سچ اور جھوٹ

اسمبلیوں سے استعفے دیکر اُسی اسمبلی میں جا بیٹھے جسے وہ جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے ۔

mnoorani08@gmail.com

ٰایک بے بنیاد مفروضے پر گزشتہ برس اُٹھائے جانے والے بے ہنگم طوفان کا منقی انجام بالآخر خود خان صاحب کے مطالبے پر بنائے جانے والے جوڈیشل کمیشن کے ہاتھوں اختتام پذیر ہو گیا۔ تحریک انصاف کی امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں۔

جب جوڈیشل کمیشن نے عمران خان سے اُن الزامات کا جواب مانگا جو وہ 126دنوں تک اسلام آباد کے میں کنٹینر پر کھڑے ہوکے ہر روز لگایا کرتے تھے تو وہ کسی کا جواب نہ دے سکے۔ نہ نجم سیٹھی کے وہ پینتیس پنکچر سامنے آئے، نہ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس خلیل الرحمان رمدے اور نہ اردو بازار سے بیلٹ پیپرز چھاپنے کا کوئی ثبوت پیش کیا گیا۔ خان صاحب نے الیکشن 2013ء میں مبینہ دھاندلی کے جو لاتعداد الزامات لگائے وہ اب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

ذرا غور کیجیے 126دنوں تک خان صاحب قوم کو کس طرح دھاندلی کے الزامات لگا کر یقین دلاتے رہے کہ حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے مگر عمران کے پاس الزامات کی صفائی میں پہلے روز ہی سے کوئی ثبوت تھا ہی نہیں۔ شروع میں تو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ یقینا کپتان صاحب کے پاس ٹھوس ثبوت ہونگے تبھی تو وہ وزیرِ اعظم کے استعفیٰ سے کم کسی چیز پر رضامند نہیں ہیں۔ مگر پھر سب نے دیکھا کہ وہ کس کس طرح یوٹرن لیتے رہے۔

اسمبلیوں سے استعفے دیکر اُسی اسمبلی میں جا بیٹھے جسے وہ جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے ۔ پہلے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہے اور پھر اُس سے بھی واپس ہوئے، اِسی طرح اُس جوڈیشل کمیشن پر بھی رضامند ہو گئے جسے وہ پہلے مسترد کر چکے تھے۔ اب وہ اُسی جوڈیشل کمیشن کے سامنے اپنا کوئی بھی الزام ثابت نہیں کر سکے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو کیا ہوتا مگر سچ کا سچ اور جھوٹ کا جھوٹ یقینا ہو گیا۔ ذہنی اختراع پر مبنی منظم دھاندلی کے جن طریقوں کو وہ برسرِعام اپنی تقریروں کا موضوع بنایا کرتے تھے ان کا ثبوت پیش نہ کر سکے۔

ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ 2013ء میں الیکشن سے قبل جب پنجاب میں نگراں وزیرِ اعلیٰ کے ناموں پر غور کیا جانے لگا تو مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ ناموں پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا۔ نجم سیٹھی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے اتحادیوں نے پیش کیا تھا۔ جسے تحریک ِ انصاف نے بخوشی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی نیم دلانہ رضامندی کے ساتھ قبول کر لیا۔ نجم سیٹھی کو ویسے بھی نون لیگ کا خیر خواہ اور ہمدرد تصور نہیں کیا جاتا رہا ہے۔


کیونکہ وہ مسلم لیگ کے پہلے دورِ اقتدار میں زیرِ عتاب رہے تھے۔ اِس لیے اُن سے یہ توقع کیا جانا کہ وہ ارادتاً اور قصداً مسلم لیگ کو جتانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں بالکل غیر مناسب ، لغو او ر بے معنی دکھائی دیتا ہے۔ پھر جسٹس خلیل الرحمان رمدے اور جناب چیف جسٹس افتخار چوہدری پر بھی نون لیگ کی طرفداری کرنے کے ایسے ہی بے بنیاد الزامات لگائے گئے جنھیں ثابت نہ کرنے پر پر آج تحریک ِ انصاف کو عوام کے سامنے خفت اور سبکی اُٹھانا پڑ رہی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آ جانے کے بعد الیکشن میں دھاندلی کا رونا اب ختم ہونا چاہیے ۔ ملک کے اندر عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضاء پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور بار بار 2015ء کو الیکشن کا سال قرار دینے سے پہلے زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں جہاں جہاں کسی کو مینڈیٹ ملا ہے عوام کی بھر پور خدمت کرنی چاہیے۔

سیاسی نابالغی اور بچگانہ سیاست اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور دشنام طرازی سے یہ ملک کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ ملک گزشتہ 65 برسوں سے ایسی ہی سیاست کا متحمل ہو تا آیا ہے۔ اب کہیں جاکے پاکستان کی باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے مثبت اور تعمیری سیاست کی داغ بیل ڈالی ہے تو تحریکِ انصاف کو بھی قوم کو صحیح راستے پر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ سیاست کرکے عوام کے مزید کئی قیمتی سال نااُمیدی اور مایوسی کی نذر کر دینے چاہیے۔

خان صاحب ابھی چند ماہ قبل صوبہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹمنٹ لانے کی غرض سے دبئی میں ایک روڈ میپ شو کا افتتاح کرنے گئے تھے ۔ وہاں بھی اُنہوں نے انویسٹمنٹ کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ 2015 کو ایک بار پھر الیکشن کا سال کہکر اپنی ساری کوششوں پر یکسر پانی پھیر دیا ۔ ملک کے اند ر سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کی صورت میں بھلا کون یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ ہوگا ۔ اِس کے برعکس اگر صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی کوششوں کو دیکھا جائے تو دونوں کی سیاست میں یہی ایک بڑا فرق اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

جناب شہباز شریف ہمیشہ استحکام اور ساز گار فضاء کی بات کرتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے وہ جب بیرونِ ملک جاتے ہیں تو کبھی اپنے وطن کی خراب صورتحال اور عدم استحکام کی باتیں نہیں کرتے۔ جب کہ خان صاحب افراتفری اور احتجاجی سیاست کے علم بردار ہی رہے ہیں۔ اِسی کو لے کر وہ اسلام آباد دھرنے میں گئے تھے۔ اب جب کہ تحریک انصاف کی توقعات کا شیش محل چکنا چو ر ہو چکا ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوش دلی سے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ قبول کریں اور ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر آگے بڑھنے دیں۔
Load Next Story