی تھی جو بھرپور انتخابی مہم کے ایک ماہ بعد درست ثابت ہوا۔
تحریک انصاف کی حامی سول سوسائٹی کو گیلپ پاکستان کی رپورٹ کا اطمینان اور تسلی سے جائزہ لینا چاہیے اورنیوز ویک پاکستان کا 10مئی کو شایع ہونے والا شمارہ یاانٹرنیٹ پر اس کا ای ایڈیشن تلاش کرکے پنجاب میں دھاندلی کے حوالے سے اپنے موقف کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ پنجاب میں بے ضابطگیاں ہو سکتی ہیں، دھاندلی بالکل نہیں ہوئی ۔ جناب عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ جذباتی نعرہ بازی سے متاثر ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کو اپناتے ہوئے خود ساختہ دانشوروں اورقلم کاروں سے جان چھڑا لیں ۔مروت کی بھی حدود قیود ہوتی ہیں ۔قبل اس کے کہ یہ نادان دوست مکھی اُڑاتے ہوئے اپنے مربی کا سر کچلنے والی حکایت کو عملی جامہ پہنچا دیں۔کہتے ہیں کہ دانا دشمن، نادان دوست سے بدرجہا بہتر ہوتاہے ۔
یہ ازلی اور ابدی حقیقتیں ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں خواہ وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔
:خوش آمدیدوزیراعظم نواز شریف،خوش آمدید
15 مئی 2013
پنجاب میں دھاندلی کے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے محترمہ عاصمہ جہانگیر نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے جوانی دیوانی کے جذبات میں گم کردہ راہ احتجاجیوں نے دھاندلی کا راگ بند نہ کیا تو پھر خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی کامیابی بھی مشکوک قرار پائے گی۔دکھ تو اس بات پر ہے کہ حامد خاں جیسے سنجیدہ مزاج اور انصاف پسند شخص نے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی ایم کیو ایم قرار دے کر حقائق سے بر عکس رویہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔ تحریک انصاف کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت پر اپنے نوجوان حامیوں کا بے پناہ دباؤ اورحقائق سے نابلد راہ لکھاریوں کے فراہم کردہ بے بنیاد تجزیے اور تخمینے راہ راست سے ہٹا رہے ہیں ۔ لاہور کے حلقہ 125میں بے ضابطگیاں تو ہوسکتی ہیں جن کا ا س حلقے کے مجموعی نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ۔
تحریک انصاف نے لاہور سے مجموعی طور پر لاکھوں ووٹ حاصل کیے۔پنجاب اسمبلی میں متوقع قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے بے پناہ مشقت کرکے قومی اسمبلی کا حلقہ 126مسلم لیگ(ن) سے چھین لیا ۔و ہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کی تین نشستیں بھی تحریک انصاف جیت چکی ہے اگر جناب عمران خان ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں ان کی رائے مان لیتے تو جی ٹی روڈ پر انتخابی نتائج یکسر مختلف ہوتے ۔ اب جناب عمران خان کو پنجاب کے 25حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مطالبات کرنے اور جذبات میں بہنے کے بجائے میاں محمود الرشید سمیت اپنے سنجیدہ فکرتجربہ کار ساتھیوں سے صلاح مشورہ کرکے ٹکٹوں کی خرید وفروخت کے الزامات کی تحقیقات کرانی چاہیے۔
کاروباری اشرافیہ اور انتخابی نتائج
21 مئی 2013
حرف آخر یہ کہ تحریک انصاف کے انٹرنیٹ مجاہدین پر مشتمل تھنڈر اسکواڈ کے بارے میں برادر کبیر عرفان صدیقی اور مزاح نگار دانشور عطا الحق قاسمی کی تحریروں میں ان کی سرگرمیوںکا اجمالی تذکرہ ملتا تھا ۔ اپنے گذشتہ دو کالموں کی وجہ سے اب یہ خاکسار بھی ان مجاہدین کا مرغوب ہدف ہے ۔میرے نام آنے والے مہذب ترین برقی خطوط میں حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے بچوں کی قسم کھا کر بتاؤں کہ این اے 125اور 122میںکوئی دھاندلی نہیں کی گئی۔ اس کالم نگار کا جرم صرف یہ ہے کہ خود ووٹر کی حیثیت سے انتخابی عمل سے گذرنے کے بعد یقین کامل رکھتا ہے کہ لاہور میں بے ضابطگیاں تو ہوسکتی ہیں منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ ویسے یہ کہاں کی منطق ہے کہ این اے 126اسے آپ کا اجنبی امیدوار شفقت محمود (ن) لیگ کے نیک نام خواجہ حسان سے جیت جائے تو ٹھیک ہے جہاں آپ غلط منصوبہ بندی اور ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہار جائیں وہاں دھاندلی کا شور مچادیں۔اگر بدکلامی اور بد زبانی کا سلسلہ اس جوانی دیوانی نسل پر ختم ہوجاتا تو کیا اچھا ہوتا لیکن کل صبح بالٹی مور،امریکا سے یارِ عزیز ڈاکٹر طلعت قدیر کی ایک گھنٹہ طویل کال نے چونکا دیا۔ ڈاکٹر طلعت فرما رہے تھے کہ عمران خان ایک فرد یا شخص نہیں، ایک تحریک نام ہے اور اس کے دیوانے ایسی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ادراک ہم 60کی دہائی کے پرانے اور خوف زدہ نسل کے لوگ نہیں کر سکتے۔آپ (ن) لیگ کی ترجمانی کیوں کررہے ہیں۔ آپ کے کالموں سے اس کا تاثر پیدا ہورہا ہے ۔ملک کے وسائل پر صرف اجارہ دار طبقے کا حق نہیں ہے ۔ ساری قوم کو اس سے مستفید ہونا چاہیے اور یہ کہ عمران خان کی انتخابی کامیا بی سے چیک اینڈ بیلنس کا فطری نظام قائم ہوگیا ہے۔ انھوں نے سیاسی نظام کی لازوال سچائی کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ طاقت بدعنوانی کو جنم دیتی ہے اور حتمی طاقت مکمل طور پر بد عنوان بنادیتی ہے۔
"Power Corrupts and Absolute Power Corrupts Absolutely"
اس کالم نگار نے عرض کیا کہ دراصل پنجاب میں دھاندلی کی مہم چلا کر تحریک انصاف انتخابی عمل کومشکوک اور بے وقعت بنا رہی ہے جو بدترین نا انصافی ہے ۔جناب عمران خان تو انٹرنیوز کے شریک کالم نگار اور بہترین دوست رہے ہیں ۔وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ برادرم اعجاز چوہدری تومیری زندگی کا ایسا باب ہیں کہ جس کے بغیر میں خود کوناتمام پاتا ہوں ۔پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کے تو کیاکہنے کہ جنہوں نے تن تنہا لاہور میں (ن) لیگ کے قلعے میں شگاف ڈال کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی چار نشستیں جیت لیں ۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر میرامعصوم سچ گوارا نہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔
چائے کی پیالی : دَھاندلی کا سونامی
18 مئی 2013
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والے شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں ۔ عام انتخابات 2013کے حیران کن نتائج نے جیتنے اور ہارنے والوں کو تو ششدر کرہی رکھا ہے لیکن ان سے بھی بڑی مشکل اپنے آپ کوعقل کل سمجھنے والے قلم کاروں اور سر شام جادوئی اسکرینوں پر ''لائیو''تماشا دکھانے والے نیم خواندہ اینکرز پر آن پڑی ہے جو اپنے کہے سنے کو غلط ہوتا دیکھ کراپنی اَنا کی تسکین کے لیے بے بنیاد سہارے ڈھونڈرہے ہیںاوردلیلیں تراش رہے ہیں، ویسے یہ نتائج اتنے غیر متوقع بھی نہیں تھے، یہ ہمیں تھے جو اپنی خوش رنگ ،خیالی دنیا سے باہر آنے پر آمادہ نہ ہوئے ۔
نیوز ویک نے پاکستان کے عام انتخابات سے صرف ایک روز پہلے 10مئی کو شایع ہونے والے شمارے کی کور اسٹوری ،نواز شریف کا نیا جنم(Reinvention of Nawaz Sharif)میں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ وہ 11مئی کو الیکشن جیت کر تیسر ی بار پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اُٹھائیں گے۔ نیوز ویک پاکستان کے ایڈیٹر فصیح احمد ملاقات کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں ایک یکسر بدلے ہوئے شخص سے مل رہا تھا جس میں اَنا، انتقام اور غصے کے بجائے عاجزی اور انکساری تھی۔
4مارچ کو عام انتخابات سے ایک ماہ پہلے گیلپ پاکستان اور پلڈاٹ نے سائنسی بنیادوں پر کیے گئے سروے کی بنیاد پر نتائج کی پیش گوئی کی تھی کہ جناب نواز شریف کی نون لیگ کو قومی سطح پر37فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جب کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی شرح 16فیصد ہے جب کہ ق لیگ کی مقبولیت کی شرح صرف 3فیصد تھی ۔اسی سروے میں بتایا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کی مقبولیت قومی سطح پر زیر زمین چلی گئی ہے۔
اس ر پورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سارے ملک کے 11انتخابی بلاکس میں سے خیبر پی کے اور بلوچستان میں تبدیلی کے آثار واضح ہورہے ہیں جب کہ پنجاب اور سندھ میں رائے عامہ میں کسی قسم کی کوئی واضح تبدیلی دکھائی نہیں دیتی تھی جو بھرپور انتخابی مہم کے ایک ماہ بعد درست ثابت ہوا۔
تحریک انصاف کی حامی سول سوسائٹی کو گیلپ پاکستان کی رپورٹ کا اطمینان اور تسلی سے جائزہ لینا چاہیے اورنیوز ویک پاکستان کا 10مئی کو شایع ہونے والا شمارہ یاانٹرنیٹ پر اس کا ای ایڈیشن تلاش کرکے پنجاب میں دھاندلی کے حوالے سے اپنے موقف کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ پنجاب میں بے ضابطگیاں ہو سکتی ہیں، دھاندلی بالکل نہیں ہوئی ۔ جناب عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ جذباتی نعرہ بازی سے متاثر ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کو اپناتے ہوئے خود ساختہ دانشوروں اورقلم کاروں سے جان چھڑا لیں ۔مروت کی بھی حدود قیود ہوتی ہیں ۔قبل اس کے کہ یہ نادان دوست مکھی اُڑاتے ہوئے اپنے مربی کا سر کچلنے والی حکایت کو عملی جامہ پہنچا دیں۔کہتے ہیں کہ دانا دشمن، نادان دوست سے بدرجہا بہتر ہوتاہے ۔
یہ ازلی اور ابدی حقیقتیں ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں خواہ وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔
:خوش آمدیدوزیراعظم نواز شریف،خوش آمدید
15 مئی 2013
پنجاب میں دھاندلی کے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے محترمہ عاصمہ جہانگیر نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے جوانی دیوانی کے جذبات میں گم کردہ راہ احتجاجیوں نے دھاندلی کا راگ بند نہ کیا تو پھر خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی کامیابی بھی مشکوک قرار پائے گی۔دکھ تو اس بات پر ہے کہ حامد خاں جیسے سنجیدہ مزاج اور انصاف پسند شخص نے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی ایم کیو ایم قرار دے کر حقائق سے بر عکس رویہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔ تحریک انصاف کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت پر اپنے نوجوان حامیوں کا بے پناہ دباؤ اورحقائق سے نابلد راہ لکھاریوں کے فراہم کردہ بے بنیاد تجزیے اور تخمینے راہ راست سے ہٹا رہے ہیں ۔ لاہور کے حلقہ 125میں بے ضابطگیاں تو ہوسکتی ہیں جن کا ا س حلقے کے مجموعی نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ۔
تحریک انصاف نے لاہور سے مجموعی طور پر لاکھوں ووٹ حاصل کیے۔پنجاب اسمبلی میں متوقع قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے بے پناہ مشقت کرکے قومی اسمبلی کا حلقہ 126مسلم لیگ(ن) سے چھین لیا ۔و ہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کی تین نشستیں بھی تحریک انصاف جیت چکی ہے اگر جناب عمران خان ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں ان کی رائے مان لیتے تو جی ٹی روڈ پر انتخابی نتائج یکسر مختلف ہوتے ۔ اب جناب عمران خان کو پنجاب کے 25حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مطالبات کرنے اور جذبات میں بہنے کے بجائے میاں محمود الرشید سمیت اپنے سنجیدہ فکرتجربہ کار ساتھیوں سے صلاح مشورہ کرکے ٹکٹوں کی خرید وفروخت کے الزامات کی تحقیقات کرانی چاہیے۔
کاروباری اشرافیہ اور انتخابی نتائج
21 مئی 2013
حرف آخر یہ کہ تحریک انصاف کے انٹرنیٹ مجاہدین پر مشتمل تھنڈر اسکواڈ کے بارے میں برادر کبیر عرفان صدیقی اور مزاح نگار دانشور عطا الحق قاسمی کی تحریروں میں ان کی سرگرمیوںکا اجمالی تذکرہ ملتا تھا ۔ اپنے گذشتہ دو کالموں کی وجہ سے اب یہ خاکسار بھی ان مجاہدین کا مرغوب ہدف ہے ۔میرے نام آنے والے مہذب ترین برقی خطوط میں حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے بچوں کی قسم کھا کر بتاؤں کہ این اے 125اور 122میںکوئی دھاندلی نہیں کی گئی۔ اس کالم نگار کا جرم صرف یہ ہے کہ خود ووٹر کی حیثیت سے انتخابی عمل سے گذرنے کے بعد یقین کامل رکھتا ہے کہ لاہور میں بے ضابطگیاں تو ہوسکتی ہیں منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ ویسے یہ کہاں کی منطق ہے کہ این اے 126اسے آپ کا اجنبی امیدوار شفقت محمود (ن) لیگ کے نیک نام خواجہ حسان سے جیت جائے تو ٹھیک ہے جہاں آپ غلط منصوبہ بندی اور ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہار جائیں وہاں دھاندلی کا شور مچادیں۔اگر بدکلامی اور بد زبانی کا سلسلہ اس جوانی دیوانی نسل پر ختم ہوجاتا تو کیا اچھا ہوتا لیکن کل صبح بالٹی مور،امریکا سے یارِ عزیز ڈاکٹر طلعت قدیر کی ایک گھنٹہ طویل کال نے چونکا دیا۔ ڈاکٹر طلعت فرما رہے تھے کہ عمران خان ایک فرد یا شخص نہیں، ایک تحریک نام ہے اور اس کے دیوانے ایسی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ادراک ہم 60کی دہائی کے پرانے اور خوف زدہ نسل کے لوگ نہیں کر سکتے۔آپ (ن) لیگ کی ترجمانی کیوں کررہے ہیں۔ آپ کے کالموں سے اس کا تاثر پیدا ہورہا ہے ۔ملک کے وسائل پر صرف اجارہ دار طبقے کا حق نہیں ہے ۔ ساری قوم کو اس سے مستفید ہونا چاہیے اور یہ کہ عمران خان کی انتخابی کامیا بی سے چیک اینڈ بیلنس کا فطری نظام قائم ہوگیا ہے۔ انھوں نے سیاسی نظام کی لازوال سچائی کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ طاقت بدعنوانی کو جنم دیتی ہے اور حتمی طاقت مکمل طور پر بد عنوان بنادیتی ہے۔
"Power Corrupts and Absolute Power Corrupts Absolutely"
اس کالم نگار نے عرض کیا کہ دراصل پنجاب میں دھاندلی کی مہم چلا کر تحریک انصاف انتخابی عمل کومشکوک اور بے وقعت بنا رہی ہے جو بدترین نا انصافی ہے ۔جناب عمران خان تو انٹرنیوز کے شریک کالم نگار اور بہترین دوست رہے ہیں ۔وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ برادرم اعجاز چوہدری تومیری زندگی کا ایسا باب ہیں کہ جس کے بغیر میں خود کوناتمام پاتا ہوں ۔پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کے تو کیاکہنے کہ جنہوں نے تن تنہا لاہور میں (ن) لیگ کے قلعے میں شگاف ڈال کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی چار نشستیں جیت لیں ۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر میرامعصوم سچ گوارا نہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔